لیبیا کی خانہ جنگی، متحرب گروپ کا فائر بندی پر اتفاق


لیبیا

لیبیا میں متحرب گروہوں کے حکام نے فوری طور پر فائر بندی کا اعلان کیا ہے۔ ٹریپولی میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قومی مفاہمت کی حکومت (جی این اے) نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں آئندہ سال مارچ میں انتخابات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لیبیا میں پھر سے خانہ جنگی، عالمی طاقتوں کی مذمت

لیبیا میں تیل کے ٹرمینلز کے کنٹرول کی لڑائی

اس معاہدے پر جنرل خلیفہ حفتر کے ایک اتحادی نے بھی دستخط کیے ہیں جن کا ملک کے مشرقی اور جنوبی علاقوں پر کنٹرول ہے۔

لیبیا کے سابق سربراہ معمر قدافی کو سنہ 2011 میں حکومت سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے ملک خان جنگی کا شکار ہے۔

تیل سے مالا مال ملک لیبیا افریقہ سے یورپ آنے والے غیر قانونی تارکیں وطن کی بڑی گزر گاہ ہے۔ لیبیا میں جاری لڑائی کی وجہ سے نیٹو اتحاد میں شامل ملکوں میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔

گزشتہ ماہ فرانس نے خطے میں ‘گارڈین سی’ کے نام سے جاری سمندری کارروائیوں سے، ترکی کی طرف سے مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر لیبیا کو اسلحہ فراہم کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے، علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

کہا گیا تھا کہ بحیرہ روم میں ترکی کے جنگی جہازوں کی طرف سے مبینہ طور پر فرانس کے جنگی جہازوں پر حملہ کیا گیا جس کی انقرہ سختی سے تردید کرتا ہے۔

متحرب گروپ کیا کہتے ہیں؟

جی این اے کے سربراہ فیض السراج نے تمام مسلحہ فورسز کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ فوری طور پر فائر بندی اور لیبیا کی سرحدوں کے اندر تمام فوجی کارروائیاں بند کر دیں۔

جنرل ہفتر کی طرف سے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا لیکن ایگولا صلاح جو مشرق میں قائم پارلیمان کے سپیکر ہیں انہوں نے بھی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔

اقوام متحدہ اور مصر کے صدر عبدالفتح السیسی جو جنرل حفتر کی حمایت کرتے ہیں انہوں نے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس کا پس منظر کیا ہے؟

لیبیا میں جاری خانہ جنگی میں سرگرم متحرب گروپ کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہیں۔ ترکی، اٹلی اور قطر ٹریپولی میں قائم بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جی این اے کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ روس، مصر اور اقوام متحدہ عرب امارات جنرل حفتر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

فرانس کے بارے میں خیال کیا جا رہا کہ وہ جنرل حفتر کی حمایت کر رہے رہا ہے گو کہ فرانس اس بات کی تردید کرتا ہے۔

اقوام متحدہ نے لیبیا اسلحہ اور فوجی جانے سے روکنے کے لیے پابندیاں لگا رکھی تھیں لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔

ترکی نے سنہ 2019 میں لیبیا کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت سے فوجی تعاون کرنے کا اعلان کیا تھا اور جنوری میں وہاں فوج بھی تعینات کر دی۔

ترکی کی مدد سے جی این اے کی حکومت نے اس سال جون میں ٹریپولی پر قبصہ حاصل کر لیا تھا۔ جنرل حفتر نے اپنی فورسز کو شہر اور اس کے مضافات سے نکال لیا تھا۔

اس سال مئی کے مہینے میں اقوام متحدہ کی سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ روس کی ایک کمپنی ویگنر نے سینکڑوں کی تعداد میں کرائے کے فوجی بھیجے تھے۔ ویگنر گروپ روس کے صدر ولادمیر پوتن کے ایک قریبی ساتھی یوگنی پرگوزن چلاتے ہیں۔

اس قسم کی بھی اطلاعات ہیں کہ ویگنر گروپ اپنے کرائے کے فوج لیبیا سے واپس بلا رہا ہے لیکن اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp