فرانز کافکا


انگریزی سے اردو ترجمہ: محمد فیصل (سرگودھا)
”Children on a Country Road“
By: Franz Kafka

میں نے باغ میں لگی ہوئی باڑ میں سے شور مچاتی اور گرج پیدا کرتی رینگتی ہوئی ویگنوں کو گزرتے ہوئے سنا اور دیکھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات میں نے ان کو سرسبز و شاداب خوبصورت گھاس پر بیل بوٹوں، اور پتیوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیوں پہ جھولتے اور ڈگمگاتے ہوئے بھی دیکھا۔ تپتے ہوئے موسم گرما کی گرمی میں غیر ہموار قدرتی رستوں پہ ڈولتی ڈگمگاتی ہوئی ان ویگنوں کی شافٹیں، کمانیاں، اور پرزے کیسی چرمراہٹ اور کھڑکھڑاہٹ کی آوازیں پیدا کر رہی تھیں۔ مزدور، محنت کش، اور ہاری کسان جو کھیتوں میں اپنے کام نمٹا کے لوٹ رہے تھے یہ منظر گویا ان کے لئے کسی دلچسپ اسکینڈل سے کم نہ تھا۔ وہ دیکھتے اور کھلکھلاتے جا رہے تھے۔

میں اپنے والدین کے باغ میں ٹھنڈے ساۂ دار درختوں کے درمیان لگے ایک چھوٹے جھولے پہ بیٹھا آرام کر رہا تھا۔

باغ کی حفاظتی باڑ کی دوسری طرف منظر بالکل مختلف تھا۔ باڑ کی اس طرف ٹریفک اتنی مصروف اور تیز رفتار کہ ایک اژدھام تھا۔ پہیہ کبھی رکتا نہ تھا۔ دوڑتے بھاگتے بچے ایسی پھرتی سے ایک لمحے میں گزر جاتے کہ پیچھے پیروں کے نشان بھی نہ ملتے۔ کٹائی والی ویگنوں پر فصل کی گٹھڑیاں لادے کسان مرد اور عورتیں سوار تھیں۔ جنہوں نے تیز دھوپ سے بچاؤ کے لئے ان ویگنوں پر چھتریاں لگائی ہوئی تھیں۔ ہری بھری لہلہاتی رنگ برنگی خوبصورت کلیوں اور پھولوں والی فصل کی بدولت پیدا ہونے والا قدرتی حسن کٹائی کے عمل کے باعث ماند پڑنے لگتا ہے۔

شام ڈھل رہی تھی میں نے ایک شریف آدمی کو پیدل چلنے والی چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ لڑکھڑاتے ہوئے آتے دیکھا۔ دو لڑکیوں نے اپنائیت کے ساتھ بازو پھیلا کر اس کا استقبال کیا اور احتراماً گھاس میں ہی ایک طرف ہو گئیں۔

پھر پرندے اڑے اور ایسے کہ جیسے بارش میں اڑتے ہیں۔ میری نظروں نے بے اختیار ان کا پیچھا کیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک ہی جست میں اڑان بھرتے ہوئے کتنی بلندی پہ چلے گئے۔ بلند سے بلند تر پرواز کرتے پرندوں کی پرواز مجھے ایک طرح کے سحر میں مبتلا کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ چند لمحوں کے لئے میں بے خود سا ہو گیا۔ مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے پرندے بلند نہیں ہو رہے بلکہ میں نیچے کو جا رہا ہوں۔ کمزوری کی حالت سے سراسر باہر مجھے توانائی محسوس ہوئی۔ جھولوں کی رسیوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھوڑا سا جھولنے لگا۔ اس صورتحال میں جلد ہی میں مزید تیزی سے جھولنے لگا کیونکہ ہوا کی تازگی اور ٹھنڈک میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اور پرواز کرتے بلند ہوتے پرندوں کی بجائے اب آسمان پہ کپکپاتے اور تھرتھراتے ستارے نمودار ہونے لگے تھے۔

شمعیں روشن ہوئیں اور انہی کی روشنی میں مجھے میرا رات کا کھانا دیا گیا تھا۔ اکثر میرے دونوں بازو لکڑی کے تختے پر ہوتے تھے۔ اور میں اپنی روٹی کا نوالہ توڑنے اور مکھن تک پہنچنے سے پہلے ہی تھک جاتا تھا۔ کھڑکی میں لگے عام سے جالی دار پردے باہر کی طرف گرم ہوا میں لٹک رہے تھے اور اکثر ایسا ہوتا کہ باہر سے گزرنے والے ان کو اپنے ہاتھوں سے روکتے اور ہٹاتے رہتے تھے۔ جیسے کوئی مجھے دیکھنا چاہتا ہو اور مجھ سے بات کرنا چاہتا ہو۔

عام طور پر شمع جلد ہی بجھ جاتی ہے۔ اور آخر میں جلنے والے دھاگے کی صرف جلی ہوئی تھوڑی سی سیاہ راکھ باقی بچتی ہے۔ جس سے ہلکا ہلکا سا باریک دھار کی شکل کا دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔ اس راکھ اور دھوئیں پہ جمع ہونے والے چھوٹے پتنگے کچھ دیر تک اڑتے اور چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی باہر کی طرف والی کھڑکی سے مجھ سے کسی قسم کا سوال پوچھتا تو میں اس کو ایسے گھورتا گویا میں نگاہوں سے دور ایک پہاڑی کو دیکھ رہا ہوں یا پھر زمین کے کسی خالی ٹکڑے کو۔ اور پوچھنے والے کو بھی اس چیز سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے یا نہیں۔ لیکن اس دوران اگر کوئی لپک کر میری کھڑکی کی چوکھٹ پہ آن لگتا ہے اور اعلان کرنے لگے کہ بہت سے لوگ پہلے سے ہی کچھ پوچھنے کے لئے متجسس و منتظر ہیں تو پھر میں ایک دم اٹھ کھڑا ہوتا۔

”تم کس لئے آہیں بھر رہے ہو؟
آخر ایسا کیا ہوا ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟

کیا کچھ ایسا ہولناک اور قیامت خیز واقعہ یا حادثہ پیش آ گیا ہے جس کو کبھی بھی کسی بھی طرح ٹھیک نہیں کیا جا سکتا؟

کیا اس کو اچھے میں بدلا نہیں جا سکتا؟
کیا ہم اس کا ازالہ کر کے کبھی بھی اس کے اثر سے باہر نہیں نکل سکتے؟
کیا سب کچھ ختم ہو گیا ہے؟

کوئی بھی ایسا ویسا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ کچھ بھی کھویا نہیں تھا۔ ہم گھر کے سامنے والے حصے کی طرف بھاگے۔

”خدا کا شکر ہے آخرکار تم آ تو گئے ہو۔“
”تم ہمیشہ دیر سے آتے ہو۔ آخر ایسا کیوں ہے؟“
”کیوں، صرف میں ہی کیوں؟“
”خاص طور پر تم، اگر تم نہیں آنا چاہتے تو گھر پر ہی کیوں نہیں رہتے؟“
”میرا کوئی گھر نہیں!“
”کیا، تمہارا کوئی گھر نہیں ہے؟“
”کیا کہہ رہے ہو، یہ کون سا طریقہ ہے بات کرنے کا؟“

اب ہم مکمل طور پر ڈھلتی ہوئی شام کی تاریکی کی طرف تیزی سے بہنے لگے تھے۔ نہ دن کا وقت تھا اور نہ ہی رات کا کوئی وقت۔ یہ وقت کی کوئی تیسری شکل تھی۔ وقت کے یہ مخصوص لمحات اپنے اندر کئی احساسات لئے ہوئے تھے۔ اب ہماری واسکٹوں کے بٹن ٹھٹھرتے ہوئے دانتوں کی طرح آپس میں ٹکرا کر تڑک تڑک کی آوازیں پیدا کر رہے تھے۔

ایک دوسرے سے مستقل فاصلہ قائم رکھتے ہوئے ہم پھر سے دوڑ رہے تھے۔ منطقہ حارا کے گرم علاقوں کے جنگلی جانوروں کی طرح دوڑتے دوڑتے ہماری سانسیں جیسے آگ پھینک رہی تھیں۔ پرانے زمانوں کی جنگوں میں زرہ بکتر میں سجے جنگجوؤں کی طرح ہم بہت تیز بھاگ رہے تھے۔ زور زور سے پاؤں زمین پر پٹختے اور اتنی ہی قوت سے ہم اوپر کو اٹھتے اور آگے سے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ ہم ایک دوسرے کو پکڑ پکڑ کر سہارا دیتے ہوئے تنگ رستے سے نیچے لے گئے۔

اور ٹانگوں میں قوت اور طاقت بھرپور تھی۔ تنگ رستے سے نکل کر پھر سے مرکزی سڑک پر ہم مزید کچھ دور تک دوڑتے چلے گئے۔ ہم میں سے کچھ جو راہ بھٹک گئے تھے وہ بھاگتے ہوئے ایک کھائی میں جا رکے۔ گہری اندھی خندق میں غائب ہونے ہی والے تھے کہ جب وہ کسی نئے راہی کی مانند پھر سے نمودار ہو کر زمینی رستے کی سطح پہ اپنے منہ نیچے کیے آن کھڑے تھے۔

”چلو نیچے آ جاؤ۔“
”پہلے اوپر تو آؤ۔“
”تو تم لوگ ہمیں نیچے گرانا چاہتے ہو، نہیں آپ کا شکریہ، ہم ایسے بیوقوف نہیں ہیں۔“
”تمہاری باتوں سے لگتا ہے تم خوف زدہ ہو۔ آ بھی جاؤ، بزدل کہیں کے!“
”خوف زدہ؟ جیسے تم خود خوف کھاتے ہو؟“
”تم ہمیں نیچے دھکیلنے جا رہے ہو، کیا تم ایسا ہی کرو گے؟ یہ بہت اچھا کام ہے۔“

ہم نے کوشش کی اور سڑک کے کنارے اس کھائی کے گھاس میں سر اور ایڑیوں کے بل اپنی ہی مرضی سے لڑھکتے چلے گئے۔ ہمیں سب کچھ بغیر کسی فرق کے یکساں طور پر گرم ہی لگ رہا تھا۔ ہم نے گھاس میں نہ تو گرمی محسوس کی اور نہ ہی سردی۔ صرف اور صرف تھکاوٹ ہی کا زور تھا جو ذہن و بدن کے تمام احساسات پر حاوی تھا۔ اس کے علاوہ کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔

حالت ایسی ہو چکی تھی کہ کانوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اگر ہم میں سے کوئی بھی اپنے دائیں پہلو کو لیٹتا تو باآسانی وہیں گہری نیند میں چلا جاتا۔ لیکن ہر ایک دوبارہ سے سر اٹھا کر اٹھنا چاہتا تھا صرف اس لئے کہ وہ مزید کسی گہری کھائی میں کود سکے۔ سب نے کراس بازؤں کا جھٹکا دے کر اور ٹانگوں کو اطراف میں پھینکتے ہوئے دوبارہ ہوا میں اچھلنے کا محض اس لئے سوچا کہ وہ یقینی طور پر کسی مزید گہری خندق میں گر سکیں۔ اور اس عمل کو وہ بار بار دہرانا چاہتے تھے جو کبھی ختم نہ ہو۔

کھائی کی تنگی میں ٹھیک طرح سے لیٹنے اور سستانے کے لئے کوئی بھلا خود کو کیسے دراز کر سکتا تھا، خاص طور پر جہاں بات گھٹنوں کی آ جائے۔ یہ ایک ایسی بات تھی جس کے بارے میں مشکل سے ہی کسی نے سوچا تھا۔ اور مجبوراً پھر ہر ایک کو کمر کے بل ایسے لیٹنا پڑا جیسے وہ سونے کا سلیقہ ہی نہ جانتے ہوں۔ الجھن بھری اس صورتحال نے ان کی مشکل کو اور بھی بڑھا دیا اور ان کی حالت ایسی کہ تکلیف سے ابھی رو پڑیں گے۔ ان میں سے ایک اچانک سے پلکیں جھپکتے سیاہ تلوے کھینچتے ہوئے کسی کے سر کے اوپر سے ایسے اچھلا جیسے کسی جوان نے ابھی ابھی اس کی بکھیوں میں کہنی دے ماری ہو۔ کھائی کی ڈھلوان کو پھلانگتے ہوئے وہ ایک دم کود کر باہر والی گزرگاہ پر آن لگا۔

آسمان پر دمکنے والا روشن چاند پہلے ہی اپنی کافی مسافت طے کر چکا تھا۔ اس کی روشنی میں پاس سے ایک میل کوچ گزر گئی۔ ہر طرف ہلکی ہلکی سی ہوا چلنے لگی۔ یہاں تک کہ خندق کے اندر بھی اس کی ٹھنڈک کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ اور قریبی جنگل میں درختوں کے پتوں میں سرسراہٹ پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ موسم کی اس تازگی سے طبیعت پہ ایک مثبت اثر ہوا اور اب کسی کے اندر بھی تنہائی کی بے چینی باقی نہیں رہی تھی۔

”کہاں ہو تم؟“
”یہاں آؤ!“
”سب آ جاؤ!“
”تم کس لئے چھپا رہے ہو، چھوڑ دو اپنی یہ بکواس اور بیوقوفانہ پن!“
”کیا تم نہیں جانتے کہ میل پہلے ہی جا چکی ہے؟“
”کیا وہ پہلے نہیں گزر گئی؟“
”بالکل؛ جب تم سو رہے تھے تو وہ گزر گئی۔“
”میں سو نہیں رہا تھا۔ واہ بھئی، کیا خوب اندازہ لگایا ہے تم نے!“
”اؤ چپ ہو جاؤ، بکواس بند کرو، تم ابھی بھی آدھے سوئے ہوئے ہو۔“
”لیکن میں سویا ہوا نہیں تھا۔“
”چل ابے، بس کر دے!“

ہم اور بھی قریب ہو کر ایک جتھے کی شکل میں بھاگے۔ اکثر نے تو ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے رکھے تھے۔ کسی کا بھی سر نمایاں نہ تھا کیوں کہ کوئی بھی سر کو زیادہ اٹھا کر نہیں بھاگ رہا تھا۔ اور یہ اس لئے بھی تھا کہ یہاں سے آگے کا راستہ ڈھلانی اور اترائی والا تھا۔ کسی نے زور سے ہندوستانی جنگ والا نعرہ بلند کر دیا۔ بدنوں میں ایک نیا جذبہ اور طاقت سی بھر گئی۔ اب ہماری ٹانگیں ایسی تیزی اور چستی کے ساتھ ہمیں دوڑا رہی تھیں کہ پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔

ہوا نے ہمارے کولہوں کو اٹھانا شروع کر دیا اور ہم آگے ہی آگے خودکار طور پر اچھلتے چلے جا رہے تھے۔ اس رفتار میں کوئی بھی ہمیں جانچ نہ سکا۔ ہم اس قدر قدم بہ قدم ساتھ تھے کہ راستے میں آنے والوں کو پیچھے چھوڑتے وقت ہم اپنے بازؤوں کو اگر سمیٹ بھی لیتے تو پھر بھی درمیانی فاصلہ کچھ زیادہ نہ بڑھتا۔ اور ایک دوسرے کو باآسانی اپنے آس پاس دیکھ سکتے تھے۔

راستے میں ایک ندی کے پل پہ ہم نے کچھ دیر پڑاؤ کیا۔ جنہوں نے گنجائش سے زیادہ بھاگ لیا تھا انہوں نے اپنی پھولی اور اکھڑی ہوئی سانسیں پھر سے بحال کیں۔ پل کے نیچے ندی کی آغوش میں پتھروں اور لمبی جڑوں کے ساتھ لپٹتا اور مس کرتا بہتا ہوا پانی ایسا منظر پیش کر رہا تھا کہ احساس ہی نہ ہوا کہ شام ڈھل چکی تھی۔ ہم اس منظر کی دلفریبی میں اس قدر مسحور ہوئے کہ کوئی وجہ نہ تھی جس کی بنا پہ ہم اس منظر کا مزید قریب سے نظارہ کرنے کے لئے پل کی نچلی دیوار پہ چھلانگ نہ لگاتے۔

عقب میں کچھ فاصلے پر درختوں کے جھنڈ میں سے ایک ریل گاڑی گزری۔ تمام بوگیوں کی بتیاں جل رہی تھیں۔ اتفاقاً کھڑکیوں کے شیشے نیچے کیے ہوئے تھے۔ ہم میں سے ایک نے ایک مشہور کیچ گانا شروع کر دیا۔ لیکن ہمیں لگا جیسے ہم سب گانا گا رہے تھے۔ ہم نے ریل گاڑی کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ اونچا گانا شروع کر دیا۔ ہم نے اپنے ہاتھ بھی لہرائے کیونکہ ریل کے شور میں ہماری آواز مدھم پڑ رہی تھی۔ ہماری آوازیں ایک ساتھ اکٹھی ہو کر ریل گاڑی کے بھاری اور دھمک دار شور کے ساتھ ٹکرانے لگیں اور ہم اس میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ کوئی بھی جب گانا گانے والوں کے ساتھ مل کر گانے میں شامل ہو جائے تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے وہ مچھلیوں کی طرح پھندے کی طرف کھچا چلا جائے۔

پس ہم نے اپنے پیچھے کی طرف کچھ فاصلے پر جنگل کی گزرگاہوں سے گزرنے والے مسافروں کے لئے گانا گایا۔ گاؤں میں بڑی عمر کے لوگ ابھی تک جاگ رہے تھے۔ مائیں رات کو سونے کے لئے گھروں میں بستر تیار کر رہی تھیں۔

ہمارا وقت اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ میں نے اپنے ساتھ والے کو بوسہ دیا۔ اپنے قریب موجود تین ساتھیوں تک ہاتھ بڑھایا۔ اور گھر کی طرف بھاگنے لگا۔ کسی نے بھی مجھے واپس مڑنے کے لئے آواز نہ دی۔ دوڑتے ہوئے میں پہلے چوراہے پر پہنچا جہاں سے اب وہ مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میں مڑا اور سرسبز کھیت کے راستوں سے ہوتا ہوا پھر سے جنگل کی طرف بھاگنے لگا۔ میں جنوب کی سمت میں واقع اس شہر کی تلاش میں تھا جس کے متعلق ہمارے گاؤں میں مشہور تھا کہ ”وہاں تمہیں عجیب قسم کے لوگ ملیں گے! ذرا سوچو، وہ کبھی بھی نہیں سوتے۔“

”اور وہ کیوں نہیں سوتے؟“
”کیونکہ وہ کبھی بھی تھکتے نہیں۔“
”اور وہ تھکتے کیوں نہیں؟“
”کیونکہ وہ بیوقوف ہیں۔“
”کیا بیوقوف نہیں تھکتے؟“
”بیوقوف بھلا کیسے تھک سکتے ہیں!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).