نظام صحت کے مسائل کی تشخیص اور علاج


خدا کا نام جس شدت اور کرب سے سرکاری ہسپتالوں کی راہداریوں میں لیا جاتا ہے، شاید ہی کسی مسجد، مندر یا کلیسا میں لیا جاتا ہو۔ یہ شدت تو شاید ہمارے جذبۂ ایمان کا مظہر ہے لیکن اس کرب کی وجہ یقینی طور پہ عوام کو درپیش وہ مسائل ہیں جو ناکافی اور غیر معیاری طبی سہولیات سے جنم لیتے ہیں۔

اسی راہداری کے ساتھ ایک کمرے میں نظام صحت کسی ازلی بیمار کی مانند آکسیجن لگائے پڑا کراہ رہا ہے۔ نظام کے بستر کے آس پاس شاہی طبیبوں اور نوکر شاہی کی فوج ظفر موج گھیرا ڈالے کھڑی ہے۔ کسی کے خیال میں نظام کو بدانتظامی کی بیماری لاحق ہے، کوئی فنڈز کی کمی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تو کوئی ڈاکٹرز میں سیاست کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ کوئی بورڈ آف گورنرز کا انجکشن تجویز کرتا ہے، کسی کے نزدیک ہیلتھ انشورنس کی گولی ہی نظام کو بچا سکتی ہے اور کوئی پی ایم ڈی سی کا آپریشن کرنے کو آخری حل سمجھتا ہے۔

ان انقلابی نسخوں کے باوجود بھی نظام کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔ عوام کے عدم اعتماد کا یہ حال ہے کہ لوگوں نے کرونا وبا کے دوران ہسپتالوں کا رخ کرنے کی بجائے گھروں میں مرنے کو ترجیح دی ہے۔ وبا کے علاوہ نارمل حالات میں بھی کوئی ایک سرکاری ہسپتال بھی شاید ایسا نہ ہو جہاں کوئی شریف آدمی عزت نفس مجروح کرائے بغیر اپنا علاج کروا سکے۔ چنانچہ شریف آدمی اگر کم شریف ہے تو پرائیویٹ ہسپتال کا رخ کرے گا اور اگر زیادہ شریف ہے تو لندن کا۔

عدم مساوات اور طبقاتی تقسیم کی بیماری ہی نظام صحت کو لاحق مرض ہے۔

قدیم یونان کے سپارٹا سے لے کر جدید دنیا تک ریاست کی بقاء ذہنی و جسمانی طور پہ تندرست افراد سے جڑی ہوئی ہے جو دو طریقوں سے ممکن ہے۔ پہلا طریقہ ہیلتھ انشورنس کا ہے جو امریکہ سمیت کئی ممالک میں رائج ہے۔ یہاں ریاست اپنے شہریوں کو انشورنس کمپنیوں کے ذریعے صحت کی سہولیات مہیا کرتی ہے۔ یہ دنیا کا مہنگا ترین کارپوریٹ نظام ہے جو امریکن جی ڈی پی کا سب سے زیادہ حصہ یعنی سترہ فیصد کھا جاتا ہے لیکن ابھی بھی دو کروڈ امریکی عوام انشورنس سے محروم ہیں۔

دوسرا نظام برطانیہ اور اکثر یورپی ممالک کا ہے جہاں ریاست ایک ماں کے جیسے نظام صحت کی تمام تر ذمہ داری اٹھا لیتی ہے اور مہد سے لحد تک اپنے شہریوں کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔ برطانیہ اپنی جی ڈی پی کا نو فیصد نظام صحت پہ خرچ کرتا ہے اور ایک مربوط پرائمری کیئر کی مدد سے فلاحی ریاست کا کردار بخوبی نبھا رہا ہے۔ ان ممالک کے مقابلے میں پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف اعشاریہ نو فیصد عوام کی صحت پہ لگاتا ہے، امریکا کے انشورنس ماڈل کو رائج کرنے کی کوشش کر رہا ہے، متاثر برطانوی فلاحی ریاست سے ہے اور نعرے مدنی ریاست کے لگا رہا ہے۔

ریاست مدینہ، پاکستان کی ریاست کا موجودہ فکری ماخذ ہے۔ معلم ثانی الفارابی کے نزدیک ایک کامل ریاست، جسے وہ مدینہ الفاضلہ کا نام دیتا ہے، اپنے شہریوں کے لئے ایک ایسے مثالی معاشرے کا قیام یقینی بناتی ہے جہاں افراد کو وہ تمام سہولیات ملیں جو ان کو دنیاوی اور روحانی مسرت فراہم کر سکے۔ ایسی ریاست الفارابی کے نزدیک ابھی تک صرف نبی کریم کے دور کی ریاست مدینہ رہی ہے اور شاید ایسی ہی ریاست کا خواب موجودہ وزیراعظم کا بھی ہے۔ مگر وہ ریاست جو صرف بنیادی ضروریات زندگی ہی مشکل سے پوری کر سکے، جہاں جبر ہو، نا انصافی ہو اور گفتار پہ تعزیریں ہوں، اسے الفارابی مدینہ الجاہلیہ کا نام دیتا ہے۔ یہ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ہم آج کس طرح کی ریاست میں جی رہے ہیں لیکن یہ بھی کیا کم ہے کہ جیے جا رہے ہیں۔

جون ایلیا زندہ ہوتے تو فرماتے کہ یہ مسلسل زوال پذیری ہمارا مقسوم کیوں قرار پائی ہے؟ یہ بات بار بار سوچنے کی ہے اور ہم میں سے ہر شخص کے سوچنے کی ہے۔ تو کیوں نہ اس بیمار نظام صحت کا علاج ایک ایسے نظریے سے کیا جائے جس کی اساس مدینہ الفاضلیہ کے سیاسی، اخلاقی اور جمالیاتی بنیادوں پہ رکھی گئی ہو۔ جہاں ہر شہری بلا تخصیص مذہب، رنگ، نسل یا مالی استطاعت کے اپنا علاج کروا سکے، جو بیرونی دباؤ سے آزاد ہو کر صحت عامہ کی آزادانہ پالیسی بنا سکے، جہاں طبی تعلیمی اداروں میں فکرو تحقیق اور سوال اٹھانے کی آزادی ہو، جہاں ہر یونین کونسل میں جنرل فزیشنز، نرسز اور مڈوائف پہ مشتمل جدید پرائمری کیئر سنٹر ہوں جو ہسپتالوں میں سپیشلسٹ کیئر کے ساتھ مربوط ہوں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو ان کے گھر کے نزدیک وہ تمام جامع اور معیاری طبی سہولیات فراہم کر سکیں جو عوام کا بنیادی حق ہے۔

اگر اس صراط مستقیم پہ چلنا مشکل لگے تو قوم کی ٹوٹکوں پہ جان چھڑکنے کی عادت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تیر بہدف نسخۂ کیمیا بھی پیش خدمت ہے کہ وزیراعظم صرف یہ اعلان فرما دیں کہ گورنمنٹ آف پاکستان کے تمام عہدے داران اور ملازمین بشمول اراکین اسمبلی اپنا علاج صرف اور صرف سرکاری ہسپتالوں میں کروانے کے پابند ہوں گے۔
مساوات کا یہی اصول ریاست مدینہ کی اساس اور نظام صحت کا علاج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).