کورونا وائرس: پاکستان کی نوجوان آبادی کورونا کے بدترین اثرات سے بچاؤ کی اہم وجہ؟


People wearing face masks watch a movie in the cinema after the government lifted most of the country's remaining coronavirus restrictions, in Peshawar, Pakistan, 10 August 2020.

ایک کمزور صحتِ عامہ کا نظام، ایک بڑی آبادی، اور غربت کی وجہ سے کئی خاندانوں کا گنجان آباد علاقوں میں رہنا، ان ساری وجوہات کی بنا پر پاکستان میں شروع سے ہی کورونا وائرس کی وبا کے تباہ کن ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔

اور جون کے مہینے میں ایسا لگ رہا تھا کہ حالات بہت بگڑ جائیں گے جب ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

بڑے ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے یونٹ بھرے ہوئے تھے اور لوگ اپنے پیاروں کو ہسپتال کے بستر کی تلاش میں لے کر در بدر پھر رہے تھے۔

مگر چند ہی ہفتوں میں ہسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں زبردست کمی دیکھی گئی۔

کچھ ڈاکٹر ابتدائی طور پر اس حوالے سے شکوک میں مبتلا ہوگئے تھے کہ کہیں مریضوں کو ’زہر دیے‘ جانے کی غلط اطلاعات کی وجہ سے کہیں لوگ اپنے گھروں پر خود ہی علاج تو نہیں کرنے لگ گئے۔ مگر یہ کمی متواتر رہی ہے۔

اب پاکستان میں زندگی عام حالات کو لوٹ رہی ہے اور جزوی طور پر لاک ڈاؤن کی آخری پابندیاں بھی اٹھائی جا رہی ہیں۔

23 کروڑ میں سے تقریباً 6000 افراد کی ہلاکت کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر پاکستان اس سلسلے میں کئی مغربی ممالک سے بہتر رہا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں 6 کروڑ 70 لاکھ افراد میں 41000 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمسایہ ملک انڈیا میں دلی اور ممبئی جیسے شہروں میں بھی صوتحال انتہائی بری رہی ہے۔

پاکستان کی یہ کامیابی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لاک ڈاؤن اقدامات کی بارہا مخالفت کے باوجود سامنے آئی ہے۔ وزیراعظم کہتے رہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک میں بھوک و افلاس پھیل جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

نئے متاثرین میں کمی، کیا پاکستان میں کورونا وائرس کا عروج گزر چکا ہے؟

کیا پاکستان میں کورونا وائرس کے اعداد و شمار قابل بھروسہ ہیں؟

کورونا وائرس: پاکستان میں پہلی بار چینی ویکسین کی انسانی آزمائش

مگر پھر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے اعداد و شمار پر مکمل یقین کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں ٹیسٹنگ کی شرح قدرے کم رہی ہے۔ اور اس میں مزید کمی آ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری طور تصدیق شدہ تقریباً 290000 سے کہیں زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثرہ ہیں۔

مگر مریضوں کی تعداد میں کمی اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ جتنے بھی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، ان میں مثبت آنے والوں کی شرح بھی کم ہو رہی ہے اور ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔

لاہور اور کراچی میں حکام سے حاصل کردہ قبرستانوں کے اعداد و شمار کے مطابق جون میں دفنائے گئے افراد کی تعداد میں بہت بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے کہ جن کی وضاحت کورونا وائرس کی وبا سے نہیں کی جا سکتی۔

مثال کے طور پر لاہور کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب میں جون 2020 میں 1176 افراد کو دفنایا گیا۔ گذشتہ سال جون میں یہ تعداد 696 تھی۔

مگر دفنائے گئے افراد میں سے صرف 48 سرکاری طور پر تصدیق شدہ کورونا کے مریض تھے۔ ہلاکتوں میں اضافہ ممکنہ طور پر غیر تصدیق شدہ کورونا کے مریض اور ہسپتالوں تک نہ پہنچ سکنے والے دیگر امراض میں مبتلا افراد کے ہلاک ہونے کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔

اسی طرح جون 2020 میں کراچی میں دفنائے گئے افراد کی تعداد گذشتہ دو سالوں میں کسی بھی مہینے سے زیادہ ہے۔

مگر دونوں شہروں میں دفنائے جانے والے افراد کی تعداد اپنی عمومی سطح پر لوٹ رہی ہے۔ مگر اگر ہم اضافی اموات میں سے کچھ کو کورونا وائرس کی وجہ سے قرار دے بھی دیں تو بھی پاکستان میں اموات کی شرح عالمی تناظر میں قدرے کم (اگرچہ اتنی بھی کم نہیں جتنی حکومت بتا رہی ہے)۔

پاکستان کے معروف ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر رانا جواد اصغر کے لیے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 22 ہے، برطانیہ میں یہ تقریباً 41 ہے۔ دنیا میں ہلاکتوں میں اکثریت بڑی عمر کے لوگوں کی ہے۔

ڈاکٹر اصغر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چار فیصد سے بھی کم آبادی 65 سال کی عمر سے زیادہ کی ہے جبکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح تقریباً 20 سے 25 فیصد ہے۔ ’اسی لیے پاکستان میں اتنی اموات نہیں ہوئیں۔‘

A man wears a protective mask as he has a haircut at a barbershop, after Pakistan lifted lockdown restrictions, as the coronavirus disease (Covid-19) outbreak continues, in Karachi, Pakistan August 10, 2020.

ڈاکٹر اصغر کا یہ بھی کہنا ہے ترقی پزیر ممالک میں مغربی ممالک کے مقابلے میں لوگوں کے سماجی تعلقات کا دائرہ قدرے چھوٹا ہوتا ہے۔

’ایک دفعہ جب وائرس ان سماجی تعلقات کے دائرے سے گزر جاتا ہے پھر یہ مر ہی جاتا ہے۔‘

مگر اب تک گرم تر موسم اور دیگر بیماریوں کی پہلے سے موجودگی کے بارے میں وضاحتیں ابھی تک ثابت نہیں کی جا سکی ہیں۔

پاکستان میں کورونا وائرس میں کمی اس وقت شروع ہوئی جب حکومت نے سمارٹ لاک ڈاؤن کا لائحہِ عمل اپنایا جب ان علاقوں میں لاک ڈاؤن کیا گیا جہاں وبا کے پھیلنے کے امکانات تھے۔

وبائی امراض کے سماجی تناظر کی ماہر لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی ڈاکٹر مشال خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اس حوالے سے بہتر علامات ہیں مگر یہ مکمل وضاحت نہیں ہے۔

اگرچہ آبادی کی عمر اور سماجی رویوں سے یہ تو بتایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی صورتحال مغربی ممالک سے کیوں مختلف ہے مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ یہ ہمسایہ ملک انڈیا جیسی کیوں نہیں ہے۔

انڈیا میں اموات فی دس لاکھ افراد پاکستان کی شرح سے ملتی جلتی ہے مگر وہاں ہسپتالوں پر دباؤ زیادہ پڑا ہے اور کیسز میں ابھی بھی تیزی آ رہی ہے۔

A man and woman wear protective masks while walking along a street after Pakistan lifted lockdown restrictions, as the coronavirus disease (COVID-19) outbreak continues, in Karachi, Pakistan August 18, 2020.

ایک خیال یہ ہے کہ انڈیا میں شہر زیادہ گنجان آباد ہیں۔ پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈئا کے پروفیسر کے شریناتھ نے اس بات کی نشادہی کی ہے کہ دلی اور ممبئی دونوں میں کسیز میں تیزی اب نہیں آ رہی اور ملک کے دیگر حصوں میں سے کیسز آ رہے ہیں۔ مگر ڈاکٹر اصغر کا کہنا ہے کہ ابھی ایسے موازنے کرنا قبل از وقت ہے۔

پاکستان میں ابھی بھی دوسری لہر کا خطرہ موجود ہے۔ جولائی میں ادویات بنانے والی ایک کمپنی گیٹز فارما کے کراچی میں ایک جائزے کے مطابق ملک کی 17.5 فیصد آبادی کا اس وائرس سے سامنا ہوا ہے۔ یعنی ابھی بہت سے لوگوں کو اس وائرس کی علامات ہو سکتی ہیں۔

پابندیوں کے خاتمے کے بعد اب جب پاکستان میں مقامی سیاحوں کی ایک بڑئ تعداد شہروں سے اٹھ کر دیہاتوں میں جا رہی ہے، تو یہ خصوصی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وائرس ترقی پزیر علاقوں میں پھیل سکتا ہے جہاں صحتِ عامہ کے وسائل کی کمی ہے۔

ڈاکٹر اصغر نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹریکنگ کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں صورتحال قدرے بہتر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اب خطرے سے باہر آ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp