دو سال یا دو صدیاں۔۔۔؟


عمران خان کو اقتدار انجوائے کرتے دو سال ہو چکے لیکن کیا آپ کو لگتا ہے واقعی یہ دو سال ہی ہوئے ہیں؟ اگر آپ منہ میں سنہری چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں یا ہمارے وزیراعظم کی طرح آپ کا کچن کوئی اور چلاتا ہے، یا آپ ایسے سرکاری افسر ہیں جو کسی کی فائل دبانے کا اختیار رکھتے ہیں تو آپ کا جواب ”ہاں۔“ میں ہو سکتا ہے، حکومت کچھ بھی کرتی رہی آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ہاں اگر آپ ملازمت پیشہ ہیں، دکاندار یا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں تو دو سال کا یہ عرصہ آپ کو دو دہائیوں سے زیادہ بھاری لگ سکتا ہے۔

انسان مشکلات میں گرا ہو تو گھڑیاں بھی صدیاں بن جاتی ہیں۔ ان دو برسوں میں کون سا شعبہ ہے جو اب تک اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہا ہو۔ چار سو غیر یقینی کے گہرے بادل چھائے ہیں، کوئی نہیں جانتا ملازمت اور کاروبار کے ساتھ کب کیا ہو جائے؟ ایسا کڑا وقت پاکستان پر پہلے آیا اور اللہ کرے نہ آئندہ کبھی آئے۔ ان دو برسوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جو بھی سنا پہلے سے برا سنا، جو دیکھا، بدتر ہی دیکھا۔

پی ٹی آئی حکومت نے عوامی توقعات، خواہشات اور خوابوں کا جس طرح خون کیا ہے اسے کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اتنا بڑا دھوکا اور مکر و فریب پاکستانی عوام کے ساتھ پہلے کبھی کسی حکومت میں نہیں ہوا۔ عوام سے کیا گیا ہر وعدہ نہ صرف پورا نہیں ہوا بلکہ اس کے بالکل برعکس کیا گیا۔ ایک کروڑنوکریاں دینے کا وعدہ ہوا مگران دو برسوں میں لاکھوں لوگ روزگار سے محروم کر دیے گئے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق آئندہ چھ ماہ میں پچیس لاکھ پاکستانی بے روزگار ی کا عذاب سہہ سکتے ہیں، جن کا روزگاربچا ہے ان کی آمدنی بھی مسلسل سکڑ رہی ہے لیکن آپ یہ دیکھیں حکومت کی طر ف سے ابھی تک دایاں دکھا کر بایاں مارنے کے شرمناک مظاہرے جاری ہیں۔

وعدوں سے پھرنے اور یون ٹرن لینے جیسی چالاکیوں کو سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کا نام دیا جا رہا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے، دھوکہ دہی سے اپنا مطلب نکال لینا بھلا کون سے فخرکی بات ہے؟ خان صاحب جو روزانہ۔ ”دو نہیں ایک پاکستان“ کی بات کرتے تھے، آج ان کی زبان تالو سے کیوں چپک گئی ہے؟ یا واقعی اب ایک پاکستان بن گیا ہے؟ اب غریب کے ساتھ کسی کو زیادتی کرنے کی ہمت نہیں رہی؟ کیا اب شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں؟ کیا تعفن زدہ اور گلا سڑا عدالتی نظام اب خوشبو دینے لگا ہے، کیا تھانے کچہریوں میں لوگوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک ہونا بند ہوگیا ہے؟ کیا غریب اور امیر کا فرق ختم ہو گیا ہے؟ کیا ان دو برسوں میں بلڈی سولین کا تصور ٹوٹا ہے یا پہلے سے مزید مضبوط ہوا ہے؟

دو سال میں حکومت ایک ڈراؤناخواب بن چکی، زرداری حکومت جیسی زیرو کارکردگی دکھانے والی حکومت سے بھی لوگ اتنی جلدی مایوس نہیں ہوئے تھے جتنے آج ہیں۔ بیڈ گورننس میں موجودہ حکومت نے پیپلزپارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کیا کسی نے کبھی پیٹرولیم کمپنیوں اور فلور ملز کے ہاتھوں آج تک کسی حکومت کی یوں ذلت اور درگت بنتے دیکھی ہے؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ پینسٹھ روپے کلو چینی پر تو کمیشن بن جائے لیکن ایک سو دس روپے کلو چینی کی فروخت پر حکومت تماشا دیکھ رہی ہو؟ کیا پاکستان میں آج تک ایسا ہوا گندم کی فصل تیار ہوئی ہو لیکن مارکیٹ میں دکھائی نہ دے؟ کیا چودہ سو روپے من گندم کو ڈھائی ہزار روپے میں فروخت ہوتے کبھی دیکھا ہے؟ اور وہ بھی فصل کی کٹائی کے فوری بعد۔ مگر یہ سب کچھ آج دھڑلے سے ہو رہا ہے۔

بندہ پوچھے جب نااہلی کا یہ عالم تھا تو عوام سے خوشحالی کے جھوٹے دعوؤں اور وعدوں کی کیا ضرورت تھی؟ 100 دنوں میں ملک کی قسمت بدلنے کے دعوے کس بل بوتے پر کیے گئے؟ جب نوجوان طبقے کے لیے کچھ کرنے کی اہلیت نہیں تھی تو انہیں سبز باغ کیوں دکھائے گئے؟ جن کندھوں پر بیٹھ کرعمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے ان نوجوانوں کے لیے کیا کیا ہے؟ محض ٹائیگر فورس کے جھنجھنے سے نوجوانوں کو بہلایا نہیں جا سکتا۔

فرمایا گیا ”میں اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولوں گا ’‘ مگر ان دو برسوں میں صرف اور صرف جھوٹ ہی بولا گیا۔ کہا گیا کابینہ چودہ پندرہ لوگوں پرمشتمل ہوگی مگر آج کابینہ کو دیکھیں تو اس پر شیطانی آنت کا گماں ہوتا ہے۔ ارشاد ہوتا تھا حکومت میں آئے تو دوستوں کو نہیں نوازیں گے مگر آج کابینہ میں یاروں کے علاوہ کم ہی کوئی دوسرا دیکھنے کو ملتا ہے۔ کہا گیا دہری شہریت والے ملک سے مخلص نہیں ہوتے مگر آج وزیراعظم کا مشیر بننے کے لیے دہری شہریت سب سے بڑا معیار ہے۔ پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ ہوا مگر اب تک ایک گھر کی بنیاد تک نہیں رکھی جاسکی۔

عمران خان کے سیاسی، جذباتی اور غیر سیاسی کارناموں سے بچہ بچہ واقف تھا۔ آج سے نہیں تب سے جب خان صاحب ”پلے بوائے“ کے طور پر مشہورتھے۔ اس وقت بھی دنیا بھر کے اخبارا ت ان کی دلچسپ اور رنگین کہانیوں سے بھرے ہوتے تھے۔ یہ طے تھا ایسے شخص کا وزیراعظم بننا کسی طور بھی ملک و قوم کے لیے خوش بختی کی علامت نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود طاقت ور قوتوں نے اقتدار کا ہما کپتان کے سر پر بٹھا دیا مگر یہ ”سلیکشن“ ملک و قوم کو اتنی بھاری پڑے گی اس کا اندازہ شاید خود انہیں لانے والوں کو بھی نہیں تھا۔

آپ سوچیں جو حکومت سعودی عرب جیسے دیرینہ اور برادر اسلامی ملک کو بھی راضی نہیں رکھ سکتی، جو چین جیسے آزمودہ دوست کو۔ ”دیکھو اور انتظار کرو“ کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر سکتی ہے، جو سی پیک جیسے قومی نوعیت کے منصوبے کو بھی پس پشت ڈال سکتی ہے، جو سرحدی جھگڑوں کا حل نقشے بازیوں میں تلاش کرتی ہے، ایسی حکومت اور اس کے سربراہ کی اہلیت کی سطح کیا ہو گی؟

اچھی حکمرانی کا سادہ سا اصول ہے، right man for the right job لیکن بدقسمتی دیکھیں موجودہ حکمران اتنی سی بات سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ ایسے لوگوں اور اداروں سے سفارتی کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا سفارت کاری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایک اوسط ذہن کا بندہ بھی یہ بات جانتا ہے ایسی کوششوں کا وہی نتیجہ نکلے گا جو کسی گن مین کو چیف ایگزیکٹو کی کرسی پر بٹھا نے یا کسی بڑھئی سے الیکٹریشن کا کام لینے کا ہو سکتا ہے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک صفحے پر ہونے کی تکرار کسی مقدس ورد کی طرح جاری ہے، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ملک میں وہ ایک صفحہ ہمیشہ سے کس کا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے تو اس معاملے میں سول حکومتوں کا رہا سہا اور جھوٹ موٹ کا بھرم بھی ختم کر ڈالا ہے، داخلی، خارجی، سفارتی یہاں تک کہ مالی معاملات میں بھی انصافی حکومت کا کردار محض نمائشی ہے۔ پی آئی اے، سول ایوی ایشن، این ڈی ایم اے بلکہ واپڈا جیسا ادارہ بھی ہمارے فوجی افسران چلا رہے ہیں۔

بچی کھچی وزارتوں پر دہری شخصیت والے بابو، اشرافیہ یا مشرف کی باقیات قابض ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا عوام سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا، ان لوگوں کو معلوم ہی نہیں عام پاکستانی کو زندگی گزارنے کے لیے کون کون سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ عمران خان کے گرد جمع ہونے والے ایسے لالچی پنچھی ہیں جو موافق حالات کو دیکھتے ہوئے دانا چگنے آئے ہیں، جیسے ہی انہیں موسم بدلتا نظر آیا، یہ اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹ جائیں گے۔

جو لوگ ووٹ لے کر آئے ہیں ان کا کردار تو اور بھی افسوسناک بلکہ شرمناک ہے۔ انہیں صرف اپنی تنخواہوں سے غرض ہے یا ان کا کام اسمبلیوں میں ڈیسک پیٹنا اورحکومت کی ایسی تصوراتی ترقی کے دعوے کرنا رہ گیا ہے جو آج تک زمین پر دکھائی نہیں دی۔ آپ اندازہ لگائیں پہلے غلط معاشی پالیسیوں سے لوگوں کو کنگال کیا گیا، مختلف حیلے بہانوں سے عوام کی جیبیں خالی کرائی گئیں، پھر عوام ہی کے پیسے کو ”احساس پروگرام“ کے ذریعے چند لاکھ لوگوں میں بانٹ کر حاتم طائی ہونے کا ڈھونگ رچایا گیا۔ لوگوں کی آنکھیں چھین کر چراغ بانٹنے کو اگر کوئی سخاوت مان رہا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیں بے وقوف حکمران کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی کوئی حماقت آخری نہیں ہوتی اور ابھی تو صرف دو سال ہی ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).