ہم ایک قوم کب بنیں گے؟


یہیں سے تو مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ ہم پر یکساں یا غالب شناخت کی بنیاد پر ایک قوم بنانے کی کوششیں مسلط کی جاتی رہی ہیں جو کہ ممکن ہی نہیں! نہ ہی کوئی یہ طے کر سکتا ہے کہ ہم ”صرف مسلمان“ یا ”صرف پاکستانی“ ہیں۔ اور نہ یہ کہ ہم ”پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی“ ہیں۔ یہ ”صرف“ اور ”پہلے یہ پھر وہ“ کے حصار شناختوں کو محدود کر ہی نہیں سکتے۔ تاریخ انسانی میں شناختوں کو محدود کرنے (identity reductionism) کی کوششوں نے فقط نفرتوں اور جنگوں کو ہی فروغ دیاہے۔

گو کہ یکساں یا غالب شناخت کا تصور نیا نہیں۔ لیکن اس بنیاد پر ایک ریاست کے جدید تصور کی ابتداء سترہویں صدی کے یورپ سے ہوئی۔ عرصہ دراز سے جاری جنگوں کے خاتمے کے لیے یورپی طاقتوں نے سن 1648 میں کئی معاہدے کئیے جو کہ تاریخ میں ویسٹ فیلیا معاہدہ امن (Peace of Westphalia) کے نام سے مشہور ہیں۔ نیشن۔ اسٹیٹ کے تصور کی ابتداء یہیں سے ہوئی۔ ویسٹ فیلین معاہدے سے برآمد شدہ نیشنل ازم جرمنی اور اٹلی جیسی اقوام کو متحد کرنے میں مددگار ثابت ہوا اور یورپی استعماری دور کے اواخر میں آزادی کی تحریکوں نے بھی اس تصور کا خوب فائدہ اٹھایا۔

لیکن جیسا کہ اے۔ سی گریلنگ اپنی کتاب Towards the Light of Liberty میں لکھتے ہیں، اس تصور کی افادیت بس یہیں تک محدود رہی کیونکہ بیسویں صدی کی بڑے تنازعات اور جنگیں بھی نیشنل ازم کے اس یورپی تصور کی دین ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے بھی پروفیسر رسول بخش رئیس اپنی کتاب Islam، Ethnicity and Power Politics میں رقمطراز ہیں کہ پاکستان جیسا ملک جہاں مختلف النسل اور مختلف الزبان افراد رہتے ہوں، نیشن۔ اسٹیٹ کے مغربی تصور کو کاپی پیسٹ کرنے ریاستی کوششیں نقصان دہ ہی ثابت ہوئی ہیں۔

شناخت یا پہچان کی خواہش انسان میں ازل سے ہے۔ لیکن دوسری طرف انسان کی واحد مستقل شناخت فقط اس کا انسان ہوناہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری مستقل شناخت کا وجود نہیں۔ تاریخ کے آغاز میں جب انسان فقط قبائل تک محدود تھا، محدود شناختیں بے شک غیر متعلقہ نہ ہوں۔ لیکن انسان کے اکائیوں سے قبائل، قبائل سے ملک، اور ملکوں سے تہذیب تک کے پھیلاؤ نے شناختوں کو بھی وسعت دے دی ہے۔ نوبل انعام یافتہ معیشت دان اور فلسفی امرتیا سین اپنی کتاب Identity and Violence میں لکھتے ہیں کہ ایک انسان کی کئی شناختیں ہیں اور ہر شناخت سیاق و سباق کی محتاج ہے، حتی کہ انسانی شناخت کو فقط ایک تہذیب تک بھی محدود نہیں کیا جاسکتا۔

مثال کے طور پر آپ بیک وقت ایک ”مسلمان“ ، ایک پاکستانی ”، ایک“ پنجابی ”، ایک“ مڈل کلاس ”،“ مرد ”یا“ عورت ”ہو سکتے ہیں جو کہ سیاسی طور پر“ سرمایہ داریت ”سے متاثر ہو۔ یہ ساری کی ساری آپ کی شناختیں ہیں جنہیں آپ روزمرہ کی زندگی میں اپنے آپ کو کسی ایک گروہ سے وابستہ کرنے کے لیے اکثر استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ پاکستان انڈیا کے میچ میں آپ اپنی“ پاکستانی ”شناخت کو ہر چیز پر فوقیت دیں چاہے آپ کا مذہب کچھ بھی ہو، آپ مرد ہوں یا عورت، مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہوں یا امیر طبقے سے، اور چاہے اشتراکی نظریے کے طرفدار ہوں یا خالص اسلامی سیاسی نظام کا خواہاں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ“ پاکستانی ”شناخت اس وقت پس منظر میں چلی جائے جب آپ کو اپنی وابستگی ایک“ تعلیم یافتہ ”“ مزدور ”طبقے کے طور پر ظاہر کرنا مقصود ہو۔

انسان تن آسان ہے اور فطرتا پیچیدہ وضاحتوں سے دور بھاگتا ہے۔ جو چیز آسانی سے سمجھ آ جائے بس وہی درست ہوگی۔ اسی تن آسانی نے شناختوں کو حصاروں میں محدود کرنا قابل قبول بنا دیا ہے۔ جب سیموئل فلپس ہنٹنگٹن ”تہذیبوں کے تصادم“ کا نظریہ پیش کرتے ہیں تو یہ بات زیادہ جلدی دل میں گھر کر جاتی ہے۔ کیونکہ یہ بات قبول کرنا زیادہ آسان لگتا ہے کہ دنیا میں فسادات کی وجہ اسلامی تہذیب کامغربی تہذیب سے ٹکراؤ ہے۔ حالانکہ یہ اور اس جیسے دوسرے تخفیفی (reductionist) نظریے نہ صرف انسان کی باقی شناختوں کو رد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ فساد کا نقطۂ آغاز بھی ہیں۔

شناختوں کی ترجیحات کے دائرے overlapping ہوتے ہیں اور یہ ترجیحات سیاق وسباق، وقت، حالات اور ماحول کے زیر اثر بدلتی رہتی ہیں۔ کس شناخت کو آپ کب اور کہاں فوقیت دیتے ہیں اس بات کا انحصار حالات و واقعات پر ہوتا ہے۔ اور انہی حالات و واقعات کے زیر اثر آپ خود یہ طے کرتے ہیں کہ آپ کہ ترجیحی شناخت (ان مخصوص حالات میں ) کیا ہے۔ یہ آپ پر مسلط نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کی مطلق شناخت فلاں فلاں ہے۔

لہذا وہ تمام معاشرتی، سیاسی اور مذہبی نظریے جو آپ کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ نہیں بیٹا، پہلے تم یہ ہو بعد میں کچھ اور، انہیں پرے کردیں۔ ایسے نظریات نے نفرتوں کو فروغ دینے کے سوا کچھ نہیں کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).