گلوکار اخلاق احمد


دہلی میں 10 جنوری 1946 کو پیدا ہونے والے اخلاق احمد 1947 میں قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔ ان کے تمام تذکروں میں تاریخ پیدائش 1946 ملتی ہے لیکن لندن میں واقع ان کی قبر کے کتبے پر تاریخ پیدائش 1950 لکھی ہے۔ انہوں نے 1960 کی دہائی میں کراچی اسٹیج سے فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ پاکستانی فلمی دنیا کے پس پردہ گلوکاروں کی تیسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک دہائی سے بھی زیادہ جدوجہد کرنے کے بعد بالآخر ان کا گلوکار کی حیثیت سے اعتراف کیا گیا اور پہچان ملی۔ پہلی مرتبہ 1973 میں کراچی میں بننے والی فلم ”پازیب“ ( 1972 ) میں انہیں پس پردہ گلوکاری کا موقع ملا۔ انہیں یہ موقع لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال کی وجہ سے ملا۔ اس فلم کے مشترکہ فلمساز سید غفران علی شاہ اور بیگم نواب زادہ حامد علی خان اور اس کے ہدایتکار بھارت سے آئے ہوئے ’اے آر راکھن‘ تھے۔

کہانی بھی راکھن صاحب ہی کی لکھی ہوئی تھی۔ جب کہ مکالمے اور گیت فیاضؔ ہاشمی کے تھے۔ اخلاق احمد کا یہ پہلا گیت ایک مزاحیہ گانا تھا: ’او ماما میرے او چاچا میرے۔۔۔‘ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی فلمی دنیا میں احمد رشدی کا طوطی بولتا تھا۔ ایسے میں کسی نئی مردانہ آواز کا فلموں میں جگہ بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پھر بھی اپنی محنت سے اخلاق نے تھوڑی بہت کامیابیاں حاصل کر ہی لیں۔ 1970 سے 1980 کے دوران وہ ا پنی صلاحیت کی بنا پر ایک نمایاں شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔

فلم ”پازیب“ کے بعد اگلے سال فرینڈلی فلمز کی کامیاب فلم ”چاہت“ (1974) سے صحیح معنوں میں اخلاق احمد کی قسمت کھلی اور ایک عالم میں ان کی شہرت ہوئی۔ مذکورہ فلم کے فلمساز و ہدایتکار رحمن تھے۔ یہ خود اس وقت صف اول کے اداکار تھے۔ اس فلم کے تذکرے میں دو گیت نگاروں کے نام ملتے ہیں : اختر ؔ یوسف اور خواجہ پرویز۔ جبکہ موسیقار روبن گھوش تھے۔ اخترؔ یوسف کے خوبصورت گیت کی دھن روبن گھوش نے سادا لیکن دل موہ لینے والی بنائی۔ اور انہوں نے اسے اخلاق احمد سے نہایت عمدگی سے گوایا کہ مجھ سمیت تمام اہل وطن کے کانوں کو بہت بھلا لگا۔۔۔ جیسے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہو : ’ساون آئے ساون جائے تجھ کو پکاریں گیت ہمارے۔.. ‘ ۔ یہ ہی وہ گیت ہے جو اخلاق احمد کا پہچان گیت بنا۔ ریڈیو پاکستان کے تمام ہی اسٹیشنوں سے یہ گیت دن میں کئی کئی مرتبہ نشر ہوتا تھا۔ یہ نغمہ اخلاق احمد کی ایک عرصے کی جدوجہد کا ثمر ثابت ہوا۔ پھر اس کے بعد تو اخلاق پر فلم نگری نے اپنے دروازے کھول دیے۔ یہ گیت اخلاق احمد کی زندگی کا ایک اہم اور حسین موڑ ہے۔

اسٹیج، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے نامور موسیقار زیڈ ایچ فہیم نے بھی ایک عرصہ اخلاق احمد کے ساتھ گزارا ہے۔ میں نے سوچا کہ ان سے فون پر کچھ گفتگو کی جائے۔ تو ابھی کچھ دیر پہلے کی گئی گفتگو حاضر ہے :

”وہ میرے ساتھ بینجو بجایا کرتا تھا۔ تب اس کے ذہن میں گانے کا کوئی تصور نہیں تھا کہ ایک دن وہ گلوکار بن جا ئے گا۔ میں گاتا اور وہ میرے ساتھ بینجو بجاتا۔ پھر ایک دن ایک چھوٹی سی محفل ہوئی جس میں اس نے پہلی مرتبہ گانا گایا۔ اس وقت کراچی میں ’پٹلو سسٹرز‘ ہوتی تھیں ( بینجمن سسٹرز سے بہت پہلے کی بات ہے)۔ میں ان کے ساتھ موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اخلاق احمد نے بھی ایسے پروگراموں میں بینجو بجانے کے ساتھ ساتھ رفیع صاحب کے گانے گانے شروع کیے ۔

میں اس کے ساتھ ہارمونیم بجاتا تھا۔ اخلاق کو بہت اشتیاق تھا کہ وہ موسیقار نثار بزمی صاحب کو اپنا گانا سنائے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے میرے ساتھ چلنا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بزمی صاحب کی بیٹی کی شادی آ گئی۔ ا س وقت سیدھا سادا زمانہ تھا گھر کے سامنے ہی پیلے ہرے تمبو لگ جاتے تھے۔ میں اخلاق کو وہاں لے گیا۔ ادھر اور بھی کچھ گلوکار بیٹھے تھے۔ وہاں گانا بجانا بھی ہوا۔ ہم بھی احتراماً سب کے ساتھ بجاتے رہے۔ بزمی صاحب سب کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔

اخلاق نے بھی اپنی باری پر کچھ گیت سنائے اور مجھے کہنی ماری کہ بزمی صاحب سے پوچھوں کہ میرا گانا کیسا لگا؟ جب میں نے پوچھا تو بزمی صاحب بولے کہ بیٹا آپ نے رفیع صاحب کو بہت اچھا گایا۔ واقعی آپ کی آواز تو اچھی ہے لیکن میں نے ابھی تک آپ کو نہیں سنا! اخلاق مطلب نہیں سمجھا۔ پھر سمجھایا کہ آپ دوسروں کی آواز میں گا رہے ہیں۔ خود اپنی آواز میں سنائیے! وہ سمجھ گئے کہ بچہ گھبرا گیا ہے۔ پھر کہا کہ کسی وقت مجھ سے ملنا۔

اس کے بعد نذیر بیگ (فلمسٹار ندیم) کے ذریعے جو اس کے دوست بھی تھے، وہ ’ساون آئے ساون جائے۔۔۔‘ تک پہنچا۔ اس کے بعد وہ پی ٹی وی کراچی آئے تو پروڈیوسر حیدر امام رضوی نے مجھ سے کہا جب کہ میں اس وقت پی ٹی وی کراچی میں موسیقار تھا کہ لاہور سے اخلاق آیا ہوا ہے۔ ذرا جلدی سے اس سے ایک قومی نغمہ گوا دو۔ یہ فلر نغمہ ہو گا۔ کسی بھی قومی دن پر لگا کرے گا۔ حیدر امام تھے بھی گھومتی اینٹ کہ ابھی چاہیے ورنہ نہیں! میں نے سہیل ؔ ادیب صاحب سے گیت لکھوایا۔ پھر اخلاق کو بلوایا۔ ایک گھنٹے میں اس کو استھائی انترے یاد کروائے۔ اگلے گھنٹے میں ’ اسٹوڈیو بی‘ میں براہ راست ریکارڈ کروا دیا۔ یعنی آڈیو ویڈیو ایک ساتھ۔ اسے لائیو ریکارڈنگ کہا جاتا ہے۔ اس نغمے کے بول یاد نہیں۔ پھر اخلاق فلموں میں مصروف ہو گیا اور اخلاق احمد بن گیا ”۔

” وہ اپنے عروج کے زمانے میں ملا تو کس طرح ملا؟“ ۔ میں نے فہیم صاحب سے سوال کیا۔

” نہیں نہیں! اس میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ بالکل پہلے ہی کی طرح سے ملا۔ ہم تو پہلے سے ابے تبے سے بات کرتے تھے۔ اس کو بھی ’ٹریٹ بلیڈ‘ سے اپنا بینجو بجانا یاد تھا“ ۔

پاکستان ٹیلی وژن کے لازوال گیت ’تم سنگ نیناں لاگے مانے نہیں جیا را‘ کے کمپوزر اسٹیج، ٹی وی اور فلم کے اداکار پاکستان ٹیلی وژن کے پہلے فیملی کامیڈی ڈرامہ شہزوری کے مزاحیہ اداکار گلوکار، میوزیشن، ارینجر اور موسیقار خالد نظامی نے بھی اخلاق احمد سے متعلق ایسی ہی باتیں کیں۔

اس سلسلے میں مجھے اپنے محترم دوست جارج بھٹی کی ایک دلچسپ بات یاد آئی۔ بھٹی صاحب کراچی میں اپنے آڈیو اسٹوڈیو میں انگریزی کلاسیکی فلموں کی اردو ڈبنگ کرتے ہیں۔ مشہور زمانہ ہالی وڈ کی فلم ”بن حر’ اور کئی ایک غیر ملکی ڈرامے بھی ان کے ہاں اردو ڈب ہوئے ہیں۔ اس کام میں ماشاء اللہ ان کے دو جڑواں بیٹے رضوان اور عرفان اور صاحبزادی عنبرین بھی شریک ہوتی تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا:

”ایک روز میں ہوٹل میٹروپول میں شام کو چائے پینے کچھ دوستوں کے ساتھ گیا۔ ہماری ٹیبل کے برابر ضیا محی الدین اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم لوگ ان کے پاس گئے اور گفتگو شروع کی۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ میری شباہت ضرور ضیا محی الدین سے ملتی ہے لیکن میں اختر یوسف ہوں جو فلموں کے لئے گیت لکھتا ہوں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی شباہت ضیاء محی الدین کے ساتھ تھی۔ اس زمانے میں کیا، اب بھی اکثر فلموں کے مشہور گیت نگاروں کی تصاویر میڈیا میں عام نہیں۔

بہر حال تھوڑی دیرکی گفتگو سے میری ان سے ایسی دوستی ہوئی کہ ان کی زندگی کے آخری دن تک قائم رہی۔ بہرحال! اس گفتگو کے فوراً بعد اداکار رحمن بھی وہاں آ گئے۔ اور رسمی دعا سلام کے بعد انہوں نے اخترؔ یوسف سے کہا کہ ’ساون آئے۔۔۔‘ کی طرح میری نئی فلم کا ایک اور گیت اخلاق احمد کے لئے فوراً درکار ہے“ ۔

اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ ایک ہی فلمی گیت نے 1974 میں اخلاق کی مانگ میں اضافہ کر دیا۔ اب فلمساز و ہدایتکار اور فلم کے ہیرو رحمن ایک گیت نگار سے اخلاق احمد کا نام لے کر ایک مقبول ہونے والے گیت کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اخلاق سے میری ملاقاتیں :

ہاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز سے منسلک ہونے سے پہلے بھی میری اخلاق سے سلام دعا تھی۔ غالباً سال 1975 ہو گا، اس کی فلم ”دو ساتھی“ ریلیز ہو چکی تھی۔ میں حسن اسکوائر میں رہتا تھا۔ وہیں ای ایم آئی پاکستان لمیٹڈ کے حئی ملک صاحب اور ا ے اینڈ آر منیجر ارشد محمود بھی رہتے تھے۔ یہ بعد میں ٹیلی وژن کے اداکار اور موسیقار بھی بنے۔ ان کے ہاں کسی تقریب میں ایک دو مرتبہ میری اخلاق احمد سے ملاقات ہوئی۔ وہ سادہ طبیعت والا تھا۔ پیسے کا لالچ نہیں تھا۔ جو کسی نے دے دیا لے لیا۔ نہایت دھیمے مزاج کا تھا۔ جب بھی کسی سے ملتا، چہرے پر مسکرا ہٹ ہوتی۔ چونکہ خود میوزشن رہا تھا لہٰذا ساری زندگی میوزشنوں کی بہت عزت کی۔

پھر جب میں نے خود EMI میں ساؤنڈ کا کام سیکھا تب بھی اخلاق سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ مجھے ’مولوی‘ کہتا تھا۔ پھر 1980 میں جب میں پاکستان ٹیلی وژن سے منسلک ہوا تب وہ اپنے عروج پر تھا۔ میں نے پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے ساتھ پروگرام ”آواز و ا نداز“ اس سے بھی کروایا۔ اتفاق سے ٹی جیز Tee Jays کے روح رواں اور اسٹور مالک تنویر جمشید، پی ایم آفس میں آئے ہوئے تھے۔ وہیں میں نے اخلاق سے ان کی ملاقات کروائی۔ وہ خود ہم دونوں کو لے کر بہادرآباد میں اپنے اسٹور میں لے کر گئے اور تین شلوار قمیض پسند کروانے میں مدد کی۔ اس طرح کراچی مرکز کے ڈراموں کی طرح اب ’ہمارے‘ پروگرام میں بھی گلوکار کو بشکریہ Tee Jays شلوار قمیص سوٹ ملے۔

ابھی وہ پروگرام نشر بھی نہیں ہوا تھا کہ جامعہ کراچی کا ایک دوست عرفان فوٹوگرافر مل گیا۔ کہنے لگا:

” میں نے خالد بن ولید روڈ پر واقع اپنے مکان کے ایک حصہ میں ریڈی میڈ گارمنٹس کی بوتیک کھولی ہے۔ چاہتا ہوں کہ تمہارے توسط سے اس دکان میں چند گھنٹے کوئی مشہور ٹی وی شخصیت ہفتہ میں دو ایک دن بیٹھے تو اس سے میرا کاروبار چمک جائے گا۔ میرے ذہن میں فوراً اخلاق کا نام آیا۔ اخلاق سے میرا دوستانہ ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ کیفے لبرٹی کے پیچھے، غالباً مسجد معمور والی گلی میں لسی دودھ کی دکان کے اوپر رہتا تھا۔ میں عرفان فوٹوگرافر کے ساتھ لسی والے کی دکان پر آیا۔

دکان والے مجھ سمیت اس کے پاس آنے والوں کو جانتے تھے۔ اشارے سے بتایا کہ وہ موجود ہے۔ کسی کو بھیج کر اخلاق کو پیغام دیا۔ تھوڑی دیر میں وہ آیا۔ لسی سے تواضع ہوئی۔ ہم تینوں ٹہلتے ہوئے بوتیک پر گئے۔ طے ہوا کہ اگر وہ کراچی میں ہو تو ہفتہ میں دو دن کچھ مخصوس وقت بوتیک پر آیا کرے گا۔ میں نے عرفان فوٹوگرافر سے کہا کہ بھئی اب تم اس کو تین چار شلوار قمیص سوٹ دو۔ کسی پس و پیش کے بغیر یہ کام ہو گیا۔ واپسی پر ہم دونوں اس کے گھر کی جانب چلے جہاں اخلاق نے موسیقار نیاز احمد سے ملنا تھا۔ وہ بھی وہیں قریب رہتے تھے۔ وہ سارے راستے کہتا رہا :“ مولوی! تم تو کامیاب پبلک ریلیشنز کے آدمی ہو یہاں ٹی وی میں کہاں پھنس گئے۔۔۔”۔

فرینڈلی فلمز کی فلم ”دو ساتھی“ ( 1975 ) میں اخلاق احمد کا ایک گیت بے حد مقبول ہوا۔ خود میں نے بھی اسی گانے کی خاطر یہ فلم دیکھی تھی۔ فلم ریلیز کے ایک عرصے بعد تک یہ گیت پورے ملک میں موسیقی کی چھوٹی بڑی محفلوں میں گایا جاتا رہا اور اب بھی گایا اور سنا جاتا ہے۔ خود میں نے بھی اس کو بڑے ذوق و شوق سے ایسی محفلوں میں گایا : ’دیکھو یہ کون آ گیا، بن کے نشہ چھا گیا۔۔۔‘ اس فلم کے فلمساز و ہدایتکار بھی رحمن اور موسیقار روبن گھوش تھے۔

اورینٹل فلمز کی فلم ”بندش“ ( 1980 ) وہ پہلی اردو فلم ہے جس نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی کی۔ اس فلم کے فلمسا ز احمد شمسی اور ہدایات نذرالاسلام نے دیں۔ اس کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی۔ ان کی موسیقی میں اخلاق احمد کا ایک گیت ہر خاص و عام میں بے حد پسند کیا گیا۔ آج بھی رات گئے شعر و شاعری والے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں پر مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے : ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من میں تجھے دے سکوں گا‘ ۔

اسے اطمینان کے ساتھ سنیں تو بہت سکون ملتا ہے۔ کیا خوبصورت بول ہیں جن کو موسیقی کی مالا میں روبن گھوش نے بڑی محنت کے ساتھ پرویا۔ یہ گیت اخلاق احمد کے یادگار ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔ مذکورہ فلم کے تین گیت نگار تھے : تسلمؔ فاضلی، ریاض الرحمن ساغرؔ اور سعید گیلانی۔ گیت کے لہجہ سے تسلیمؔ فاضلی کی خوشبو تو آتی ہے لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ان تین میں سے کس شاعر نے لکھا۔

فلم ایڈونچرز کے فلمساز و ہدایتکار پرویز ملک کی گولڈن جوبلی فلم ”مہربانی“ ( 1982 ) دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے یہ خود اخلاق کی اپنی کہانی ہے۔ اس کی کہانی علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے لکھی اور مسرورؔ انور کے گیتوں کو ایم اشرف نے طرزوں سے سجایا۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جس نے گلوکار بننا چاہا مگر مواقع نہیں ملے۔ اس فلم میں اخلاق احمد کا ایک گیت قوالی کے انداز میں ریڈیو پر بہت مقبول ہوا تھا: ’کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی بے بسی نے مارا، گلہ موت سے نہیں ہے ہمیں زندگی نے مارا‘ ۔

پانچ منٹ اور آٹھ سیکنڈ کے اس گیت نے بھر پور تاثر چھوڑا۔ گیت نگار، موسیقار اور گلوکار کی مشترکہ کوشش کی یہ ایک کامیاب مثال ہے۔ جس کو پرویز ملک نے چار چاند لگا دیے۔ فلم ”مہربانی“ کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ بھارتی فلمساز راجیش کھنہ اور کسوم نرولا اور ہدایتکار شکتی سمانتا نے فلم ”الگ الگ“ ( 1985 ) بنائی۔ تمام گیت آنند بخشی اور موسیقی راہول دیو برمن المعروف آر ڈی برمن نے ترتیب دی۔ اس کے نمایاں اداکار راجیش کھنہ اور ٹینا منیم تھے۔

مذکورہ فلم میں گلوکار کشور کمار کی آواز میں قوالی کے انداز میں گیت: ”کبھی بیکسی نے مارا کبھی بے بسی نے مارا، گلہ موت سے نہیں ہے مجھے زندگی نے مارا“ ہو بہو، سین بائی سین، فریم بائی فریم ’کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی بے بسی نے مارا، گلہ موت سے نہیں ہے ہمیں زندگی نے مارا‘ کی کاپی ہے۔ ”مہربانی“ کے ایڈیٹر زیڈ اے زلفی ہیں۔ آپ پہلے ان کا ایڈٹ کردہ گیت دیکھیں پھر اس کے فوراً بعد بھارتی فلم ”الگ الگ“ کا گیت۔ آپ پریشان ہو جائیں گے کہ بھارتی فلم کے ایڈیٹر ڈیوڈ دھون صاحب تھے۔ ڈیوڈ صاحب نے زلفی صاحب کے گیت کی فریم بائی فریم ایڈیٹنگ کی ہے۔ لیکن اس کام کے لئے پہلے گانے کے مطلوبہ شارٹ بھی تو درکار تھے۔ ”مہربانی“ کی عکاسی ریاض بخاری نے کی جبکہ

” الگ الگ“ کی ندیم خان صاحب نے کی۔ بظاہر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی عکاس ندیم صاحب کو ریاض بخاری صاحب کی عکاسی کا ایک ایک فریم کاپی کرنے کا کہا گیا تھا۔ پھر بھارتی فلم ایڈیٹر ڈیوڈ صاحب کو زیڈ اے زلفی صاحب کا یہ گیت دکھا کر ایڈٹ کروایا گیا۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ ”مہربانی“ کے ڈیزائنر اسلام شہابی کے اس گیت میں لگائے گئے سیٹ ”الگ الگ“ کے آرٹ ڈائریکٹر ٹی کے ڈیسائی کو دکھوا کر بالکل ویسے ہی بنوائے گئے۔

گیت نگار آنند ؔ بخشی صاحب نے مسرورؔ بھائی کی استھائی کا پہلا مصرعہ ’کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی بے بسی نے مارا‘ کو بدل کر ’کبھی بیکسی نے مارا کبھی بے بسی نے مارا‘ کر دیا۔ البتہ دوسرا مصرعہ آنندؔ بخشی صاحب نے مسرورؔ بھائی کا ہی لگایا۔ ایم اشرف کی دھن کو آر ڈی برمن نے کم و بیش ویسے ہی رہنے دیا۔ اس موازنہ پر ابھی اور بھی لکھا جا سکتا ہے لیکن مضمون طویل ہو جائے گا۔

عام تاثر یہ ہے کہ اخلاق احمد نے صرف اردو فلموں ہی میں گلوکاری کی ہو گی۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کئی ایک پنجابی فلموں میں بھی گانے گائے اور خوب گائے۔ چند ایک کا ذکر کرتا چلوں :

فلم ”باغی تے فرنگی“ ( 1976 ) برطانوی راج کے خلاف بنائی گئی ایک ہٹ فلم تھی۔ اس میں اخلاق نے مسعود رانا کے ساتھ دوگانا ریکارڈ کروایا جو خاصا پسند کیا گیا: ’جی کردا، ہن جی کردا۔.. ‘ یہ سلطان راہی اور شاہ زمان خان آفریدی المعروف سدھیر عرف لالہ سدھیر پر فلمایا گیا۔ خود اداکار سدھیر کا اداکاری اور فلم نگری میں داخلہ بہت دلچسپ کہانی ہے۔ یہ میں نے علی سفیان آفاقیؔ صاحب سے بہت شوق سے سنی تھی۔ بہرحال سدھیر اداکار کے علاوہ فلمساز اور ہدایتکار بھی تھے۔ اداکارہ زیبا کچھ عرصہ ان کے نکاح میں رہیں۔ فلمسٹار محمد علی سے ان کی شادی بعد میں ہوئی۔ ہماری فلمی دنیا میں سدھیرپسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کو بلا شبہ پاکستانی فلموں کا پہلا ایکشن ہیرو کہا جا سکتا ہے۔ یہ اکثر بہادری کے مثبت کرد اروں میں نظر آئے۔

فلم ”پکھے بٹیرے“ ( 1985 ) میں اے نیر کے ساتھ دوگانا: ’دو پکھے بٹیرے رج گئے نے۔.. ‘ ۔ اس مزاحیہ گیت کو پنجابی فلموں کے عظیم گیت نگار وارثؔ لدھیانوی نے لکھا ور وجاہت عطرے نے طرز بنائی۔ یہ ننھا اور علی اعجاز پر فلمایا گیا۔

فلم ”بارش“ ( 1989 ) میں مہناز اور اے نیر کے ساتھ اخلاق احمد کا یہ گیت: ’دکھ سکھ دے وچ نال رہوو، اپنی جان نثار کرو‘ ۔ خواجہ پرویزؔ کے گیت کی طرز ایم اشرف نے بنائی۔ یہ گیت اداکارہ نغمہ، جاوید شیخ اور اظہار قاضی پر فلمایا گیا۔

ایور نیو پکچرز کی جانب سے فلمساز سجاد گل اور ہدایتکار جان محمد کی فلم ”انٹرنیشنل گوریلے“ ( 1990 ) میں نورجہاں کے ساتھ دوگانا بھی ا خلاق احمد کے یادگار پنجابی گیتوں میں شمار ہوتاہے : ’پروانیا، دیوانیا۔.. ‘ ۔ اس کو وارثؔ لدھیانوی نے لکھا اور موسیقی ایم اشرف نے مرتب کی۔ اس فلم میں اداکار افضال احمد نے سلمان رشدی کا منفی کردار ادا کیا تھا۔

مشہور بھارتی گلوکار سونو نگم نے 1990 کے اواخر میں اخلاق احمد کے گائے ہوئے پاکستانی فلموں کے مشہور گانے اپنی آواز میں ریکارڈ کرائے۔

” ساون آئے ساون جائے تجھ کو پکاریں گیت ہمارے۔.. “ فلم ’چاہت‘ ( 1974 ) گیت نگار اختر یوسف اور موسیقار روبن گھوش۔ ”اے دل اپنا درد چھپا کر گیت خوشی کے گائے جا۔.. ’‘ فلم ’پہچان‘ ( 1975 ) گیت نگار مسرورؔ انور اور موسیقار نثار نزمی۔“ رات بھر جیا مورا، مجھے کیوں ستائے۔.. ”فلم ’امنگ‘ ( 1975 ) گیت تسلیمؔ فاضلی اور موسیقی روبن گھوش۔“ دیکھو یہ کون آ گیا، دل میں نشہ چھا گیا۔.. ”فلم ’دو ساتھی‘ ( 1975 ) گیت نگار نا معلوم اور موسیقی روبن گھوش۔

”ساتھی میرے بن تیرے کیسے بیتے گی۔.. “ فلم ’زبیدہ‘ ( 1976 ) گیت نگار نامعلوم، موسیقار کمال احمد۔ ”حسیں وادیوں سے پوچھو۔.. “ مہناز کے ساتھ دوگانا۔ فلم ’آئینہ‘ ( 1977 ) گیت نگار نامعلوم اور موسیقار روبن گھوش۔ ”سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من میں تجھے دے سکوں گا۔.. “ فلم ’بندش‘ ( 1980 ) گیت نگار (غالباً ) تسلیم فاضلی اور موسیقار روبن گھوش۔ ”سماں وہ خواب سا سماں۔.. “ فلم ’نہیں ابھی نہیں‘ ( 1980 ) گیت نگار نامعلوم اور موسیقی روبن گھوش۔ ”چمن چمن کلی کلی ٖڈگر ڈگر گلی گلی“ فلم ’آہٹ‘ ( 1982 ) گیت نگار سعید گیلانی اور موسیقار روبن گھوش۔ ”کبھی خواہشوں نے لوٹا کبھی

بے بسی نے مارا۔.. ”فلم ’مہربانی‘ ( 1982 ) بول مسرور ؔ انور اور موسیقی ایم اشرف۔

فرینڈلی فلمز کی جانب سے فلمساز اور ہدایتکار رحمن کی ہٹ فلم ”چاہت“ ( 1974 ) میں پہلی مرتبہ اخلاق احمد کو نگار پبلک ایوارڈ کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔ یہ خصوصی ایوارڈ تھا۔

گلوکار اخلاق احمد کو ایک خصوصی اور سات عدد با قاعدہ سال کے بہترین پس پردہ گلوکار کے نگار ایوارڈ حاصل ہوئے۔ ان میں سے 03 ایوارڈ متواتر تین سال 1982 سے 1984 تک ملے۔

پہلا نگار ایوارڈ 1974 میں فلم ”چاہت“ کے گیت پر حاصل ہوا: ’ساون آئے ساون جائے‘ ۔ گیت نگار اختر یوسف اور موسیقار روبن گھوش۔ دوسرا ایوارڈ 1980 میں فلم ”بندش“ پر ملا : ’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل۔.. ‘ گیت نگار ( غالباً ) تسلیم ؔ فاضلی اور موسیقار روبن گھوش۔ تیسرا نگار ایوارڈ 1982 میں فلم ”مہربانی“ پر وصول کیا: ’تو ہے زندگی میں امنگ۔.. ‘ گیت نگار مسرورؔ انور اور موسیقار ایم اشرف۔ چوتھا ایوارڈ 1983 میں فلم ”نادانی“ میں ملا: ’لوٹا قرار میرے دل کا۔

۔.. ‘ گیت نگار ریاض الرحمن ساغرؔ اور موسیقار ایم اشرف۔ پانچواں نگار ایوارڈ 1984 میں فلم ”دوریاں“ پر دیا گیا: ’بس اک تیرے سوا کوئی نہیں ہے میرا۔.. ‘ گیت نگار نامعلوم اور موسیقار روبن گھوش۔ چھٹا ایوارڈ 1986 میں فلم ”قاتل کی تلاش“ گیت کے بول اور شاعر نامعلوم اور موسیقار وجاہت عطرے۔ ساتواں نگار ایوارڈ 1987 میں فلم ”کندن“ میں دیا گیا: ’کھلونے تیری زندگی کیا‘ گیت نگار خواجہ پرویز اور موسیقار کمال احمد۔ آٹھواں ایوارڈ 1990 میں فلم ”بلندی“ پر ملا : گیت کے بول اور گیت نگار نامعلوم اور موسیقار ایم ارشد۔

اخلاق احمد کے گائے ہوئے فلمی گیتو ں کی تعداد لگ بھگ 100 ہو گی۔ ان کے بعض تذکروں میں یہ تعداد 117 بھی ملتی ہے جو 1973 سے لے کر 1998 تک 86 فلموں میں پر محیط ہے۔ ان کا آخری گیت فیض پروڈکشنز کی فلم ”نکاح“ ( 1998 ) کاہے : ’یہ دل ہے دیوانہ تیرے پیار کا۔.. ‘ ۔ اس فلم کے فلمساز شہزاد رفیق اور ہدایات سنگیتا کی اور موسیقی ایم ارشد کی تھی۔ مذکورہ فلم نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی کی۔ یہاں کا مین سنیما ’رتن‘ تھا جو اب زمانے کے سرد و گرم کی وجہ سے قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔

وہ 1985 کا کوئی مہینہ تھا۔ میں پی ٹی وی کراچی مرکز کے مین گیٹ سے اندر آیا تو دروازے ہی پر مجیب عالم اور اخلاق کھڑے نظر آئے۔ میں ان کی جانب بڑھا۔ مجیب بھائی مجھے دیکھ کر بولے :

” ذرا اس کو سمجھاؤ۔.. اس نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے! ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا“ ۔

اتفاق سے اسی رات مجھے مسرورؔ بھائی المعراف مسرورؔ انور کا فون آیا کہ وہ مڈ وے ہوٹل، کراچی ائرپورٹ میں ہیں۔ میں فوراً پی آئی ڈی سی کے مشہور زمانہ ”اماں پان ہاؤس“ سے مسرور بھائی کے مخصوص پان لے کر ان کے ہوٹل پہنچا۔ وہاں سلمیٰ آغا سے بھی ملاقات ہوئی۔ مسرورؔ بھائی ایک ثقافتی طائفہ لے کر کہیں جا رہے تھے۔ اس مختصر ملاقات میں اخلاق کا ذکر آیا۔ مسرورؔ بھائی نے بتایا کہ اخلاق احمد کو تو خون کا سرطان تشخیص ہوا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ مسرور بھائی نے میڈم نورجہاں تک یہ بات پہنچائی اور ریکارڈ کم وقت میں اخلاق کے علاج کے لئے جملہ انتظامات اور ایک عدد شو کے ذریعے رقم کا بھی انتظام ہو گیا۔

میرے بڑے بھائی فاروق لطیف پی آئی اے کے ایک ذمہ دار شعبے سے منسلک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ اخلاق احمد اور ان کی بیگم جو خود بھی قومی ائرلائن سے وابستہ تھیں، ایک ہی فلائٹ سے لندن گئے تھے۔ اس وقت اخلاق خاصا کمزور ہو گیا تھا۔ اور پاکستان سے یہ اس کا آخری سفر تھا۔

اخلاق احمد نے اپنی زندگی کے آخری چند سال کینسر سے مقابلہ کرتے ہوئے گزارے۔ اس بیماری کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے گانا جاری رکھا اور 1998 تک گاتے رہے۔ وہ لندن میں اپنا علاج کرانے گئے تھے جہاں پر 04 اگست 1999 کو زندگی کی 53 بہار دیکھتے ہوئے راہی ملک عدم ہوئے۔ اللہ تعلیٰ اس کی مغفرت کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).