آن لائن خریداری کیسے اور کیوں شروع ہوئی؟


فون پر ای بے کا لوگو

ای کامرس ویسے تو کئی دہائیوں سے موجود ہے لیکن یہ نسبتاً حال ہی میں عام ہوئی ہے

گذشتہ کچھ مہینوں میں آن لائن خریداری کرنے کے لیے آپ نے کتنی مرتبہ ’چیک آؤٹ‘ پر کلک کیا ہے۔ کووڈ 19 کے دوران آن لائن خریداری میں اضافے کو اگر پیمانہ سمجھ لیا جائے تو شاید یہ بہت زیادہ ہے۔

کورونا وائرس کی وباء کے دوران گھر میں استعمال ہونے والا روز مرہ کا سامان، کتابیں، میک اپ کا سامان، ہوا بھر کر استعمال کیے جانے والے سوئمنگ پول سمیت اور کئی اشیا کو اپنے گھر تک پہنچانے کے لیے ہم ای کامرس پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں، کیونکہ اس طرح یہ چیزیں ہمیں تیزی سے اور دوسرے انسانوں کا سامنا کیے بغیر حاصل ہو جاتی ہیں۔

ان میں ضروری اشیا کے علاوہ غیر ضروری اشیا بھی شامل ہیں۔ اپریل کے مہینے میں کینیڈا میں آن لائن شاپنگ کرنے والوں نے بٹیر کے انڈے، ستار کے تار اور ٹریمپولین جیسی اشیا بھی خوب خریدیں۔

ضرورت سے زیادہ چیزیں خریدنے سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک، ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ وباء کی وجہ سے ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں اور خریداری سے متعلق ہماری عادات تبدیل ہو سکتی ہیں۔

حالانکہ آن لائن شاپنگ کئی دہائیوں سے کی جا رہی ہے لیکن یہ حال ہی میں صحیح معنی میں عام ہوئی ہے۔

ایمیزون کمپنی 90 کی دہائی کے وسط میں قائم کی گئی تھی۔ سنہ 2010 تک امریکہ میں کُل خریداری کا صرف چھ فیصد حصہ آن لائن تھا۔

چین میں ایک ویئر ہاوس میں عملہ پیکنگ کرتے ہوئے

چین میں آن لائن خرید و فروخت پہلے ہی مجموعی خرید و فروخت کا 20 فیصد ہو چکی ہے

اور اب برطانیہ میں سنہ 2020 میں آن لائن خریداری بڑھ کر 19 فیصد ہو گئی جبکہ سنہ 2006 میں یہ مجموعی خریداری کا صرف تین فیصد تھی۔

اپریل 2020 میں کورونا وائرس کی وباء کے باعث آن لائن خریداری بڑھ کر 30 فیصد ہو گئی تھی۔ جبکہ امریکہ میں مئی 2019 کے مقابلے میں مئی 2020 میں اس میں 31 فیصد اضافہ ہوا۔

بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے مطابق ابھرتی ہوئی مارکیٹس میں ایک انقلاب آنے کے قریب ہے جب سنہ 2022 تک تین ارب انٹرنیٹ صارفین ہوں گے۔

چین میں پہلے ہی آن لائن خریداری مجموعی خریداری کا 20 فیصد ہے جو برطانیہ، امریکہ، جرمنی اور فرانس سے زیادہ بڑا حصہ ہے۔ ابھرتی ہوئی مارکیٹس میں ایسی خریداری کا مجموعی حجم چار کھرب ڈالر ہو جائے گا جس میں لوگ اشیا کو آن لائن دیکھتے اور پسند کرتے ہیں لیکن انھیں آف لائن یا دکان پر جا کر خریدتے ہیں۔ اسے انٹرنیٹ کے زیرِ اثر خریداری کہا جاتا ہے۔

کووڈ 19 سے پہلے روز مرہ زندگی میں شاپنگ کے لیے انٹرنیٹ پر ہمارا انحصار اتنا زیادہ نہیں تھا۔ کچھ دہائیوں قبل آن لائن شاپنگ ایک انوکھی بات تھی۔ ایک زمانے میں لوگ صرف ایسی اشیا آن لائن خریدتے تھے جو مشکل سے دستیاب ہوں۔

تو ہم اس مقام پر کیسے پہنچے جہاں آن لائن شاپنگ ہماری زندگیوں کا لازمی جز بن گئی؟ اور یہ وباء کے بعد کے دنوں میں ہمیں کس راستے پر لے جائے گی؟

ہم نے شروع کہاں سے کیا؟

فرانس میں ایک خاتون ویڈیو ٹیکس استعمال کرتے ہوئے

ویڈیو ٹیکس سسٹم سنہ 1984 میں تیار کیا گیا تھا۔

سنہ 1984 میں انگلینڈ کے علاقے گیٹس ہیڈ میں ایک 72 برس کی دادی نے، جن کا نام جین سنوبال تھا، اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر کارن فلیکس اینڈ ایگس نامی ایک جریدے کو خریدنے کے لیے ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول کا استعمال کیا۔

آکسفرڈ یونیورسٹی کے بزنس سکول سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر جوناتھن رینالڈز کا کہنا ہے کہ جریدے کا آرڈر دینے کے لیے انھوں نے ویڈیو ٹیکس سسٹم کا استعمال کیا جسے ایک برطانوی مؤجد مائیکل آلڈرچ نے بنایا تھا۔

آلڈرچ نے ان کے ٹی وی کو ایک کمپیوٹر ٹرمینل میں تبدیل کر دیا۔ دادی نے ویڈیو ٹیکس ٹیکنالوجی استعمال کی جس سے ان کے ٹی وی سکرین پر ایک شاپنگ لسٹ آ گئی۔ ان کی مطلوبہ اشیا کے بارے میں مقامی ٹیسکو سٹور کو فون کیا گیا اور یہ اشیا ان کے گھر پر پہنچا دی گئیں۔ یہ سب ایک جادو کی طرح لگا۔

رینالڈز کہتے ہیں کہ ابتدا میں اسے بوڑھے اور معذور افراد کے لیے ایک سماجی خدمت کے طور پر دیکھا گیا۔ ’یہ نظام عوامی سطح پر انٹرنیٹ آنے سے پہلے کا تھا اور یہ کمپیوٹروں کے ایک محدود نیٹ ورک پر انحصار کرتا تھا۔‘

اس وقت آلڈرچ کو اور نہ ہی سنو بال کو یہ اندازہ تھا کہ ان کا ٹیکنالوجی کا یہ چھوٹا سا تجربہ ایک ایسی صنعت کی بنیاد ڈالے گا جس کی برطانیہ میں مالیت اب 186 ارب ڈالر ہو چکی ہے۔

روز مرہ کا سامان خریدنے کی اس سروس کے بعد سنہ 1994 میں آن لائن شاپنگ میں ایک بڑی جدت اس وقت ہوئی جب کمپیوٹرکے ایک 21 سالہ ماہر ڈینیئل ایم کان نے نیٹ مارکیٹ کے نام سے ایک آن لائن بازار بنا ڈالا۔

اسے نہ صرف کسی شاپنگ مال کے برابر قرار دیا گیا بلکہ اس کے ذریعے پہلی ڈیجیٹل طور پر محفوظ لین دین ہوئی جس میں 12 ڈالر اور 48 سینٹ کی ایک سی ڈی خریدی گئی جو گلوکار سٹنگ کی تھی۔

جاپان میں راکوٹین شاپنگ مال کا ایک منظر

راکوٹین جاپان کی سب سے بڑی ای کامرس سائٹ ہے

اس وقت کے بعد اب انٹرنیٹ نے ہر گھر میں جگہ بنا لی ہے۔ آج ہر بڑی کارپوریشن کی آن لائن سروس موجود ہے جبکہ انتدائی دنوں میں کچھ ہی کمپنیوں نے ای کامرس کی حکمتِ عملی بنائی تھی۔

ان میں سے ایک کمپنی پیزا ہٹ تھی۔

سنہ 1994 میں اس کمپنی نے اپنی آن لائن سروس پیزا نیٹ کے ذریعے اپنے پیزا آن لائن فروخت کرنے شروع کر دیے تھے۔ ظاہر ہے وہ انتدائی زمانہ تھا اور شاید آپ کی توقع کے مطابق ان کی ویب سائٹ دیکھنے میں بالکل بھی متاثر نہیں کرتی تھی۔ وہ ایک سادہ اور بے رنگ سی ویب سائٹ تھی جس میں صرف صارفین کے پتے اور فون نمبروں کی فیلڈ تھیں۔

لیکن سنہ 1994 آن لائن شاپنگ کے لیے ایک اہم سال تھا۔ اسی سال ایمیزون سامنے آئی جو اس زمانے میں صرف کتابیں فروخت کرتی تھی۔ پھر سنہ 1995 میں ای بے آئی۔ اس کے دو سال بعد جاپان کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی راکوٹن اور سنہ 1999 میں چین کی کمپنی علی بابا منظرِ عام پر آئی۔

ان کمپنیوں نے عام صارفین تک آسان رسائی اور ٹیکنالوجی کی جدت سے آن لائن خریداری کے بازار سجا دیے۔

نیویارک یونیورسٹی کے بزنس سکول سے منسلک تھومائی سرداری کہتی ہیں کہ 90 کی دہائی کے وسط میں عالمگیریت بھی وہ بڑا عنصر تھا جس نے ای کامرس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیا آپس میں جڑ جانے کی وجہ سے اشیاء کی تیز رفتار پیداوار کے قابل ہوئی اور ایک جیسی اشیا کی مختلف قیمتوں میں فروخت ممکن ہوئی۔

اس طرح صارفین کو بھی یہ سہولت ملی کہ وہ بہترین معیار یا قوتِ خرید کے مطابق اشیا کا انتخاب کر سکیں۔

ایمیزون انڈیا

ترقی پزیر ممالک میں سنہ 2022 تک ای کامرس مجموعی کاروبار کا 20 فیصد ہو جائے گی

ابتدائی دنوں میں قائم ہونے والی کمپنیاں جیسے ایمیزون اور ای بے اب اس صنعت پر راج کر رہی ہیں، سرداری کہتی ہیں کہ اصل میں صارفین کے رویے میں تبدیلی کی وجہ سے آن لائن خریداری نے صحیح معنوں میں ترقی کی۔

آن لائن شاپنگ میں اصل موڑ سنہ 2017 میں آیا۔

اس سے پہلے کے سال کے احتتام تک اکثر امریکی آن لائن شاپنگ اتنی مرتبہ کر رہے تھے جتنی مرتبہ وہ گھر کا کچرا پھنکتے ہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق اس سال ہر 10 میں آٹھ امریکیوں نے آن لائن خریداری کے لیے اپنا کمپیوٹر یا فون استعمال کیا۔ جبکہ سنہ 2000 میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف 22 فیصد تھی۔ زیادہ صارفین کے پاس موبائل فون ہونے کے باعث آن لائن شاپنگ میں بہت اضافہ ہوا۔ سنہ 2017 میں دنیا بھر میں سمارٹ فون میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔

سنہ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں مجموعی خرید و فروخت کا 16 فیصد ای کامرس ہے جس کا حجم 601 عشاریہ 75 ارب ڈالر ہے۔

گلوبل ای کامرس سافٹ ویئر کی بڑی کمپنی شاپیفائی کے مطابق سنہ 2019 میں دنیا میں آن لائن خریدو فروخت کا حـجم 3 عشاریہ 5 ٹریلین ڈالر تھا۔ امریکہ میں سنہ 2020 میں اِسی سہہ ماہی میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ وباء سے پہلے کے وقت تھا۔

سنہ 2020 میں نہ صرف آن لائن شاپنگ کی اہمیت بڑھی بلکہ اس کی حجم میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں مارکیٹنگ کی پروفیسر باربرا کان کہتے ہیں کہ حالیہ وباء نے آن لائن خریداری میں اتنا اضافہ کیا ہے جو اگلے دو سے تین سال میں ہوتا۔

جیک ما، چیئرمین علی بابا گروپ

علی بابا کمپنی کے مالک جیک ما اپنی کمپنی کو نئی بلندیوں پر لے گئے ہیں

اور وہ اشیا جن کی وجہ سے آن لائن خریداری میں اضافہ ہوا ہے وہ وہی ہیں جنھیں دادی جین سنوبال نے اپنے ریموٹ کے ذریعے آرڈر کیا تھا، یعنی گھر کا سودا۔

مارچ 2020 سے اپریل 2020 کے درمیان امریکہ میں ای کامرس میں 49 فیصد اضافہ ہوا جس میں گھر کے سودے کا حصہ 110 فیصد ہے۔

کان کہتے ہیں کہ ای کامرس بالآخرایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جو جدید دور سے مطابقت رکھتا ہے کیونکہ لوگ اب کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔

کیا آن لائن خریداری جاری رہے گی؟

آن لائن خریداری کا منظرنامہ تبدیل ہوا ہے کیونکہ لوگوں نے ای کامرس کو تیزی سے اپنایا ہے لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات میں یہ ضرورت بن گئی ہے۔ ’تقریباً 30 فیصد کمپنیاں آن لائن کاروبار کر رہی ہیں لیکن کووڈ 19 نے کئی کمپنیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے یہی راستہ اختیار کریں۔‘

سوئیڈن میں ایک ورکر سامان پہنچاتے ہوئے

کورونا وائرس کی وباء کے باعث گھر کے سودے اور دوسری اشیا کی آن لائن خریداری میں ضافہ ہوا ہے

آن لائن کاروبار کے لیے ان سب مثبت اشاروں کے باوجود کورونا وائرس کی وباء سے پیدا ہونے والے معاشی صورتحال کی وجہ سے صارفین سوچ سمجھ کر خرچ کر رہے ہیں۔

اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وباء ختم ہونے کے بعد جب لوگ خریداری کے لیے دکانوں کا رخ کریں گے تو آن لائن خریداری پر کیا اثر پڑے گا۔

کان کہتی ہی کہ ایسی کمپنیوں کے مستقبل میں کامیاب رہنے کا امکان زیادہ ہے جو بہ یک وقت آن لائن اور باقاعدہ دکانوں کے ذریعے کاروبار کرتی ہیں جیسے ایمیزون کے پاس ’ایمیزون گو‘ ہے۔

یہ کمپنی آپ کی آن لائن خریداری کی عادات اور انتخاب پر نظر رکھتی ہے اور اپنی کسی باقاعدہ طور پر موجود دکان پر آپ کا سودا تیار رکھتی ہے جو آپ آفس سے گھر واپس جاتے ہوئے اٹھا سکتے ہیں۔

آن لائن خریداری کا حالیہ رجحان تو سوشل ڈسٹینسنگ یا سماجی دوری اور پھیلنے والی بیماریوں کے خوف کی وجہ سے ایک ضرورت کے طور پر شروع ہوا ہے لیکن امکان ہے کہ اب یہ ایک معمول کا کام بن جائے گا کیونکہ اب صارفین نے خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ یہ کتنا آسان اور مؤثر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp