حضرت عمرؓ کے طرز حکمرانی سے صرف اتنا سیکھ لیں


محرم الحرام کی ابتداء ہمیں تاریخ اسلام کے ایک عظیم حکمران کی یاد دلاتی ہے جس کے راہنما آپ ﷺ تھے جب کہ ہم مکتب ساتھی صدیق اکبر ؓ  تھے۔ جنہوں نے دنیا کو حکمرانی گر سکھائے۔ اور دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ٹھہرے۔ ان کی سادگی اور اپنے فرائض کا احساس ان کی زندگی کے راہنما اصولوں میں سے ایک تھا۔ انگریز مؤرخ (سر ولیم جو ایک عیسائی اور مخالف اسلام تھا ) جس نے حضرت عمر ؓ کی سادگی کے متعلق لکھا ”اقبال مندی کے پورے دور میں آپ نے کبھی بھی میانہ روی اور دانش مندی کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیا، اور نہ خود کو ایک سادہ اور معمولی عرب سردار سے زیادہ کچھ سمجھا۔ بعض اوقات باہر سے آنے والے پوچھتے کہ“ خلیفہ کہاں ہے؟ ”اور مدینے کی مسجد کے صحن میں انہیں تلاش کرتے حالانکہ وہ عظیم حکمران گھر کے معمولی کپڑوں میں ان کے سامنے ہی بیٹھا ہوتا“ ۔

احساس ذمہ داری کا یہ عالم کہ ہاتھ میں کوڑا لئے مدینے کی گلیوں، بازاروں میں گھوما کرتے تاکہ کوئی مجرم بروقت اپنی سزا سے بھاگ نا پائے اس لئے تو لوگوں کے ہاں یہ مشہور ہوا کہ ”حضرت عمر کا کوڑا باقی لوگوں کی تلوار سے زیادہ خطرناک ہے“ ۔

اپنی ذمہ داری کی بجا آوری میں کسی رکاوٹ کو قبول کرنا ان کی قرطاس ادب میں شامل نہ تھا۔ جب بات احتساب کی آتی تو ان کی نظر میں تفریق طبقات کی کوئی گنجائش بالکل نہ تھی۔ بلکہ اپنے صاحب زادوں کو بھی احتساب کے کٹہرے میں لانا پڑتا تو اس سے بھی گریز نہ کرتے۔ تاریخ کی کتب میں ان کا ایک واقعہ درج ہے کہ : حضرت عمر کے دو بیٹے عبداللہ اور عبید اللہ جب مہم عراق سے واپس آئے تو بصرہ کے گورنر ابو موسی سے ملے جنہوں نے بیت المال کے لئے رقم بھجوانی تھی۔ چنانچہ یہ رقم انہوں نے صاحبزادوں کے حوالے کر دی اور انہیں ساتھ میں ایک مشورہ بھی دیا کہ اگر اس رقم کی کوئی جنس خرید لو تو اس سے کافی نفع اٹھا سکو گے۔ اور جب مدینہ پہنچو تو نفع کے علاوہ باقی رقم بیت المال میں جمع کرا دینا۔ یہ نفع آپ دونوں کا حق ہوگا۔ پس جب انہوں نے اس مشورہ پر عمل کیا تو انہوں نے خاصا نفع حاصل کر لیا۔ لیکن جب اصل رقم بیت المال میں جمع کرانے کے لئے پہنچے تو ان کے والد حضرت عمر نے ان کے لئے احتساب عدالت قائم کرتے ہوئے محاسبہ شروع کر دیا۔

سب سے پہلے یہ سوال پوچھا کیا ابو موسی نے ہر فوجی کو اس غرض کے لئے رقم دی ہے؟ صاحبزادوں نے کہا : جی نہیں! ہم دونوں کے علاوہ کسی سپاہی کو ایک دانہ بھی نہیں دیا گیا۔

امیر المومنین حضرت عمر نے فرمایا : ابو موسی آپ کو امیر المومنین کی اولاد سمجھ کر حمایت کیوں نہ کرتے؟ خیر وہ جانیں ان کا کام۔ آپ اس طرح کرو اصل رقم کے ساتھ نفع بھی بیت المال میں جمع کرا دو۔ اس فیصلے پر عبداللہ خاموش رہے جبکہ عبید اللہ نے کہا : اے امیر المومنین کیا نقصان کی صورت میں آپ ہم سے پوری رقم نہ لیتے؟ حضرت عمر یہ سن کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہوئے تو حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا: اے امیرالمومنین! آپ اس مال کو مضاربت کے اصول کے مطابق تقسیم فرما دیں۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ مضاربت میں مال کا اصل مالک اور کاروبار کرنے والا دونوں نفع و نقصان میں شریک ہوتے ہیں۔ تو حضرت عمر نے فرمایا یہ مناسب رہے گا چنانچہ اصل مال کے ساتھ ساتھ منافع میں سے بھی نصف بیت المال میں جمع کرایا گیا اور نصف اپنے بیٹوں کے دے دیا گیا۔

چنانچہ درج بالا سطور میں حضرت عمر فاروق ؓ کی پوری زندگی کے آفتاب کی ایک مدہم سی کرن نے ہمیں جو درس دیا وہ سادگی، احساس ذمہ داری، اور ذمہ داری کی بجاآوری میں فرق طبقات کا لحاظ نہ کرنا ہے۔ ایسے عظیم حکمران کی طرز حکمرانی سے ہم اگر اتنا ہی سیکھ لینے میں کامیاب ہو جائیں تو جہاں ملک کی ترقی و کامیابی کی راہ میں اٹکے روڑے ہٹائے جا سکتے ہیں وہیں ہمیں کسی دوسرے نظام کی تقلید سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی خوب مدد مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).