بلاول بھٹو اور عمران خان کے نام ایک غیر خوشامدی کھلا خط


السلام علیکم!

پاکستان بننے کے بعد جناح کا زندہ جوہر سیاست صرف ذوالفقار علی بھٹو ہے، جس کی سیاسی فرزندی کا خواب مدینہ اور جواب کوفہ سے مشابہ ہے۔ مدینہ کا خواب حسینیت کی تڑپ بن کر زندہ رہتا ہے اور جواب کوفہ ابن زیاد کی عداوت بن کر اوجھل ہو جاتا ہے۔ اسلامی سیاست کا جوہر زمین کربلا کا ستارہ بن کر چمکتا ہے اور سیاسی اسلام کا زور تیور زینب کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے سامان دربار سمیت ڈھیر ہو جاتا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگریس چھوڑ کر اور اس کے مقابل خم ٹھونک کر مسلم لیگ کی طرف آ کر اس کی سیاسی قیادت سنبھالی۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوبی اقتدار سے بغاوت اپنا کر اور اس کے نظام سیاست و حکومت کے لیے چیلنج بن کر اپنی قیادت میں نئی پارٹی سامنے لائے۔ کلید اقتدار اس وقت تھمائی گئی جب ملک شکست خوردہ اور قوم ماتم کناں تھی۔ فوج بے دست و پا؛ نظام بے آئین اور ملکی بقا بھارتی خطرات کی پیش قدمی سے دوچار تھی۔

اوپر سے ”سمائلنگ بودھا“ کا زہر خند بھارتی برتری اور بالادستی کی ترنگ آمیز تڑیہہ لے کر پھوٹا، جو ہندوتواء کا جوہری خواب تھا۔ جواب میں ”سلیپنگ بھٹو“ اپنے مرقد کی ”گڑھی“ میں ”خدابخش“ جوہری انگڑائی تان کے سو گئے تو اپنے ابو کی بے نظیر ”ذین“ (زین۔ اب) اپنے خون کی سرخی سے مشروط ”این آر او“ کی قیمت پر جمہوری سیاست کے خلاف بپا وہ ”مراد فساد“ بے اثر کر کے دکھا گئیں جس نے عدلیہ کو بھی زچ کر رکھا تھا، جلاوطن سیاسی قیادت کو بھی غیرملکی پناہ گزین کر رکھا تھا اور اس انتخابی عمل پر بھی قدغن لگا رکھی تھی جس کے نتیجے میں اور تو اور آپ نے (عمران خان) بھی منتخب ہونا تھا اور جس کے بل بوتے پر بلاول بھٹو کو بھی ”چٹ چیئرمین کے مصداق زین العابدین کی یاد میں“ مراد سعید ”کا بول سکھانا تھا۔

کوئی مراد سعید جب یہ بولتا ہے تو زین العابدین کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ بھٹو کا سیاسی اور حربی جوہر اس بہانہ سازی پر عبرت کا نمونہ بننے سے کیوں باز نہ آیا کہ پچھلی حکومتوں نے ٹوٹا ہوا، شکست خوردہ اور ماتم کناں پاکستان چھوڑا تھا۔ بھٹو نے ایسے کسی بہانے کا سہارا نہیں لیا۔ تمام سیاسی اور پارلیمانی قیادتوں کا اجتماعی مینڈیٹ لے کر ہوائی اڈے سے دشمن اور فاتح بھارت کی جانب اڑان بھری اور فوج کی ہاری ہوئی جنگ سیاسی ٹیبل پر جیت کر لوٹے۔ سیاسی اور جمہوری قوت آزمائی کو پاکستان میں زندہ اور متحرک کر کے دستور منظور کروایا۔ مسلم دنیا اور تیسری دنیا کی قیادت کا سہرا پاکستان کے سر سجایا۔

جناب عمران خان صاحب اور جناب بلاول بھٹو صاحب!

آپ دونوں صاحبان کے ایک دوسرے کی حیثیت ماننے یا نہ ماننے کے دو طرفہ تحفظات اپنی جگہ، تاہم آپ دونوں کی شناخت کا بنیادی پیمانہ دستوراً جمہوری سیاست اور اس کی جوہری سربلندی سے مشروط ہے، کسی پروڈا، ایبڈو یا نیب جیسے کسی سیاست کش اور پیٹریاٹ ساز انجینئرنگ کرتب پر مبنی سیاسی اسلام یا عسکری احتساب کا مرہون منت نہیں جس کا اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر اس کی عادی مسلم لیگ کو پی پی پی کے سمجھانے کے باوجود پتہ نہ لگ سکا تھا، یا جو ”اینٹ سے اینٹ بجانے کا بگل“ سن کر طے شدہ ملاقات سے ہی منحرف ہو گئی، پس؛ اس موجب کہ عمران خان ہی موجودہ وزیراعظم پاکستان اور بلاول بھٹو ہی واحد لیڈر ہیں جو بخوبی جانتے ہیں کہ

Leadership is communicating to people their worth and potential so clearly ”
(that they come to see it in themselves ”(R Covey

جناح جس اسلامی سیاست کے علمبردار تھے وہ اس سیاسی اسلام سے الگ اور قطعی مختلف تھی جسے متحدہ ہند کے مذہبی مسلم علماء نے تحریک ہجرت، تحریک خلافت یا تحریک عدم تعاون جیسے ناموں کا محرک بنا رکھا تھا۔ اس کے برعکس جناح نے ”میثاق مدینہ“ کی تقلید میں ”میثاق لکھنو“ طے کروا کے ہندو۔ مسلم دوقومی ہند کے قیام کی نشاندہی منظور کروا لی، بعد ازاں جس سے منحرف ہوتے ہوتے بالآخر کانگریس خود تقسیم ہند تک جا پہنچی تو قائداعظم کو بھی مجبوراً تقسیم ہند کا فیصلہ کن چارٹر ماننا پڑ گیا، کیوں کہ پارلیمنٹ میں لیگ کو وہ عددی برتری حاصل نہ تھی جو کانگریس کو حاصل تھی۔

میثاق لکھنو سے میثاق تقسیم ہند پر انجام پذیر ہونے والی تحریک سے پاکستان کا قیام جانے کیوں ادھر ”میثاق پاکستان“ کی بجائے ”نظریہ پاکستان“ سے جوڑ لیا گیا، جبکہ دس گیارہ جون سے ادھر ”اکھنڈ بھارت“ کی معنوی چارہ گری پوری شدومد سے بھڑکائی جا چکی تھی جو 3 جون اور 18 جولائی 1947 کو جاری ہونے والی تاریخی اور قانونی دستاویزات کی صریح خلاف ورزی اور علانیہ روگردانی کا جرم ہے، جو برطانوی یا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اٹھایا جانا درکار تھا، لیکن، اور الٹا ”نظریہ پاکستان“ کا بیانیہ اپنا کر ”اکھنڈ بھارت“ کو کھل کھیلنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی اور بھارتی مسلمانوں اور پاکستانی شہریوں کے وہاں باقی رہ جانے والے ”مادر وطن“ سے بھی دستبرداری قبول کر لی گئی؟ جونا گڑھ، حیدرآباد دکن، جموں و کشمیر سمیت مشرقی پاکستان، سیاچین وغیرہ سب اکھنڈ بھارت کی لپیٹ میں آ گئے اور ہمارا نظریہ پاکستان منہ تکتا رہ گیا، جس کا جواز ہم نے نظریہ اسلام بنا لیا کہ گویا اسلام کی رو سے مسلمان مذہباً علیحدگی پسند ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چہ بوالعجبی است؟

پاکستان میں نظریہ اسلام پر مبنی سیاسی اسلام امریکہ نے تحریک نظام مصطفیٰ سے گرمایا، افواج پاکستان میں جسے عسکری سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ”مرد مومن مرد حق“ سے منواتے ہوئے اس نے بھٹو کو پھانسی دلوانے کے اپنے احکامات کی تعمیل کروائی اور پھر اسی ”حق“ پر استوار افغان جہاد لگوائی جس کی پذیرائی کا چسکا جمتے جمتے آج کل پھر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغانستان میں جماعت الاحرار اور حزب الاحرار تک آ پہنچا ہے۔

اسامہ بن لادن کا یہی ”حق“ ادا کرتے ہوئے جنرل حمید گل، جنرل پاشا کی آئی ایس آئی اس کی موجودگی کا سراغ نہ لگا سکی۔ جب اس ”حق“ پر امریکی چھاپہ پڑا تو پھر کیوں کر مان لیا گیا کہ اسامہ تو ”حق“ کے خلاف تھا؟ سیاسی اسلام کا حق احسان اللہ احسان کے معاملے میں بھی اسی خوگری کو مچانے کا فساد ہے۔ سیاسی اسلام فساد ہے، جو اسلام کے کلمہ حق کے نام پر مفسد سیاست اور من مانے مفادات کی مقبولیت کے لئے رچایا جاتا ہے۔ عمران اور بلاول دونوں پہلے خود یہ طے کریں کہ؛

تقسیم ہند سے بھارتی مسلمان اور پاکستانی مسلمان تقسیم ہوئے تھے یا ان کا اسلام تقسیم ہو کر ادھر ”نظریہ اسلام“ اور ادھر ”غیر نظریہ اسلام“ کی صورت اختیار کر گیا تھا

اسلام نظریہ سازی کا سامان ہے یا مطلق قراری کا ایمان ہے؟

ذاتی کردار پر داغ کی حامل حکمرانی مدینہ ریاست کی داعی ہو تو یہ مدینہ ریاست کی حرمت و تقدیس کی تاریخ کی ترجمانی ہوگی یا اس تاریخ کی توہین اور اسے مسخ کرنے کی نشانی ثابت ہوگی؟

مسلم یا غیر مسلم ہونا بھی ذاتی فعل و امر ہے تو پھر ایسا ذاتی امر مدینہ ریاست کی حکمرانی کے لیے بھی ممنوع ہے کہ نہیں؟

میثاق مدینہ کی رو سے مادر وطن مکہ سے دستبرداری ناحق ہے تو نظریہ پاکستان کی رو سے مادر وطن بھارت سے دست برداری حق بجانب کیوں کر لے لی گئی ہے؟

کیا آپ دونوں ایسے سب سوالوں کے جوابات طے کرنے کے لیے متفق ہو سکتے ہیں کہ نہیں؟

ہاں یا نہ کے جواب کا منتظر۔ ۔ ۔ محمد فاروق

مصنف: ”انسانی تہذیب اور خلافت کا نظام“ ،
”پاک۔ بھارت ونڈت میں ہند جڑت کی بولی“ ،
اور ”سیاسی نظری مغالطوں میں ہندو مسلم ایکا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).