دو قدم پیچھے ہٹنے کا وقت ہے


کمزور سیاسی اور جمہوری نظام میں عوامی مزاج کو سمجھنے میں غلطی کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ معلومات کے پھیلاؤ کا ناقص عمل، عوامی مزاج کا درست اندازہ نہ لگانے سے فیصلہ سازی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ جس سے ایک کے بعد دوسرا بحران جنم لیتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں ٹکراؤ اور مستقل بحرانوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

اس وقت خطے میں جو نئے حقائق ابھر رہے ہیں، وہ طاقت کے حقیقی مرکز کے عزائم سے متصادم نظر رہے ہیں سعودی عرب کے حوالے سے جو بحران پیدا ہوا ہے اس سے منطقی طور پر مزید بحران ابھریں گے۔ موجودہ بحران شاید پیدا نہ ہوتا اگر 2018 میں غیر حقیقی تبدیلی مسلط نہ کی گئی ہوتی۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سویلین حکومتوں کے مابین مشکلات پاکستان کے لئے منفرد نہیں ہیں۔ بہت سے ممالک کو بھی ایسی ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنوبی امریکہ میں، ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر اقتدار میں شراکت داری قائم ہو گئی اور متضاد مفادات کے حامل گروپوں نے بقائے باہمی کے لیے درکار اصول اور قواعد تیار کر لیے۔ بہت سے دوسرے ملک یہ اتفاق رائے پیدا نہ کر سکے۔ پاکستان بھی ان ہی ریاستوں میں شامل ہے جہاں عوامی نمائندے اور مقتدر حلقے کسی طرح بھی ایک دوسرے کے نقطہ نظر کے قریب تر نہیں آ سکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اتفاق رائے کی راہ میں موجود خلیج کو ختم کرنے اور بقائے باہمی کے کچھ اصول طے کرنے کی فریقین کو کیا قیمت ادا کرنی ہو گی؟

پاکستان کا حاکمانہ طرز حکومت پریٹورین (فوجی) ماڈل کی پیروی کرتا ہے جو پہلے ترکی اور بعد میں مصر اور شام میں مضبوط ہوا تھا۔ اس طرح کے یہ صرف چند ممالک نہیں تھے۔ 1960 کی دہائی کی جنوبی امریکہ کی ریاستوں یا آج کے تھائی لینڈ بھی اسی ماڈل کے مطابق ہیں۔ ہر ملک کی جداگانہ خصوصیات کے مطابق اس طرز حکومت میں ضروری رد و بدل کر لیا جاتا ہے۔ حاکمانہ قوتیں حکمرانی میں اپنی مداخلت کے جواز کو پیش کرنے اور سیاسی میدان میں مستقل غلبہ پانے کے لئے مختلف نظریات کو فروغ دیتی ہیں۔ باور کرایا جاتا ہے کہ عقائد اور نظریات کو تحفظ کی ضرورت ہے لہذا مضبوط مسلح افواج کی ضرورت ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ترکی نے خلافت کے نظام سے انکار کیا اور سیکولرازم کو فروغ دیا۔ کمال اتاترک کی سربراہی میں ترکی میں جرنیلوں نے جدید ریاست کی تصور کو بڑھانے کے لئے سیکولرازم کو نافذ کیا۔ مصر اور شام کی فوجوں نے عربی قوم پرستی کے بعثی برانڈ کے ساتھ اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھایا۔ عرب دنیا میں جب اسرائیل مخالف جذبات بڑھ رہے تو سیکولر ازم کے ساتھ پان عرب ازم کو شامل کیا گیا۔ تاہم، سیاسی اور معاشی بحران کے مزید گہرا ہونے کے ساتھ ہی اوپر سے نافذ نظریوں میں بھی بحران ابھرنے لگے۔ متعدد طویل بحرانوں کے بعد متنازعہ نظریات کی گرفت کمزور ہونے لگی۔ ترکی، مصر اور شام میں ڈرامائی طور پر سیاسی ہلچل شروع ہو گئی۔ یہ سماجی و سیاسی لڑائیاں نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے فوجی آمریت سے دبے ہوئے ملکوں میں سیاسی اور سماجی بحران کو تیز تر کر رہی ہیں اور فوجی حکومتوں کو پیچھے دھکیل رہی ہیں۔

پاکستان میں 1950 کی دہائی سے سول اور فوجی بیوروکریسی کو مذہب سے متاثر نظریہ ملا اور سیاسی حکومتوں پر تسلط برقرار رکھنے کے لئے فوج نے ان نظریات کو اپنا لیا۔ پچھلے کئی سالوں سے اسٹیبلشمنٹ کی نئی نسل کو یہ بیانیہ ورثے میں ملا ہے جس نے اس کہانی پر یقین کرنا شروع کیا ہے کہ پاکستان اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے ہمنواؤں کی ایک نئی نسل تیار ہوئی ہے جو اس بیانیہ کے مشدد پیروکار ہیں ہیں۔ ترکی، مصر اور شام میں ہونے والے واقعات نے اشرافیہ کے نظریات کی مفلسی کو واضح کر دیا ہے۔

تاہم ترکی، مصر، شام، ہندوستان اور پاکستان میں مذکورہ سیاسی تبدیلیوں کے مظاہر مختلف ہیں لیکن ان میں ایک مشترکہ خصوصیت واضح ہے کہ ان ممالک میں اشرافیہ کے مسلط کردہ نظریات کی بد ترین ناکامی سے دوچار ہیں۔ ترکی اور ہندوستان میں سیکولرازم، مصر اور شام میں پان عرب ازم کی مخالف ہوا چل رہی ہے۔

1990 کی دہائی کے دوران پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو میوزیکل چیر کے کھیل میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی سیاسی حکمت عملی میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو برقرار رکھا۔ لیکن اب وقت کے ساتھ حالات تبدیل ہو رہے ہیں میثاق جمہوریت سے واضح ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں اب میوزیکل چیر کے کھیل میں دلچسپی نہیں لے رہی ہیں۔ 2008 سے یہ مظہر نمایاں ہے۔ اس وقت حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے منتخب حکومت کو نیچے لانے کے لئے کسی بھی کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔

اس سے بھی بڑا دھچکا یہ تھا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس علاقے میں اسٹیبلشمنٹ کے نظریاتی اہداف کا حصہ نہیں بننا چاہتی ہیں۔ بڑی جماعتوں کے مابین غیر متوقع یکجہتی نے اسٹیبلشمنٹ کو ایک مشکل میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ شراکت داری کے لیے ملک میں صف اول کے سیاستدانوں کی تلاش میں ناکام رہی ہے۔ تاہم شہری متوسط طبقہ جو گزشتہ 30 سالوں سے سازشی نظریوں کی گرم ہوا کی لپیٹ میں ہے، بظاہر اب بھی ملک کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے بیانیے کو کسی حد تک تسلیم کرتا ہے۔ اور ملک میں جمہوریت کے بڑھتے ہوئے جواز کو مسترد کرنے میں ایک رضاکار کے طور پر شریک ہے۔

پچھلے الیکشن کے ناکام تجربے کے بعد عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین فاصلہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ معاشی نقصان اور دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کوئی بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہے۔ الیکشن جیتنے کے لئے اکٹھا کیا جانے والا اتحاد مضبوط نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آئندہ کی کسی بھی کوشش میں موجودہ ناکامی کے سبق کو یاد رکھے گی۔

اگلی کوشش زیادہ خوفناک ہو سکتی ہے۔

بہت سے لوگ سوچ سکتے ہیں کہ کیا ملک جمہوریت اور متوقع سیاسی تبدیلی کو ختم کرنے کی امکانی کوشش معاشی بحران اور بین الاقوامی وقار کو پہنچنے والے نقصان کا متحمل ہو سکتا ہے؟ حاکمانہ بالا دستی کی خواہش رکھنے والوں کو ترکی اور مصر کی مثال سامنے رکھنی ہو گی۔ سیکولرازم پہلے ہی ترکی میں ہار گیا ہے۔ ترکی کی اکثریت سیکولر ازم کو ترکی میں آمرانہ حکمرانی سے وابستہ کرتی ہے۔ لہذا یہ جان لینا ہو گا کہ مستقل سرکاری نظریہ پر اصرار اور مزید سول ملٹری تنازعہ ملک اور عوام کو بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کر دے گا۔
دانشمندی یہ ہو گی کہ دو قدم پیچھے ہٹا جائے اور بدلی ہوئی دنیا سے نہ ٹکرایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).