انگریز سامراج کے لیے ڈراؤنا خواب: شہید روپلو کولہی


1875 ء تا 1947 ء، برطانوی راج کے خلاف مشترکہ ہندوستان میں بیشمار چھوٹی بڑی تحاریک آزادی چلیں، جن میں سے ہم آزادیٔ ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے صرف ’سب سے بڑی سیاسی تحریک‘ کا ہی ذکر کیا کرتے ہیں، جبکہ ایسی بیشمار مصلح گوریلا تحریکوں کا ذکر نہیں کرتے، جن کا مقصد اور جن کی منزل بھی انگریز سے آزادی حاصل کرنا تھی۔ ان میں سے کچھ تحریکیں تو ’گوریلا جنگ‘ کا درجہ رکھتی ہیں، جن جنگوں کا ذکر تاریخ میں تو واضح طور پر ملتا ہے، مگر ہم اپنے نصاب میں اس کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس کی وجوہات متعدد ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم ان تحاریک کے ذکر سے نسلوں کو دور رکھتے ہیں، تو ان تحریکوں میں اپنی جان کا نذرانہ دینے والے لاتعداد ہیروز سے متعلق بھی اپنی نسلوں کو نابلد رکھنے کا قصد کرتے ہیں، جو ہماری جانب سے ان سپوتوں کے ساتھ نہیں، بلکہ اپنی نسلوں کے ساتھ کی ہوئی زیادتی ہے۔

22 اگست کا دن ایسے ہی ایک جنگجوئے آزادی، ’روپلو کولہی‘ کی شہادت کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف، سندھ کے صحرائے تھر کے جنوبی حصے ”پارکر“ (جس کی حدیں ”کچھ کے رن“ سے ملتی ہیں ) کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے، 161 برس قبل، جام شہادت نوش کیا۔ ۔ ۔ ہر قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا اور اپنی سرزمین کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے، سولی کو اپنے گلے کا ہار بنا دیا۔ انگریزوں کے خلاف سخت بغاوت اور جنگ کرنے والے سندھ کے اس عظیم قومی ہیرو، شہید روپلو کولہی نے، ”کارونجھر“ کے حسین و منفرد پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع قصبے ”ننگرپارکر“ (جو آج بھی بارشوں کے موسم میں سیاحوں کی جنت بنا رہتا ہے ) سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ، اس کے شمال۔ مشرق میں واقع ”کونبھاری“ نامی گاؤں میں 1818 ء کے قریب ”شامتو رام“ کے گھر میں ”کیسر بائی“ کے بطن سے جنم لیا۔ وہ ”کولہی“ قوم کی ذیلی شاخ ”گوئیل“ سے متعلق تھے۔

انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد تھر اور پارکر سمیت سندھ کے مختلف علاقوں کو انتظامی حوالے سے حیدرآباد کے ساتھ ملا دیا۔ جس کے بعد وہ عوام اور مقامی حکمرانوں اور چھوٹے چھوٹے جاگیرداروں میں سے کچھ کو اپنے دباؤ اور کچھ کو مالی لالچ کے ذریعے زیر کرنے کی کوششیں کرنے لگے، مگر پارکر کے سوڈھوں اور کولہیوں نے انگریز راج کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا، سول نافرمانی تحریک چلائی اور انگریز سرکار کو کسی بھی قسم کا محصول ادا کرنے سے انکار کر دیا۔

سوڈھوں نے اپنی آزاد اور خودمختار حیثیت کو بحال رکھا۔ انگریزوں نے انہیں شکست قبول کرنے پر مجبور کرنے اور ان کے اوپر انتظامی احکامات نافذ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انگریز ریزیڈنٹ ’جنرل تروٹ‘ نے مختلف سرکاری ٹیکسوں کی وصولی کے لیے ’دیو مل‘ نامی مقامی شخص کو ’مختار کار‘ (فرسٹ کلاس مجسٹریٹ) تعینات کر کے ننگرپارکر روانا کر دیا، مگر سوڈھے، کولہی اور کھوسا برادری کے لوگ اپنے اصولی اور غیرت مندانہ موقف پر اڑے رہے۔ پارکر کا یہ بہادر انسان روپلو کولہی بھی اپنے ساتھیوں سمیت ’ویراواہ‘ نامی نواحی قصبے کے راجا، لادھو سنگھ اور اس کے بیٹے ادھیسنگھ کے ساتھ مل کر اپنی دھرتی کے دفاع کی غرض سے اٹھ کھڑا ہوا۔

1843 ء تا 1859 ء، 16 برس تک انگریز، جراءت مند سوڈھوں اور ان کے ساتھی کولہیوں کو شکست نہ دے سکا۔ 15 اپریل 1859 ء کو روپلو کولہی کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر بغاوت شروع کی گئی۔ کولہیوں نے انگریزی کیمپ پر حملے کیے، ان کے خزانے لوٹے، سرکاری تنصیبات کو نذر آتش کیا۔ جس کے نتیجے میں انگریز جرنیل جارج بوتھ تروٹ کی فوج کا بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اور ادھیسنگھ کے اچانک حملے کی وجہ سے تروٹ وہاں سے فرار ہو کر ’پورن نہر‘ نامی مقامی گاؤں میں لادھو میگھواڑ کے گھر میں جانوروں کے باڑے میں جا چھپا، جہاں سے اسے لادھو میگھواڑ اور ’بھوڈیسر‘ (گاؤں ) کے ٹھاکروں نے، رات کے اندھیرے میں اونٹ پر بٹھا کر ، حیدرآباد روانا کر دیا۔

اس طرح سوڈھوں اور کولہیوں نے، ادھیسنگھ اور روپلو کولہی کی سربراہی میں اپنے خطے ننگرپارکر کا دوبارہ کامیاب دفاع کر کے اس پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ سوڈھے اور کولہی اپنی اس فتح پر بے فکر ہو کر بیٹھ گئے۔ سندھ کے روایتی ’بھٹ‘ اور ’چارنڑ‘ گائکوں نے اس واقعے پر دوہے اور ابیات کہے اور گائے ہیں، جو ڈیڑھ صدی سے زبان زد عام ہیں۔

سوڈھوں اور کولہیوں کی اس فتح کے بعد ان کے جانب سے بپا سلسلۂ جشن کو دیکھ کر ، ’دیسا‘ کی جانب بھاگ جانے والی انگریز فوج نے دوبارہ اکٹھے ہو کر ننگرپارکر شہر کے جنوب میں ’راناسر‘ نامی تالاب کے پاس اپنے خیمے لگائے اور وہ ننگرپارکر پر ایک مرتبہ پھر حملے کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ حیدرآباد سے کرنل تروٹ نے، کراچی کے کرنل ایونس کے ساتھ مل کر ’احمد آباد‘ اور ’ڈیسا‘ سے آئی تازہ فوجی کمک کے ساتھ مل کر ننگرپارکر پر حملہ کر دیا۔

اس شدید حملے میں سینکڑوں کولہی اور سوڈھے اپنی سرزمین کی حفاظت کرتے ہوئے قربان ہو گئے۔ ’ویراواہ‘ کا راجا ”رانا لادھو سنگھ“ گرفتار ہو گیا۔ روپلو اور اس کے ”مڈو“ اور ”ڈجو“ نامی دو ساتھی، کارونجھر میں مورچے لگا کر بیٹھ گئے۔ یہ دونوں موقع ملتے ہی انگریزوں کی تنصیبات پر حملہ کرتے اور پھر کارونجھر کے پہاڑوں میں چھپ جاتے۔

سوڈھوں نے جنرل تروٹ کو بہت ڈھونڈا، مگر وہ ہاتھ نہ آ سکا۔ انہوں نے حملہ کرنے والے کچھ انگریز سپاہیوں کو مار ڈالا، جس نقصان پر خفا ہو کر کرنل ایونس کی فوج نے ’ننگرپارکر‘ شہر کے شمال کی جانب ’دینسی‘ نامی گاؤں کے قریب سوڈھوں اور کولہیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر دھاوا بولا، مگر ناکام رہے۔ کیونکہ رانے اور کولہی، کارونجھر کی پہاڑیوں میں مورچہ بند تھے۔

انگریز جب اپنے قدم مکمل طور پر جمانے میں ناکام ہوا، تو تنگ آ کر ، پارکر میں بھی کچھ ”میر جعفر“ جیسے کردار پیدا کر کے، کچھ غداروں کو بڑی رقوم کی ادائیگی کر کے اپنے ساتھ ملا لیا، جنہوں نے انگریزوں کے لئے بھرپور جاسوسی کی۔ ان میں ’ساڑدھری مندر‘ کا ”ہنس پوری“ نامی ایک پجاری، ’کاسبو‘ (گاؤں ) کا رہنے والا ”سیٹھ مہاوجی لہانڑو“ اور دیگر شامل بتائے جاتے ہیں، جن کی مخبری پر ’ساڑدھرو‘ کے راستے پر قائم ایک کنویں سے پانی بھرتے ہوئے، روپلو کولہی کو گرفتار کیا گیا۔

قید کے دوران روپلو پر سخت تشدد کیا گیا۔ ان کے ہاتھوں کی انگلیوں پر روئی کے ٹکڑے باندھ کے، ان کو جلایا گیا۔ طرح طرح کے عذاب دیے گئے، مگر روپلو نے ہار مانی اور نہ ہی اپنے باقی ساتھیوں کا اتا پتا بتایا، جو ان کو مطلوب تھے۔ اس دوران روپلو کی شریک حیات ”مینڑاوتی“ تک کو قید خانے میں بلوایا گیا، تاکہ نہ صرف یہ جواں مرد سپاہی جذباتی طور پر کمزور ہو، بلکہ اس کی بیوی بھی روپلو کی ایسی حالت دیکھ کر ، اپنے شوہر کو بغاوت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرے، مگر اس کے عین برعکس ”مینڑاوتی“ نے جراءت سے روپلو کو کہا: ”روپلو! اگر تم نے سرزمین اور قوم کے ساتھ غداری کی، تو مجھے لوگ طعنے دیں گے۔ تم استبداد کے خلاف وطن کے لیے اپنی جان دے کر سرخرو ہونا۔ اس سے میں ایک بہادر کی بیوہ کہلا کر فخر سے جی سکوں گی۔“

دوسری طرف روپلو کے ساتھیوں کی کارونجھر میں کارروائیاں جاری رہیں۔ پارکر کے اس عظیم سپوت روپلو کولہی کو ، بغیر کوئی کیس چلائے، 22 اگست 1859 ء کی شام کو ’گوڑدھرو‘ نامی برساتی ندی کے کنارے پر ایک پیڑ کے تنے میں پھانسی کے پھندے میں ٹانگ کر ، سرعام پھانسی دی گئی۔

روپلو کی شہادت کے بعد بھی اس کے ساتھی انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔ غداروں کو انگریزوں نے مزید جاگیریں دیں۔ ”رانا کرن سنگھ“ کو امر کوٹ کے قلعے میں دار رسید کیا گیا۔ روپلو اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرانے والے انگریزوں کے جاسوس ”ہنس پوری“ کو کارونجھر کے قریب، ”مہاوجی لہانڑو“ کو ’کاسبے‘ کے قریب اور ”تروٹ“ کو پناہ دینے والے ”لادھو میگھواڑ“ کو ’پورنواہ‘ کے قریب جاگیریں انعام کے طور پر دی گئیں۔

اس عظیم بہادر سپاہی، شہید روپلو کولہی کی اولاد میں سے کچھ خاندان، آج بھی پارکر کے ’کونبھاری‘ نامی قصبے میں رہتے ہیں، جہاں روپلو کے آبائی گھر کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ روپلو کا نام سندھ کی مزاحمتی تاریخ کے ایک جگمگاتے کردار کی صورت میں زندہ ہے اور جاوداں رہے گا۔
اہالیان سندھ آج بھی اپنے بیٹوں کے نام فخر سے ”روپلو“ رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).