ظلم اتنا کرو جتنا برداشت کر سکو


وہ دھرتی جس کی خاطر ہمارے اجداد نے جان ومال اور جائیدادوں کی قربانی دی اور پھر بھی خوش تھے کہ ہم نے ا پنا ایک ملک پالیا ہے۔ اور جس پر آتے ہی انہوں نے اپنی جبینوں سے شکرانے کے سجدے ثبت کیے تھے۔ آج اس دھرتی ماں کو ہمارے لیے سوتیلی ہی نہیں بلکہ کالی ماتا بنا دیا گیا ہے جو ہر وقت ہمارا خون پینے پر تیار ہے۔ جن بیٹوں اور بھائیوں کے شانہ بشانہ ہم نے اس کی حفاظت کی وہ آج کہتے ہیں۔

یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

چند روز قبل پشاور میں ایک پارساؤں کی بستی میں ایک کلمہ گو صوم و صلوۃ کے پابند ”کافر مطلق“ کو بے دردی سے شہید کر دیا۔ اکسٹھ سالہ معراج احمد اس وقت اپنی فارمیسی بند کر کے گھر جا رہے تھے۔ وہ نہتے تھے۔ کافی عرصہ سے ظالموں نے ان پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا شروع کیا ہو ا تھا۔ مئی میں ان کے میڈیکل سٹور پر ان کے بیٹے کی تصویر سمیت ایک پوسٹ فیس بک پر شیئر کی گئی تھی کہ یہ قادیانیوں کا سٹور ہے یہاں سے کچھ نہ خریدا جائے۔

( تب فیس بک پر اطلاق کیے گئے قوانین حرکت میں نہیں آئے ) ان کے رزق کمانے پر ان کے زندہ رہنے پر ہر چیز پر ان کی طرف سے پابندی لگائی جا رہی تھی جینے کے حق سے محروم کیا جا رہا تھا۔ یہ کام علی الاعلان ہوا ہے۔ کھلے عام احمدیوں کے متعلق مغلظات بکے جاتے ہیں۔ اور منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ مگر قانونی ادارے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا مصداق بنے رہتے ہیں بلکہ اکثر مجرمان کے سہولت کار نکل آتے ہیں۔

اسی طرح پچھلے دنوں ایک ایسے شخص کو بھری عدالت میں گولیوں سے بھون دیا گیا جو ان کی تفہیم کے مطابق گمراہ کن عقائد رکھتا تھا۔ حالانکہ اس نے ایک مجمع میں ان کے پیچھے کلمہ پڑھا اور ان کے عقائد کے مطابق ”مسلمان“ ہو گیا تھا۔ مگرنیتوں کا بھید جاننے کے دعوے داروں کی تسلی نہیں ہوئی۔ اس کو ماردیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہاس شخص کو بشارت ہوئی تھی اور یہانت ک سنا ہے کہ کہا گیا حضور ﷺ نے خود اس کو یہ پستول فراہم کی تھی کہ ا س کو مار دو۔ (معاذ اللہ)۔

نیز یہ بھی کہا گیا کہ اس شخص کو معجزۃً سی سی ٹی وی بھی نہ دیکھ سکا۔ بعد کے واقعا ت نے ثابت کیا کہ سب سرا سر جھوٹ تھا۔ پکڑے جانے کے بعد سب سے پہلا جھوٹ ا س شخص نے یہ بولا کہ اس کا نام فیصل ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کو پستول کسی نے نہیں دی۔ معلوم ہوا کہ ایک قانون کے محافظ وکیل نے اس کو پستول دی۔ شہادت کا خواہشمند یہ شخص اب رحم کی اپیلیں بھی کرے گا۔ شاید کر بھی دی ہوں۔ کیا سچ کو ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے؟

ہوتا یہ ہے کہ نوجوان گرم خون میں حضور ﷺ کی محبت کے پاکیزہ جذبات ابھار کر اپنے فائدے حاصل کیے جاتے ہیں۔ ان کو یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم تمہارا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیں گے۔ ان کو قتل کرنے پر تیار کیا جاتا ہے۔ مقصد اپنی اجارہ داری اور معاشرے میں امن امان کی صورت حال کو خراب کرنا ہوتا ہے۔ ورنہ کس کے پاس وقت یا وسائل ہوتے ہیں ان کاموں کے لیے۔

اسی طرح ایک اور خبط الحوا س شخص کی دو ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جس میں وہ جو خود کو اللہ کا پیامبر کہہ رہا تھا نیز کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے بات کرتا ہے۔ ایک شعلہ فشاں خونخوار جتھے نے ا س کو گھیرا ہو ا تھا۔ ہو کیا گیا ہے؟ کیا ہوئی مومنانہ بردباری اور برداشت۔ ہر کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ سب کام چھوڑ ایک ایسے شخص کی جان کے پیچھے پڑ جاتے یہیں جس کو اللہ نے خود نمٹ لینے کا وعدہ کر رکھا ہے کہ جھوٹ کو میں شہ رگ سے کاٹ دوں گا۔

پشاور میں جس احمدی فارمیسسٹ کو دھمکیاں دی جارہی تھیں قانون نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔ اس بے چارے نے خود تو کوئی جوابی کارروائی نہیں کی کہ ان کی نازک مزاجی کو ٹھیس نہ لگے۔ نہ گالی کے جواب میں گالی دی نہ کوئی اور احتجاج کیا۔ لیکن پھر بھی ظالمو ں نے اس سے جینے کا حق چھین ہی لیا۔ اس کے بچوں کے سر سے سائبان نوچ لیا۔ ایک لمحہ کے لیے دل نہیں کانپا کہ یہ مکروہ کام وہ رحمت اللعالمین ﷺ کے نام پر کر رہے ہیں۔ اسی پر بس نہیں کیا اس کے بعد اس کے حامیوں نے بھی کھلم کھلا اپنے مزموم عزائم کی تشہیر کرنا شروع کردی ہے۔

اس ایک پوسٹ سے ہی ندازہ لگا سکتے ہیں ایک شخص اپنے پورے نام اور پہچان کے ساتھ میڈیا پر یہ کہ ہے کہ، یہ عقیدہ رکھنے والا قادیانی مجھے جہاں ملا میں اس کو مار دوں گا کیونکہ مجھے اللہ سے پیار ہے۔ میرا جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو مجھے دنیا کی پرواہ نہیں ”۔ حیرت ہے کہ حکومت کے قانونی ادارے خاموش ہیں کوئی ایکشن نہیں لیتے۔ بڑے بڑے بینرز لگا کر پوسٹر تقسیم کر کے احمدیوں کو نشانہ بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر کوئی قانون وقت پر ان کی گرفت نہیں کرتا۔

کیا یہ غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی طریق کسی مہذب معاشرے میں قبول عام ہو سکتا ہے؟ اس سے ہمیں اپنی قوم کی بونی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ ایک انتہائی سنگین جرم ہے انسانیت اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔

کیا خداخاموش رہے گا؟ کیا پہلے سے موجود آفات کم ہیں جو خدا کے غضب کو مزید دعوت دے رہے ہیں؟

احمدیوں کے لئے اپنے عقائد پر عمل اپنی دکانوں پر اپنے ہی علاقے میں اپنے عقیدے کی کتب رکھنا جرم ہے۔ اسلامی شعائر اپنانا قرآن پڑھنا نماز پڑھنا اذان دینا۔ کلمہ پڑھنا سب جرم ہیں۔ ان کو کہا جاتا ہے کہ تم کسی کو سلام بھی نہیں کر سکتے۔ اپنے نام مسلمانوں کی طرح نہیں رکھ سکتے۔ تمہارے عقیدے کی تفہیم ہم کریں گے۔ تمہاری نیتوں کی تعین ہم کریں گے، جیو تو ہماری شرطوں پر اور مرو تو ہمارہ مرضی سے۔ بلکہ قبریں اکھاڑ کر احمدی مردوں کو باہر پھینک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے مردوں نے خواب میں آ کر بتایا ہے کہ احمدیوں کی وجہ سے ہمارے مردوں پر عذاب آیا ہو اہے۔

یہ ان قبرستانوں کو بھول جاتے ہیں جن میں ان کے مطابق مسلمان لوگ جا کر مردوں کا گوشت کھانے کے لیے لاشیں چرا لیتے ہیں۔ ان کے بال چوری کرتے ہیں۔ کفن چوری کرتے ہیں اور تو اور۔ کہتے ہوئے دقت ہو رہی ہے کہ خواتین کی عصمت ان کے ہاتھوں قبروں میں بھی محفوظ نہیں ہوتی۔ تب اس قبرستان کے مردے ان کو کچھ نہیں بتاتے کہ وہ کس دردناک صورتحا ل سے گزر رہے ہیں۔

قائد اعظمؒ نے پاکستان کے وجود میں آ تے ہی واضح کر دیا تھا کہ تم آزاد ہو اپنی مسجدوں مندرو ں اور عباد ت گاہوں میں جانے کے لیے۔ مگرآ ج یہاں ہر مسلک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر بیٹھا ہے اور اس تاک میں ہے کہ کوئی غیر مسلک آئے تو ا سکی خبر لے۔ فتنہ اور فساد کی صورت پیدا کرے۔ قرآن میں واضح حکم ہے کہ الفتنہ اشد من القتل۔

پاکستان میں ایک مسلمان تو غیر مسلمون کو تبلیغ کر سکتا ہے لیکن وہ جواب میں اگر غیر مسلم کو اپنے عقائد ہی بتا دے تو وہ گستاخ رسول قرار دیا جاتا ہے۔ ا س کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ زندہ جلتی ہوئی بھٹیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ گرجاؤں میں عین جب لوگ عبادت میں مشغول ہو ں بم چلا دیا جاتا ہے۔ ان کے ذہنی مریض بچوں پر بھی گستاخی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ہندوؤں کی بچیوں کو زبردستی مسلمان کر کے شادیاں کرنے کے واقعات بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ واللہ اعلم

علاوہ ازیں کاروباری حسد اور جائیدادیں ہتھیانے کے لیے نیز قتل چھپانے کے لیے بھی مذہب کا کارڈ استعمال ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے۔ مذہب کو ایک اندھیر نگری، ایک دہشت کی علامت بنا دیاگیا ہے۔

خود یہی مسلمان اغیار کے ممالک میں جب جاتے ہیں تو تمام انسانی حقوق، بلکہ برابر کے حقوق لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کیا اسلام مذہبی رواداری کا مذہب نہیں ہے؟ ہے اور یقیناً ہے۔ مگر یہ لوگ اسلام کو جانتے ہی کیا ہیں؟ سمجھتے ہی کیا ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ظلم اتنا ہی کرو جتنا خود برداشت کر سکو۔ دنیا مکافات عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).