نواز شریف کو واپس لانا واقعی ضروری ہے


وزیر اعظم عمران خان، کابینہ اور حکومتی وزرا کی طرف سے لمبی چپ کے بعد آج کل پھر راگ نوازی بڑے زور و شورسے الاپا جا رہا ہے۔ بظاہر اس کی وجہ وہ تصویر ہے جس میں نواز شریف اپنے بیٹے کے ہمراہ رم جھم برستی بارش میں مکمل طمانیت سے چہل قدمی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ نواز شریف کی تصویریں اس سے پہلے بھی حکومتی ایوانوں کی جھیل میں ارتعاش پیدا کرتی رہی ہیں مگر اس آخری تصویر نے تو گویا پانی میں آگ لگا دی ہے۔ تصویر دیکھتے ہی شہزاد اکبر، فیاض الحسن چوہان، شہبازگل وغیرہ نے پریس کانفرنسیں کر کے غل مچایا کہ یہ کیسا مریض ہے جو برسات کے موسم میں چہل قدمی کر رہا ہے؟ اس کے چہرے مہرے سے بیماری کے آثار ہویدا ہیں نہ اس بات کی فکر ہے کہ یہ تصویر دیکھ کر حکومت، وزرا، ترجمان، عدلیہ اور ضمانتیوں کے دل حزیں پر کیا گزرے گی؟

تصویر کیا تھی ایک تیر ستم تھا جو نئے پاکستان والوں کے قلب ناتواں میں کھب گیا ہے۔ شاید ایسے ہی تیر ستم کے بارے میں ہر عہد پرغالب مرزا غالب نے درد و کرب سے کراہتے ہوئے کہا تھا کہ

کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہو تی جو جگر کے پار ہوتا

نئے پاکستان والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر برطانوی حکومت کو خط لکھیں گے کہ وہ ہمارے ”مجرم“ کو ہمارے حوالے کر دے۔ اس پر شیخ رشید نے پھبتی کسی ہے کہ جو حکومت اب تک اسحٰق ڈار کو واپس نہیں لا سکی وہ نواز شریف کو کیا واپس لائے گی؟ یہ آدھا سچ ہے جو شیخ صاحب کی زبان سے سزرد ہوا ہے ورنہ وہ اس فہرست میں اپنے سابق مربی ”سیدی“ پرویزمشرف کو بھی شامل کر سکتے تھے جو کمر درد کا بہانہ کر کے مفرور ہوئے تھے اور اب تک واپس نہیں آئے۔ میں حیران ہوں کہ شیخ صاحب نے ڈان الطاف حسین کا نام نامی کیوں نہیں لیا جن کے خلاف ان کے موجودہ مربی عمران خان لندن میں مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کر کے نہ صرف تاریخی یو ٹرن لے چکے ہیں بلکہ الطاف بھائی کی دہشت گرد اور بوری بند لاشوں کی سیاست کرنے والی پارٹی سے اتحاد بھی کر چکے ہیں۔

کچھ ذرائع نے انکشاف بھی کیا ہے کہ جب سے نواز شریف نے اپنی والدہ، مریم نواز اور حسین نواز کی مرضی کے خلاف پاکستان واپسی کا اٹل فیصلہ کیا ہے، موجودہ حکمران ان کو واپس لانے کا پٹ سیاپا کر کے کریڈٹ لینا چاہتے ہیں کہ ہم نواز شریف کو واپس لائے ہیں۔ کچھ حلقوں کے مطابق حکومت کے اس واویلے اور چیخ پکار کا مقصد یہ ہے کہ وہ نواز شریف کو ان کے اس پانچ سالا معاہدے کی یاد دلائے جو وہ ملک کے اصل حکمرانوں سے کر کے گئے ہیں جس کی رو سے وہ پانچ سال تک واپس ملک آئیں گے نہ حکومت کے خلاف کسی احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں گے۔

اب اللہ ہی جانے حقیقت کیا ہے۔ ادھر ن لیگ کے سیاسی زعما یہ فرما رہے ہیں کہ نواز شریف خود لندن نہیں گئے بلکہ انہیں موجودہ حکومت نے زبردستی بھیجا ہے۔ نواز شریف واپس تو آنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کا علاج ابھی جاری ہے اس لیے انہیں ملک واپس جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس حوالے سے رانا ثنا اللہ نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ نواز شرہف اپنے علاج کے ساتھ حکومت کا علاج بھی کر رہے ہیں۔

کچھ سیاسی پنڈت یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی ناراضی کے بعد نواز شریف کی اچانک ملک میں آمد موجودہ ہائبرڈ حکومت کے لیے سخت خطرے کی گھنٹی ہے اور نواز شریف کا آنا وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کا اشارہ بھی ہے۔ اس سے پہلے مریم نواز بھی طویل خاموشی کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل مچانے کا واضح عندیہ دے چکی ہیں۔ معیشت کی حالت دگر گوں ہے۔ مہنگائی، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی کے بعد آٹے اور چینی جیسی بنیادی اشیا کی کمیابی نے عوام کی کمر دہری کردی ہے۔

کروڑوں پاکستانیوں نے نئے پاکستان سے جو سہانے خواب وابستہ کیے تھے ان سب کا خون ہو چکا ہے۔ ملکی جی ڈی پی منفی میں جا چکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ بیٹھ چکی ہے۔ ڈالر کی اونچی پرواز نے ہوش خطا کر رکھے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں پینتالیس روپے کلو آٹا اور پچاس روپے کلو ملنے والی چینی بالترتیب اسی اور ایک سو دس روپے پر پہنچ چکے ہے۔ آٹا، چینی کے علاوہ ادویات سکینڈل نے عوام کی جیبوں پر تاریخی ڈاکا ڈالا ہے۔ وزیر اعظم کے دوست، اقربا اور قریبی عزیز دن رات مال بنانے میں لگے ہیں۔

حکومت نے سیاسی مخالفین کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ بیوروکریسی میں کام ٹھپ ہو چکا ہے۔ میڈیا کا گلہ بری طرح فاشزم کے شکنجے میں ہے۔ اب تو ملک کی بڑی بڑی خواتین اینکرز نے خود پر ہونے والے رکیک اور پست حملوں کی دہائی دینا شروع کر دی ہے۔ سی پیک پر غیر یقینی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی نااہلیوں کے طفیل ہمیں ایف ٹیف میں سخت حالات کا سامنا ہے۔ خارجہ پالیسی کا جنازہ نکل چکا ہے۔

کشمیر ہم سے چھن چکا ہے۔ فی کس آمدنی پہلے کے مقابلے میں کئی فیصد کم ہو چکی ہے۔ بے روزگاری کی پچھل پائی خون خون پیاس پیاس کا نعرہ لگاتے ہوئے ہر جا ناچ رہی ہے۔ وزیراعظم خود تسلیم کر رہے ہیں ہماری نا اہلی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام غیظ و غضب کی کیفیت میں ہیں۔ تمام سروے یہی بتا رہے ہیں کہ عوام اس حکومت کے خاتمے کے لیے جھولیاں پھیلا پھیلا کے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ شہباز گل، فیاض الحسن چوہان، شہزاد اکبر، شبلی فراز، زرتاج گل اور مراد سعید جیسے وزرا کی شیخیاں، خود ستائی اور سب و شتم ان سب پر مستزاد ہیں۔ دریں حالات ہر درد مند پاکستانی کے دل کی یہی آواز ہے کہ نواز شریف کو جلد از جلد واپس لایا جائے تاکہ وہ ہمیں وہی پرانا پاکستان لوٹا سکیں جو ہر شعبے میں تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).