اپنے بچوں کی خود حفاظت کریں



پچھلے چند ہفتوں سے متواتر مدارس اور مساجد میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آرہے ہیں جن میں کوئی کافر، قادیانی یا یہودی سازش نہیں بلکہ خود مولوی حضرات ملوث پائے جاتے ہیں۔ کچھ دن پہلے پشاور کے رشید گڑھی گاؤں میں ایک بارہ سالہ بچے کی لاش عمر فاروق مسجد سے برآمد کی گئی جس کو خودکشی کا رنگ دینے کے لئے برآمدے میں گلے میں رسی ڈال کر لٹکا یا گیا اور بقول پولیس بارہ سالہ بچے کا خود کو اس طرح لٹکانا ممکن نہیں نیز یہ کہ مسجد کی چابی مسجد کے قاری کے پاس ہوتی تھی اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ بچے کی قتل یا خودسوزی کا واقعے سے وہ لاعلم ہوں اس لئے پولیس نے قاری اور دیگر عملے کو زیر حراست لے لیا ہے۔

اسی ہفتے ایک اور بھیانک واقعہ سامنے آیا۔ نوشہرو فیروز کی مسجد میں ایک مسجد کا امام حافظ غلام عباس سہتو جو کہ جے یو آئی کا رہنما بھی تھا، ایک بچے کے ساتھ باقاعدہ جنسی زیادتی کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ وہ جنسی درندہ یہ مکروہ عمل کہیں اور نہیں بلکہ مسجد کے اندر مسجد کی صف پر انجام دے رہا تھا لیکن سزا کے طور پر کسی قسم کی قانونی کارروائی تاحال عمل میں نہ آسکی۔ اس سے چار دن بعد ہی رحیم یار خان میں ایک کمسن بچی سے جنسی زیادتی کا واقعہ سامنے آتا ہے۔ معصوم بچی جو کہ مسجد میں چوتھا سپارہ حفظ کر رہی تھی وہ مسجد کے غسل خانے میں اپنے استاد حافظ ایوب انصاری کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔ وہ جنسی بھیڑیا اس بچی سے جنسی زیادتی کرنے کے ساتھ ساتھ بچی کو منہ بند رکھنے کے لیے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتا رہا

ایسے واقعات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ زنابالجبر ہی نہیں ایسے کیسز بھی مسلسل رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جن میں مدرسے یا مسجد کے عالم نے بچوں کو شدید زودوکوب کیا ہو اور مار مار کر ان کی جان لے لی ہو۔ مولوی حضرات کی اکثریت کمزور کردار کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرتی رہی ہے۔ ۔ کبھی یہ مولوی ٹک ٹاک اسٹارز کے ساتھ دوستیاں نبھاتے سامنے آتے ہیں تو کبھی ٹھمکے لگا کر رقص سامنے آنے کے بعد اگلی وڈیوز میں معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں۔

ایک شہری ہونے کی حیثیت سے ہمیں مولویوں کی ذاتی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن ان کا پیشہ جس میں ہزاروں لاکھوں بچوں کی تربیت کا ذمہ کسی حد تک پر ہوتا ہے اس بات کا متقاضی ہے کہ مولوی اور قاری حضرات کسی بھی قسم کی اخلاقی برائی سے پاک ہوں۔ لیکن ہوتا عام طور پر یہ ہے کہ معاشرے کے سب سے نالائق یا محتاج افراد کو روزی کے آخری سہارے کے طور پر دین پڑھنے پر لگا دیا جاتا ہے۔ جن سے وہ دینی کتب تو حفظ کرلیتے ہیں لیکن نہ وہ دین کی اصل روح سے واقف ہو پاتے ہیں اور نہ ہی عام زندگی سے تعلق بنا پاتے ہیں اور یہی غیر انسانی طرز حیات ان کو ذہنی مریض بنا کر کریہہ اور سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اصل مسئلہ مولوی اور دینی تعلیم دینے والوں کی ذہنی گھٹن ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو معاشرے میں عام انسانوں سے الگ ایک مقدس مقام دے کر ان پر زندگی کی تمام رنگینیاں حرام کر دی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو حکومت کی ہی ذمے داری بنتی ہے کہ ہر سطح پر دینی تعلیم دینے والوں کو جدید علوم سے بھی آشنائی دی جائے۔ اس کے بعد علاقے کے تھانے اور پولیس افسران کو مساجد اور مدارس پر خصوصی نگران مقرر کیا جائے تاکہ نہتے اور کمزور بچے کسی مولوی کے ہاتھوں درندگی کا شکار نہ بنیں۔

یہ وہ چند بنیادی باتیں ہیں جن سے کسی حد تک معصوم بچوں کو جنسی درندگی کا شکار ہونے سے روکا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ والدین کی بھی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھنے بھیج کر صرف ان سے اپنی جان نہ چھڑائیں بلکہ بچے کے آنے جانے کے مقررہ اوقات پر نظر رکھیں۔ اگر بچہ کسی قسم کی جسمانی تکلیف یا پڑھنے نا جانے کے لئے بہانے کر رہا ہے تو اسے بچے کی نالائقی سمجھنے کے بجائے اس کے مسائل سمجھنے کی کوشش کریں۔ قاری صاحب اگر بچوں کو قرآن کی تعلیم گھر میں ہی دینے آتے ہیں تو کوشش کریں کہ بچہ آپ کی نظر کے سامنے ہی رہے۔ اور سب سے اہم بات کہ بچوں کو جنسی تعلیم ضرور دیں۔ ان کو بتائیں کہ ان کے جسم کے مخصوص حصوں پر کسی کا بھی ہاتھ لگانا بری بات ہے اور ایسی صورت میں وہ آپ کو فوری طور پر باخبر کریں۔

اس طبقے میں بڑھتے ہوئے جنسی اور جذباتی ہیجان کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ حکومت اور معاشرہ ایسی حکمت عملی اختیار کرے جن سے معصوم بچوں کا تحفظ ہر صورت ممکن ہو سکے۔ عوام اس بات کو سمجھے کہ دینی تعلیم دینے والے پیغمبر یا فرشتے نہیں ہوتے۔ ہماری طرح کے عام انسان ہوتے ہیں جن سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور گناہ بھی۔ اکثر افراد مولوی پر تنقید کو براہ راست مذہب پر تنقید سمجھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ دینی تعلیم دینے والے باقاعدہ معاوضہ لیتے ہیں اور کسی صورت بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

ان پر تنقید نہ کر کے یا مقدس سمجھ کر ہر جائز ناجائز عمل کا دفاع کر کے ہم ایک ایسی آگ کو بڑھاوا دے رہے ہیں جس میں آج نہیں تو کل ہمارے اپنے بچے بھی جھلس جائیں گے۔ اگر آپ کو ان جنسی تشدد زدہ معصوم بچوں کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تو ان بچوں کی جگہ اپنے بچوں کو رکھ کر سوچیے گا۔ شاید اسی طرح آپ انصاف سے کام لے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).