انڈین فوج اور حکومت کے باہمی تنازعات کی تاریخ اور 65 کی جنگ کی ’سب سے بڑی غلطی‘


یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک ایسی فوج کیسے تیار کرے جس سے جمہوریت کو خطرہ نہ ہو؟ کیا سویلین حکومت فوج کو کنٹرول کرتے ہوئے اسے اپنی بہترین حد تک پہنچا سکتی ہے؟

اسے انڈین جمہوریت کی کامیابی تصور کیا جائے گا کہ دس لاکھ سے زیادہ تعداد والی ایک بڑی فوج ہونے کے باوجود، بہت سی جنگوں میں حصہ لینے اور بہت سے داخلی محاذوں پر استعمال ہونے کے باوجود، فوج نے اب تک کسی بھی سیاسی عزائم کو ظاہر کرنے سے پرہیز کیا ہے۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت اور فوج کے مابین تعلقات ہمیشہ ہی خوشگوار رہے ہیں۔

نہرو کریپپا کو آرمی چیف بنانا نہیں چاہتے تھے

انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے جنرل کریپپا کو پہلا آرمی چیف مقرر کیا تھا لیکن کریپپا نہرو کی پہلی پسند نہیں تھے۔

ایسی تفصیلات دستیاب ہیں کہ انھوں نے پہلے یہ عہدہ نتھو سنگھ اور پھر راجیندر سنگھ کو پیش کیا تھا لیکن ان دونوں نے یہ کہتے ہوئے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ کریپپا سے جونیئر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جب چین کے معاملے پر کانگریس کے ارکان اور حزب اختلاف دونوں نے نہرو کو گھیرا

بریگیڈیئر عثمان: ’نوشہرہ کا شیر‘ جس پر حکومتِ پاکستان نے 50 ہزار کا انعام رکھا تھا

را کے بانی کاو: ’آپ نہ ہوتے تو 1971 بھی نہ ہوتا‘

آزادی کے بعد آرمی چیف کے دور پر بنائی گئی پالیسیوں کی وجہ سے نہرو کے لیے بہت ساری مشکلات پیدا ہو گئیں تھیں۔

پہلے آرمی چیف کی مدت ملازمت چار سال رکھی گئی تھی جو بعد میں کم کر کے تین سال کر دی گئی۔ اس کے نتیجے میں بہت سارے آرمی چیف انتہائی کم عمری میں ہی ریٹائر ہو گئے۔

نتھو سنگھ 51 سال، کریپپا 53 اور تھورٹ اور تھیمیا صرف 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گئے تھے۔ سٹیون ولکنسن اپنی کتاب ’آرمی اینڈ دی نیشن‘ میں لکھتے ہیں: ’یہ اس لیے کیا گیا تھا کہ نہرو کو خدشہ تھا کہ طویل عرصے تک آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہنے والے بہت مطمئن نہ ہو جائيں اور سیاسی عزائم نہ پالنا شروع کر دیں۔‘

ایک دوسرے سابق میجر جنرل وی کے سنگھ نے بھی اپنی کتاب ’لیڈر شپ ان انڈین آرمی‘ میں لکھا: ’یہ فیصلہ بدقسمت تھا کیونکہ اس کی وجہ سے فوج کی اعلیٰ قیادت کو اس عمر میں ہی اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا جب ان میں ملک کو دینے کے لیے بہت کچھ بچا تھا اور نہرو کو ان کے تجربے سے فائدہ ہو سکتا تھا۔

’دلچسپ بات یہ تھی کہ اس اصول کا اطلاق نہ تو بیوروکریسی پر ہوا اور نہ ہی ایئر فورس یا نیوی پر۔ اس کے باوجود کریپپا اور نتھو سنگھ نے سیاست میں آنے اور انتخابات لڑنے کی کوشش کی اور دونوں ہی انتخابات میں شکست کھا گئے۔‘

نہرو کے مشیروں کی اہلیت پر سوال

نہرو نے اپنا بہت زیادہ وقت عالمی معاملات پر صرف کیا اور گھریلو معاملات پر ان کی توجہ کم رہی۔ اس کے مقابلے میں چینی رہنما ماؤزے تنگ نے صرف ایک یا دو بار ہی اپنے ملک سے باہر قدم رکھا اور خارجہ امور کی ساری ذمہ داری وزیراعظم چو این لائی کو سونپ دی۔

سنہ 1962 کی ہند چین جنگ کے بعد دنیا میں چین کی سفارتی ساکھ بڑھی جبکہ خارجہ امور کو ترجیح دینے والے نہرو کی ساکھ کم ہوئی۔ سٹیون ولکنسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’نہرو کی قیادت میں ایک اور کمی تھی۔ انھوں نے اپنے مشیروں کا صحیح طرح سے انتخاب نہیں کیا۔ان کے قریب ترین مشیر کرشنا مینن، جنرل تھاپر اور بیجی کول تھے جو ملک کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔

’نہرو نے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بی این ملک پر بھی کچھ زیادہ ہی اعتماد کیا۔ شاید اس کی وجہ فوج پر سویلین کنٹرول کو مضبوط بنانا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انڈین فوج چین کے ساتھ لڑائی کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھی۔ اس کے پاس مناسب خفیہ معلومات کی کمی تھی اور وہ ایک طرح سے بی این ملک کے اندازوں پر پوری طرح منحصر تھی۔‘

لال بہادر شاستری کو غلط مشورہ

لال بہادر شاستری کے دور میں سنہ 1965 میں انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ ہوئی تھی۔ اس لڑائی میں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل چودھری نے دریائے بیاس سے بڑی تعداد میں انڈین فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

لڑائی کے آخری مرحلے میں وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے جنرل چودھری سے پوچھا تھا کہ کیا لڑائی جاری رکھنے سے انڈیا کو فائدہ ہو گا؟

اس وقت کے وزیر دفاع یشونت چوہان کے سیکریٹری اور بعد میں انڈیا کے داخلہ سیکریٹری بننے والے آر ڈی پردھان نے اپنی کتاب ’1965 وار دی انسائڈ سٹوری‘ میں لکھتے ہیں: ’جنرل چودھری نے وزیر اعظم کو اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کیے بغیر غلط مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کے بہت سے ٹینک تباہ ہو گئے ہیں۔

’جبکہ صورتحال اس کے برعکس تھی۔ پاکستان کا نقصان زیادہ ہوا تھا۔ چودھری کے مشورے پر انڈیا نے پاکستان کی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا۔ کچھ دفاعی نقادوں نے اسے 1965 کی جنگ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا تھا۔‘

سیاسی قیادت نے فوج کے باہمی تنازعات کو نظرانداز کیا

اس جنگ میں کئی بار انڈین فضائیہ نے اپنے ہی فوجیوں پر بم گرائے تھے اور اپنے ہی فوجیوں کو فرینڈلی فائرنگ کے نتیجے میں گولی لگنے کے واقعات پیش آئے تھے۔

انیت مکھرجی اپنی کتاب ’دی ایبسنٹ ڈائیلاگ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس وقت کی حکومت نے فوج کے تنازعات سلجھانے میں کوئی دلچسپی ظاہر کی اور نہ ہی فوج کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیا۔‘

ارجن تاراپور نے سنہ 1965 اور 1971 کی جنگوں اور سری لنکا آپریشن پر خاصا کام کیا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’سویلین قیادت کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ فوجی کارروائی سے کس طرح ملک کے سیاسی اہداف کو پورا کیا جا سکتا ہے۔‘

ایک دوسرے فوجی مورخ سری ناتھ راگھون کا خیال ہے کہ ’فوجی امور میں سیاست دانوں عدم کی دلچسپی اور ٹھیک سوالات نہ پوچھنے کی وجہ سے 1965 کی جنگ فیصلے کے بغیر ختم ہوئی۔‘

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ فوجی سربراہ جنرل چودھری اور لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ کے درمیان کافی اختلافات تھے لیکن سیاسی قیادت نے ان اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔

سنہ 1971 میں فوج کے سامنے ڈھاکہ پر قبضہ کرنے کا ہدف طے نہیں تھا

سنہ 1971 کی جنگ میں پچھلے تجربات سے سبق لیتے ہوئے ڈی پی دھر کو پالیسی پلاننگ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا جن کا بنیادی کردار سفارتی اور فوجی کارروائی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔

ان کا کام ان کے اور آرمی چیف سیم مانیکشا کے درمیان بہترین تعلقات کی وجہ سے مزید آسان ہوگیا۔ دونوں نے 1947- 48 کی کشمیر جنگ میں بھی ایک ساتھ کام کیا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود 1971 کی جنگ بھی تنازعات سے پاک نہیں رہی۔

ایسٹرن کمانڈ کے چیف آف سٹاف جنرل جے ایف آر جیکب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آرمی ہیڈ کوارٹر نے ڈھاکہ پر قبضہ کرنے کا ہدف ہی طے نہیں کیا تھا۔

’ان کا واحد مقصد مشرقی پاکستان کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرنا تھا تاکہ وہاں بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو مقرر کیا جاسکے۔‘

سنہ 1971 کی جنگ کے سرکاری مورخ ایس این پرساد لکھتے ہیں کہ ’بدقسمتی یا کسی وجہ سے انڈیا کا جنگی منصوبہ لیک ہو گیا اور پاکستان کے ہاتھ آ گیا۔ لہٰذا پاکستانیوں نے اپنی دفاعی پالیسی اسی کے مطابق بنائی اور ڈھاکہ کے تحفظ میں زیادہ وسائل نہیں لگائے، جس کا فائدہ بعد میں انڈین فوج کو ہوا۔‘

ایئر چیف مارشل پی سی لال کی مخالفت

سنہ 1971 کی سرکاری تاریخ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ’آخر تک انڈین فوج کے پاس ڈھاکہ پر قبضہ کرنے کے احکامات نہیں تھے۔ 11 دسمبر 1971 کو وزیر اعظم اندرا گاندھی نے تینوں فوجی سربراہوں کو ڈھاکہ پر قبضہ کرنے کے لیے تحریری حکم دیا۔

مغربی محاذ پر آپریشنل وضاحت کے فقدان اور سٹریٹجک منصوبہ بندی کے بارے میں ابہام سے انڈیا کو چمبھ کے علاقے میں بہت سی زمین گنوانی پڑی۔ لڑائی کے بعد اندرا گاندھی نے ماؤنٹ بیٹن کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تقرری کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا۔

جنرل مانیکشا نے اس عہدے کے لیے اپنا دعویٰ پیش کیا۔ لیکن ایئر چیف مارشل پی سی لال نے اس کی سخت مخالفت کی۔

سٹیون ولکنسن لکھتے ہیں: ’پی سی لال کی مخالفت سے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جان میں جان آئی کیونکہ وہ پہلے سے قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو ترک کرنے میں ہچکچا رہے تھے۔

وہ فوج کو سیاسی طور پر اتنی طاقت نہیں دینا چاہتے تھے جس کی وجہ سے فوج پر حکومت کا کنٹرول کم ہو جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سام مانیکشا یہ منصب حاصل نہیں کرسکے۔

سینئر ہونے کے باوجود جنرل ایس کے سنہا کو نظرانداز کیا گیا

جنرل کرشن راؤ کے ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ایس کے سنہا سب سے سینیئر تھے، لیکن اندرا گاندھی نے ان کی جگہ جنرل اے ایس ویدیا کو نیا فوجی سربراہ بنا دیا۔ بعد میں کچھ حلقوں میں کہا گیا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ جنرل سنہا جے پرکاش نارائن کے بہت قریب تھے۔

جنرل ایس کے سنہا نے اپنی سوانح عمری ’چینجنگ انڈیا – سٹریٹ فرام ہارٹ‘ میں لکھا: ’ایک بار جب میں طیارے سے پٹنہ سے دہلی جا رہا تھا۔ اتفاق سے جے پی کی سیٹ میرے ساتھ ہی تھی۔ ہم نے بات شروع کر دی۔ میں انھیں پہلے سے جانتا تھا۔ جب وہ نیچے اترنے لگے تو میں نے ان کے ہاتھ سے ان کا بریف کیس لے لیا۔‘

جنرل سنہا نے مزید لکھا: ‘جے پی نے منع بھی کیا کہ اگر کوئی یونیفارم پہننے والا میرا بریف کیس لے جائے تو اچھا نہیں لگے گا۔ میں نے کہا کہ میں جنرل ہونے کے ساتھ آپ کا بھتیجا بھی ہوں۔ اس نے مسکرا کر اپنا بریف کیس مجھے پکڑا دیا۔ جب ہم ہوائی اڈے سے باہر آئے تو میں نے بریف کیس جے پی کو لینے آنے والے شخص کو پکڑا دیا اور انھیں سلام کرکے رخصت لی۔

’دوسرے دن جب میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ٹی این رینا سے ملنے گیا تو انھوں کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ جے پی کے بہت قریبی ہیں۔ ایک دوسرے موقع پر اس وقت کے چیف آف ایئر فورس نے جے پی کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ بڈھا ابھی زندہ ہے؟ مجھے ان کے پوچھنے کا انداز اور زبان پسند نہیں آئی تھی۔ میں نے فوراً ہی کہا کہ خدا کے فضل سے انڈیا کا سب سے بڑا آدمی ابھی زندہ ہے۔‘

اس بے باکی کا جنرل سنہا کو نقصان اٹھانا پڑا کہ وقت آنے پر انھیں نظرانداز کیا گیا۔ سنہا نے ایک منٹ گنوائے بغیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

جنرل سندرجی راجیو گاندھی کا اعتماد کھو بیٹھے

راجیو گاندھی کے دور میں ارون سنگھ وزیر دفاع تھے۔ ان کے اپنے تینوں آرمی چیف، جنرل سندرجی، ایڈمرل تاہیلیانی اور ایئر چیف مارشل ڈینس لا فونٹین کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔

اس کے نتیجے میں بیوروکریسی کو محسوس ہونے لگا کہ اسے مناسب اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔

پاکستانی سرحد پر ’براس اسٹیکس‘ جنگی مشق سے دفاعی امور کے بارے میں فیصلہ کرنے کی انڈیا کی صلاحیت میں کئی خامیاں نظر آئیں۔

کچھ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھی اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ بہت سارے لوگ جنرل سندرجی کو انڈیا کے بہترین، حوصلہ مند اور متنازع جنرل قرار دیتے ہیں۔

سنہ 1984 میں آپریشن بلیو اسٹار کے دوران جنرل سندرجی نے مغربی کمانڈ کے سربراہ کی حیثیت سے حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ آپریشن ایک دن میں مکمل ہوجائے گا لیکن اس میں تین دن لگ گئے اور فوج کو ٹینکوں کا استعمال کرنا پڑا۔

اسی طرح سنہ 1987 میں انھوں نے ایل ٹی ٹی ای کی جنگی صلاحیت کو کم سمجھا اور دعوی کیا کہ دو ہفتوں میں انڈین فوج ان کا کنٹرول سنبھال لے گی۔ انڈین فوج ایل ٹی ٹی ای پر کبھی قابو حاصل نہیں کر سکی۔ ان وجوہات کی بنا پر راجیو گاندھی نے جنرل سندرجی سے اعتماد کھو دیا۔

بعدازاں اے جی نورانی نے فرنٹ لائن میگزین میں لکھے اپنے مضمون ‘شاکنگ ڈسکلوزرس’ میں لکھا: ’جنرل دیپندر سنگھ کے مطابق عام دنوں میں آرمی چیف اور وزیر اعظم کے مابین کوآرڈینیشن کا فقدان بہتر ہے لیکن اگر ہنگامی صورتحال میں بھی ایسا ہو تو صورتحال زیادہ سنگین ہوجاتی ہے۔

’مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعظم اور سندرجی کے مابین ایسی صورتحال کیوں پیدا ہوئی۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ جب میں نے سندرجی سے پوچھا کہ وزیر اعظم کے سامنے ہمارا نقطہ نظر کو کیوں نہیں رکھا جارہا ہے تو ان کا جواب تھا، وہ نہیں سنتے۔’

واجپئی نے کارگل جنگ میں فوج پر پابندیاں عائد کردیں

اٹل بہاری واجپئی نے اقتدار میں آنے کے چند ہی دنوں میں زیرزمین جوہری تجربے کا حکم دیا تھا، لیکن تینوں افواج کے سربراہوں کو آخری لمحے میں اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔ ان کے ہی دور میں بحریہ کے سربراہ ایڈمرل بھاگوت کو وائس ایڈمرل ہریندر سنگھ کو ڈپٹی چیف آف اسٹاف بنانے کے معاملے پر حکومت کی مخالفت کرنے پر برخاست کردیا گیا تھا۔

کارگل جنگ کے دوران واجپئی کے لائن آف کنٹرول نہ عبور کرنے کے احکامات کی وجہ سے انڈین فوج کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ پی آر چری اور اسٹیفن کوہن اپنی کتاب ‘فور کرائسز اینڈ پیس پراسیس’ میں لکھتے ہیں: ‘ابتدا میں آرمی کے سربراہان نے ان پابندیوں کی پیروی کی لیکن جب جنگ بڑھی تو اپنے ہی افسران نے ان پر تنقید کی اور قومی سلامتی کے مشاورتی بورڈ نے ان پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔ لیکن واجپئی نے پھر بھی اپنا فیصلہ نہیں بدلا۔ لیکن تولولنگ کی جنگ جیتنے کے بعد ان پر لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کا دباؤ کم ہوگیا۔

سیاچن کو حل کرنے میں فوج نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا

منموہن سنگھ کے زمانے میں انڈیا اور پاکستان سیاچن مسئلے کو حل کرنے کے بہت قریب آگئے تھے لیکن فوج کی مخالفت کی وجہ سے اس کا حل نہیں ہو سکا۔ اے جی نورانی فرنٹ لائن میں شائع اپنے مضمون ‘ٹاکیٹو جرنلز’ میں لکھتے ہیں کہ فوج کی مخالفت کی پیش گوئی کرتے ہوئے من موہن سنگھ نے ان تمام جرنیلوں کو مدعو کیا جنھوں نے سیاچن میں کسی نہ کسی وقت فوج کی کمانڈ کی تھی۔ انھوں نے ان سے سیاچن میں فوج کی تعیناتی کے بارے میں ان کے خیالات پوچھے۔

اس اجلاس میں جنرل جے جے سنگھ نے حکومت کے اقدام کی مخالفت کی اور اس حساس مسئلے کو حل کرنے کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ شیام سرن اپنی کتاب ‘کوٹیلیہ ٹ دی 21 سنچری: ہاؤ انڈیا سیز دی ورلڈ’ میں لکھتے ہیں: ‘شروع میں جنرل جے جے سنگھ اس تجویز کے حامی تھے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ کابینہ کے کچھ ارکان اور قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائنن اس کی مخالفت کر رہے ہیں تو انھوں نے اپنا مؤقف تبدیل کر لیا۔’

سنہ 2012 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے برتھ سرٹیفکیٹ کے معاملے میں کافی طول پکڑا تھا۔ وہ اس معاملہ کو سپریم کورٹ تک لے گئے، لیکن جب عدالت نے معاملے میں مداخلت سے انکار کیا تو انھوں نے یہ کیس واپس لے لیا۔ ان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب جیتے اور مودی کابینہ میں وزیر بھی بنے۔

بپن راوت

بپن راوت

فوج کی سیاست کے بارے میں شکایت

نریندر مودی کے دور میں دو جرنیلوں پروین بخشی اور پی ای ہارز سنیارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل وپن راوت کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا تھا۔

صرف یہی نہیں جب انھوں نے اپنی میعاد پوری کی تو انھیں انڈیا کا پہلا چیف آف ڈیفنس اسٹاف بنا دیا گیا۔ ابھی تک یہ روایت رہی ہے فوج میں کام کرنے والا جنرل سیاسی بیانات سے خود کو بچاتا ہے۔ لیکن بہت سے جرنیلوں نے اپنے دائرہ اختیار سے ہٹ کر حکومت کے فیصلوں کی حمایت میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اس بیان بازی نے فوج کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے ہیں جسے آزادی کے 73 سال بعد بھی انڈین فوج نے بچا رکھا ہے۔

سنہ 2019 کے بالاکوٹ حملے کے بعد، الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں استدعا کی گئی ہے کہ انتخابی مہم میں فوجی تصاویر اور علامتیں استعمال نہیں کی جائیں۔ لیکن زمینی سطح پر اس کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔ یہاں تک کہ ایک وزیر اعلی نے انڈین فوج کو مودی کی فوج بھی کہہ ڈالا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp