کچھ الفاظ ادھار دے دیں


کل رات خواب میں ملک جہانگیر اقبال صاحب کو فون کیا اور ان سے درخواست کی کہ مجھے کچھ الفاظ ادھار دے دیں۔ جہانگیر صاحب پہلے تو ہچکچائے کہ کیا چاہیے؟ میں نے کہا الفاظ ادھار چاہیے۔ کون سے الفاظ؟ کیسے الفاظ؟ میں نے کہا وہ الفاظ جن سے غم کا اظہار لکھا جاتا ہے۔ وہ میری بات سمجھ گئے اور سمجھانے لگے کہ جس طرح دکھ ادھار نہیں نا دے سکتے اسی طرح الفاظ بھی ادھار نہیں ملتے۔ اپنے دکھ کے اپنے الفاظ ہوتے ہیں۔ میں نے کہا دکھ بھی تو بانٹے جا سکتے ہیں تو الفاظ کیوں نہیں؟

کہتے نہیں پگلے تمہیں کس نے کہا کہ دکھ بانٹنے سے بٹ جاتے ہیں۔ وقتی حوصلہ ہوتا ہے دکھ تو زندگی بھر کا ساتھ ہے جنہوں نے کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑنا۔ پھر کہنے لگے کہ اپنے دماغ میں بچھڑے ہوئے والد اور والدہ کو یاد کرو اور بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تو وہ کہتے کیا ہوا میں نے کہا کچھ یاد آ گئی تھی کہتے میری بات سمجھ آئی کہ یاد ماضی کو عذاب اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کے دکھ ختم نہیں ہوتے اور نا بٹتے ہیں اور جن الفاظ کی تم بات کر رہے ہو جو خاص دکھ کے لیے جذبات ہوتے ہیں جن کے الفاظ دکھ کی شدت میں مضمر ہیں۔

کئی لوگ ماضی کی یادوں کو بڑے خوش و خرم طریقے سے یاد کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ماضی کے عذاب کو یاد کر کے آنکھیں بھر لیتے ہیں۔ دکھ کی یہ شدت آپ کو معمولی سے معمولی بات پر بھی محسوس ہو سکتی ہیں اور آنکھ آنسوؤں سے بھر جاتی ہے لیکن ایسا کیوں کر ہوتا ہے ایسا تب ہی ہوتا ہے جب بہت بڑا نقصان ہوا ہو۔

بولتے بولتے کچھ لمحوں کا توقف کیا اور کہا کہ خوش قسمتی بڑی چیز ہوتی ہے اور بدقسمتی بہت بری چیز ہوتی ہے۔ میں نے سوال کیا کہ وہ کیسے سر؟ کہتے کہ یہ کیسی خوش آئند بات ہے کہ آپ کے محبوب رشتے آپ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ایک قدرتی عمل چل رہا ہو لیکن آپ کا ساتھ تب وہ چھوڑتے ہیں جب آپ عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتے ہیں جب آپ کندن بن جاتے ہیں اور وہ دور مسلسل خوش قسمتی آپ کو مضبوط اعصاب کا مالک بنا رہی ہوتی ہے۔

سر کو اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا کہ ہاں میں بات کر رہا ہوں ماں باپ کے ساتھ زندگی گزارنے کی، سب سے پہلی بات کہ ان کی دعاؤں سے آپ کو زمانے کی تند و تیز ہوا کے تھپیڑے نہیں سہنے پڑتے، دوسری بات مشکلات جتنی بڑی ہوں ماں باپ کا دیا ہوا حوصلہ سب کچھ بھلا دیتا ہے تیسری بات شفقت سے ایک دفعہ ماں ماتھا چومے اور آپ سالوں اس بوسے کی تاب میں مگن رہتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بیٹا خوش قسمتی پر انحصار کرتی ہیں۔

بد قسمتی بڑی ظالم چیز ہے آپ کو ایسے ایسے دوراہے پر لا کھڑا کر دیتی ہے کہ آپ کے پاس دلاسے کو کوئی نہیں رہ جاتا۔ رونق آمیز مناظر بھی آپ کے دل میں جگہ بنانے سے قاصر رہتے ہیں جتنی مرضی کوشش کرلی جائے کوئی بھی خوشی آپ کو غم مبتلا سے نکلنی ہی نہیں دیتی۔ بظاہر خوش و خرم لیکن دل میں سمندر جدائیوں اور دکھوں کا ٹھاٹھیں مار رہا ہوگا۔ لیکن اس ضبط کے بھی نقصانات بہت سنگین ہیں لہذا بیٹا بدقسمت کا کچھ نہیں ہو سکتا۔

آخر میں انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے بس یہی کہا کہ
” بدقسمتی کا نوحہ پڑھتے رہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).