قصہ ایک جنازے کا


پرانی بات ہے، میٹرک کے طالبعلم تھے، دوست کے والد کی وفات کی اطلاع ملی، خبر سنتے ہی بڑا دکھ ہوا، مرحوم بڑے مرنجاں مرنج طبعیت کے مالک اور صاحب علم انسان تھے، میری طرح دوست بھی بہن بھائیوں میں چھوٹا تھا، اس مناسبت سے دونوں کی مجموعی کیفیت ملتی جلتی تھی۔ ہم چھوٹے تھے اور ایسی نوعیت کے اجتماعات میں کم ہی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ یاسر کا گھر قریب تھا اور تعلقات کی نوعیت ایسی تھی کہ نہ جانا درست نہیں تھا۔

میں خود کو ذہنی طور پر تیار کرکے روانہ ہوگیا، سب سے پہلے ان الفاظ کو ترتیب میں لاکر دہرانا شروع کر دیا جو مجھے یاسر اور اس کے اہلخانہ سے تعزیت کے لیے ادا کرنا تھے۔ جنہیں بڑوں کو اکثر بولتے سنا تھا۔ دوسرا مرحلہ بھی کسی طور غیر اہم نہ تھا وہ نماز جنازہ پڑھنے کا تھا۔ اگرچہ بڑوں نے جب نماز یاد کرائی تھی مجھے فکر لاحق تھی کہ اگر غلط پڑھ گئے تو بڑا گناہ ہوگا۔

یاسر کے گھر گیا گلے ملا اور جو کچھ بولنا تھا وہ ذہن سے محو ہوگیا، بڑی شرمندگی ہوئی لیکن شاید اسے محسوس بھی نہ ہوا۔ قریب ہی کھڑے اس کے بڑے بھائی سے کہا بڑا افسوس ہوا۔ وہ بولے بس جو اللہ کا حکم۔

ہمارے پاس کھڑے بڑوں نے مرحوم کی باتیں زیر بحث لائیں۔ ایک صاحب نے کہا چٹھہ صاحب نے ساری زندگی بڑی ایمانداری سے گزاری۔ دوسری جانب کچھ یہ گفتگو سننے میں ملی۔ یار چٹھہ بڑا پریشان رہتا تھا خاندان میں بھائیوں کے درمیان جائیداد پر اختلافات چلے آرہے تھے، اب دیکھو چٹھہ کی اولاد کیا کرتی ہے۔

مجھے بڑا عجیب لگا اس طرح کی باتیں کرنے کے لیے یہ کون سا موقع ہے۔ اسی دوران آواز آئی، جنازہ اٹھایا جا رہا ہے۔ فضا میں کلمہ شہادت کی آوازیں بلند ہوئیں۔ میت کی چارپائی تیزی سے گلی میں لائی گئی، ہر کسی کی کوشش تھی کہ وہ بڑھ کر کندھا دے۔

میں اس دوران یاسر کو ڈھونڈنے لگا لیکن رش میں کچھ سجھائی نہ دیا۔ دل میں گھبراہٹ تھی۔ سوچا کہ کیا کندھا دیا جائے، میں بھی ہمت کرکے آگے بڑھ کر چارپائی کے پائے تک رسائی کی کوشش کی لیکن یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا، بڑوں کے درمیان موقع حاصل کرنا کسی معرکے سے کم نہ تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہر کوئی اپنا حصہ لینے کے لیے تگ ودو کر رہا ہو۔ کافی دور تک تیز تیز قدم اٹھانے کے بعد آخرکار میری باری آ گئی اور میں نے بھی پائے کو پکڑ کر کلمہ شہادت کی آواز بلند کی۔

فوری ایک نوجوان نے پائے کو تھام لیا اور اس کے نتیجے میں مجھے ایک جانب ہٹنا پڑا۔ اسی دوران ایک بزرگ نے مجھے کہا بیٹا پائے کو چھوڑنے کے بعد پیچھے آتے ہیں اور پچھلے پائے کو تھامتے ہیں۔ تم نے جیسے کندھا دیا ہے وہ غلط طریقہ ہے۔ یہ سنتے ہی مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ اسی عالم میں ایک اور محلہ دار نے کہا بیٹا ہمیشہ پہلے دائیں پائے کو پکڑتے ہیں پیچھے آتے ہیں پھر بائیں پائے کو کندھا دیا جاتا ہے۔

میں اپنی غلطی درست کرنے کے لیے دوبارہ کوشش کرکے دائیں پائے کی جانب بڑھا اور اس مرتبہ کامیابی سے یہ عمل مکمل کر لیا میں نے خود کو تھوڑا سا آرام دینے کے لیے پیچھے ہونے کا فیصلہ کیا یک دم کسی بزرگ نے کہا بیٹا آگے رہو اور میت کو کندھا دو، یہ سنتے ہی میں دوبار اسی مشق کو دہرانے لگا۔ حتٰی کہ دعا مانگنے لگا کہ جلد قبرستان آ جائے۔ جب کسی نے کہا یہاں سے دائیں نیچے ڈھلوان سے اترنا ہے قبرستان کا راستہ ادھر ہے۔ عین اس موقعے پر میں نے دائیں پائے کو پکڑا تھا مجھے ایسا لگا جیسے سانس بند ہورہا ہے۔ اس وقت خیال آیا کہ کوئی بڑا آگے نہیں آ رہا کہ اس بچے سے چارج لے لیا جائے۔

قبرستان کے احاطے میں جنازگاہ لے جاکر میت رکھ دی۔ کسی کی آواز آئی بھائی چہرہ دیکھ کر چلتے رہو پھر اعلان ہوا صفیں بنالیں۔ پیچھے سے کسی نے کہاں تین یا پانچ صفیں بنائیں۔ کوئی بولا جناب آگے آ جائیں چھٹی صف نہ بنائیں۔ ایک صاحب نے بلند آواز میں کہا ابھی نماز شروع نہ کریں کچھ لوگ وضو کر رہے ہیں ان کا انتظار کر لیں۔

امام صاحب نے آگے اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر نماز کی نیت اور دعائیں سنائیں،
نماز پڑھنے کے بعد جیسے ایک بنیادی مرحلہ تکمیل کو پہنچا میت کو لے کر قبر کے مقام پر چلے گئے۔

ایک بار ہدایات کا سلسلہ شروع ہوگیا، میت کو دائیں جانب رکھو ادھر دیکھو مٹی قبر میں نہ گرنے پائے۔ کہیں سے آواز آئی ارے میاں دوسری قبروں پر پاؤں نہ رکھو تمہیں سمجھ نہیں۔ بیٹا میت پر درخت سے پتے گر رہے ہیں انہیں اٹھالو۔

میں نے اب غور سے آوازوں کا تعاقب کیا دو تین ایسے تھے جنہیں محلے میں کوئی معتبر خیال نہ کرتا بلکہ کوئی توجہ سے سنتا تک نہ تھا۔ وہ یہاں بڑی اتھارٹی بنے تھے، ایک نے کہا بھائی نیم کے پتوں کی شاخیں کوئی اتار لائے، اب ہمیں اس کی بھی سمجھ نہیں آئی۔ گورکن اس دوران مسلسل ان کی ہدایات کی زد میں تھا۔

مجمعے سے باہر نکلے تو مختلف لوگ گروپوں کی صورت کھڑے تھے، کچھ نے سگریٹ سلگا لئے۔ ایک گروپ کی گفتگو پر توجہ دی تو وہ رات ہونے والے کرکٹ میچ پر ایڈوانس تبصرہ کر رہے تھے ان کے خیال میں ہمارے کھلاڑی آج بھی پیسے لے کر ہار جائیں گے۔

دوسری جانب کوئی بات کر رہا تھا کل شادی پر جانا ہے، یار کیا بتاؤں سسرالی شادیوں میں اتنا خرچہ ہوجاتا ہے۔ آج رات ابھی مہندی پر جانا ہے، میرے سالے بھی اتنے کنجوس ہیں قورمے کے بجائے دال چاول پکارہے ہیں۔

میں یاسر کے پاس چلا گیا وہ بیچارہ غمگین تھا اس دوران میت کو لحد میں اتارا گیا تو ایک بار پھر آوازیں بلند ہوئیں دھیان سے کمر کے نیچے کپڑا ڈال کر مضبوطی سے پکڑو۔ ایک بندہ گورکن کے ساتھ قبر میں اترجائے۔ یار دیکھنا مٹی اندر نہ گرنے پائے۔ اوہ بھائی سلیب کے اوپر پاؤں نہ رکھیں۔ چارپائی یہاں سے اٹھالو۔ پھر اعلان ہوا قبر پر مٹی ڈال دیں۔ پھر کوئی بولا ہار پھولوں کی چادر اور اگربتیاں کس کے پاس ہیں۔ چادر آئی اسے قبر پر ڈالا گیا۔ جس کے بعد مولوی صاحب نے دعا کرائی۔ اور پھر سب نے آہستہ آہستہ وہاں سے باہر نکلنا شروع کیا۔

میں یاسر کے ساتھ ان کے گھر پہنچا وہاں منظر قدرے تبدیل ہوگیا تھا خواتین کے چہروں کے تاثرات اب وہ نہ رہے اور گفتگو کے انداز اور موضوع بھی تقریباً تبدیل ہو چکے تھے۔ وہاں کھانا کھلانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔

کچھ دیر قبل جن دریوں پر افسوس کرنے والے بیٹھے تھے اب وہ کھانے کے انتظار میں براجمان تھے۔ میں نے یاسر سے پوچھا کوئی کام ہے تو بتائے اس کے بڑے بھائی نے کہا دونوں پانی کے جگ اور گلاس مہمانوں کے آگے رکھو۔ مجھے لفظ مہمانوں پر تعجب ہوا کہ یہ لوگ یک دم مہمان قرار پاگئے ہیں۔ میں گھر کے اندر گیا تو وہاں خاندان کی بڑی بوڑھی خواتین مستعدی سے ہدایات جاری کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے مجھے پانی کا جگ اٹھائے دیکھا تو فوراً کہا بیٹا پانی اندر خواتین میں پہنچادو۔

میں نے بتایا کہ یہ مردوں میں لے جا رہا ہوں وہ بولیں وہاں بھی لے جانا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہاں پانی پکڑایا تو کسی اور نے ہدایت دی یہ خالی ڈش لے جاؤ اور تازہ بریانی لے آؤ۔ پھر اندر باہر سروس کا سلسلہ چل نکلا۔ اس دوران کندھا دینے سے جو جسم میں کھچاؤ آیا تھا وہ تازہ ہوگیا۔ بس یاسر سے تعلق اور ثواب کا خیال دل میں لاکر بھاگ دوڑ جاری رکھی۔ کھانا کھاتی خواتین اس تیزی سے کھا اور باتیں کررہی تھیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ کس کام کو اولین ترجیح دے رہی ہیں۔ کوئی فیشن کی بات کر رہی تھی ایک طرف خاتون اپنے بیٹے کے رشتے کی تلاش زیربحث لائی تھیں۔ کسی نے کہا دیکھو صالحہ کی بیٹی وہ بھی اس کا رشتہ دیکھ رہی ہے۔ لڑکی نے چودہ جماعتیں کی ہیں بات کرکے دیکھ لو۔

اس کام سے فراغت کے بعد میں نے اجازت چاہی گھر پہنچا تو میرے لیے یہ سب کچھ ایک فلم کی طرح چل رہا تھا۔ اب مجھے یہ تعین کرنا مشکل ہوگیا کہ تھکاوٹ زیادہ ہوئی یا بھوک لگ رہی ہے۔ میں نے سوچا کچھ میں نے دیکھا اور سنا ایسا ہی جنازوں میں ہوتا ہے یا محض اتفاق تھا۔ بہرحال میرے لیے یہ ایک حیران کن تجربے سے کم نہ تھا۔ میں نے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی۔ اب کئی برس بیت گئے لیکن یہ سب آج بھی ایسے ہی ہوتا ہے، ہم نہیں بدلے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar