جندر: اختر ر ضا سلیمی کا ناول


ناول ”جندر“ ازل سے ابد تک کی کہانی ہے، جس کی ابتدا اس روز ہو چکی تھی، جب حضرت آدم علیہ السلام نے گندم کا پہلا دانہ چبایا تھا۔ یہ کہانی رو زمین پر انسان کے قدم دھرتے ہی شروع ہوئی اور روز قیامت صور پھونکے جاتے تک چلتی رہے گی۔ گندم کا پہلا دانہ کھا کر انسان نے اپنے وجود کو چکی کے دو پاٹوں بیج دے کر اپنی روح کو تار تار اور اپنے جسم پر موجود گوشت کو ریشہ ریشہ کر دیا تھا۔ یہ کہانی اندھیری راہوں سے نکل کر روشنی کے میناروں کی طرف اسی وقت دوڈنے لگی تھی جب حضرت انسان نے پہلی بار پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے کسی پتھر پر چند دانے دھر کر اس پر دوسرا پتھر مارا تھا۔ یقیناً وہ پہلی چوٹ احسن انداز میں نہ مار سکا ہوگا۔ وہ دانے جو اس کی غلط چوٹ سے بکھرے تو ایسے بکھرے کہ آج تک انسان ان دانوں کی تلاش میں سرگردہ ہے۔

پتھروں کی اس پہلی اور غلط لگائی چوٹ سے جو شعلہ لپکا تھا وہی انسان کی رہنمائی کرتا اسے اس مقام تک لے آیا جہاں ”ولی خان“ آج اپنے جندر میں اکیلا لیٹا، موت کا انتظار کر رہا ہے۔ اسی شعلے، اسی پتھر کی رگڑ کی آواز اور دوبارہ کوشش سے پسے اناج سے زندگی موت، روشنی تاریکی، مفلسی اور آسودگی غرض کے دنیا کے ہر امور کی ابتدا ہوئی جو اس کے بیٹے کی لگوائی مشینی چکی، گاؤں میں داخل ہوئے ٹریکٹر اور تھریشر تک پہنچ کر احساسات، آپسی میل جول، مہر و محبت کو کھا گئی۔

اختر رضا سلیمی نے اس پتھر کی چوٹ کی آواز کو ایسا محسوس کیا کہ اس کے گرد ایک لازوال کہانی کو بڑی خوبصورتی سے بن دیا۔

یہ کہانی ”اختر رضا سلیمی نے اپنے ہیرو واحد متطلم“ ولی خان ”کی زبانی ہم تک پہنچائی جو جان بہ لب ہونے کے باوجود اپنے بیٹے، گاؤں والوں، دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کو اپنی فوتگی سے ہونے والی تکالیف کا سوچ کر پریشان ہے۔ ولی خان جس نے اپنے باپ دادا کی میراث اس“ جندر ”کو کبھی بے چونگ چلتے نہ دیکھا، نہ سنا، اب ان پاٹوں کا بے مقصد گھومنا اک ہوک کی طرح اس کی روح کو گھائل کر رہا ہے۔

وہ کئی دنوں سے نہ سو اور نہ کچھ کھا پایا ہے اس کا اور اس کے جندر کا کئی روز سے صرف پانی پر گزارہ ہے۔ پتھر رگڑ کھا کھا کر کھس رہا ہے اس کی بدبو ولی خان کو بے چین کر رہی ہے مگر وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ کیونکہ وہ ”اپنی زندگی کی آخری چونک پیس چکا۔“

یہ عام سادہ زبان میں بیان کی گئی داستانی طرز کی کہانی ہے مگر اپنے اندر بہت سے پوشیدہ راز لیے خلیفہ خدا کے معاشرتی برتاؤ کی پرتین کھول رہی ہے۔

انسان جندر کے پاٹوں کے درمیاں گھن کی طرح تا عمر پستا رہتا ہے۔ کبھی باپ دادا کی کہانیاں، ان کے کارنامے سینہ تان کر سناتا ہے تو کبھی پرنم انکھوں سے، سر جھکا کر شرمسار، دل گرفتہ اپنے خمیر میں بسے عیوب کی وجہ سے بیوی، بیٹے اور معاشرے کے دیگر افراد کو باوجود کوشش اور چاہنے کے ان کا حق نہ دے سکنے کی کہانی بیان کرتا ہے۔

جہاں یہ ناول زندگی کے دیگر مسائل کی طرف اشارہ کرتا محسوس ہوتا ہے وہیں یہ کہانی مجھے نسلوں کے درمیاں بڑھتے فاصلوں کی کہانی بھی لگا جیسے ماڈرن دنیا ”جنریشن گیپ“ کا نام دیتی ہے۔ باپ ساری زندگی خود کو مار کر جس اولاد کو جوان اور عزت کی روزگار کمانے کے لائق بناتا ہے وہی اس کے بوسیدہ کپڑوں، تعلیمی قابلیت، پرانی سوچوں اور اپنے اسلاف کی نشانیوں سے جڑے رہنے کی بدولت باعث توہین سمجھ کر اپنے تہی اس کا بہتر حل نکالنے کی کوشش کرتا ہے وہ نادان یہ نہیں سمجھ پاتا کہ انسان انسانوں کے بنا گر نہیں رہ سکتا تو اپنے اردگرد پھیلے قدرتی نظاروں، جھیلوں، دریاوں، چشموں، پہاڑوں اور یادوں کے بنا کیسے جی سکتا ہے؟

اس ”جندر“ کے دو پاٹ ہم ہیں۔ اک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے زندگی گزار دیتے ہیں مگر اک دوسرے کے سینے سے لگنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں اک دوجے کو کھسا نہ دیں۔ کہیں ایک دوسرے کو نیست و نابود نہ کر دیں۔ ہماری رگڑ سے اٹھا دھواں کائنات میں پھیل کر سورج کی روشنی کو دیگر جانداروں سے چھپا نہ لے۔ آپسی ہوس، لالچ اور منافقت کی بدبو سے ہم دیگر سانس لیتی چیزوں کا دم نہ گھونٹ دیں۔

اختر رضا سلیمی نے اس کرب کو محسوس کیا پھر اسے الفاظ و جذبات کی ایسی خوبصورت پوشاک پہنائی جو ہر قاری کو نہ صرف بھا رہی ہے بلکہ وہ اس پوشاک کے دامن میں اپنے سب غم، سب مشکلات ڈال کر مرنے سے قبل اک پرسکون نیند لینا چاہتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگوں نے زندگی میں کبھی نہ کبھی یہ محسوس کیا ہو گا کہ انسان کی زندگی پر آوازوں کا کتنا اثر ہوتا ہے، مگر شاید ہی کوئی اس جذبے کو قرطاس پر اس خوبصورتی سے پکھیر پایا ہو جیسا کہ اختر رضا سلیمی نے کیا۔

چند سال قبل میری شنید میں آیا کہ بلوچستان کے ایک کیڈٹ کالج میں گوادر کے دو بلوچ طلبا شدید بیمار ہو گے۔ وہ داخلہ ہونے کے بعد سے ایک رات بھی پرسکون نیند نہ لینے، ساری ساری جاگنے اور بے خوابی کی بدولت کھانا پینا، ہنسنا کھیلا اور مسکرانا بھول گئے تھے۔ بورڈنگ سکولز میں اکثر بچے ”ہوم سیکنس“ کا شکار ہو جاتے ہیں تو اساتذہ و دیگر طلبا نے ان کی اس اداسی کو سنجیدہ نہ لیا، نیجتاً وہ بچے شدید بیمار اور نیم پاگل سے ہو گے۔ جب انھیں کوئٹہ علاج کو لایا گیا تو ڈاکٹرز نے بیماری کی ہسٹری لی تب یہ آشکار ہوا کہ گوادر میں ان کا گھر سمندر کے بالکل قریب ہے وہ ساری ساری رات سمندر کے ساحل پر سر پٹخنے کی آواز سننے کے عادی ہیں جس کے بنا انھیں نیند نہیں آتی۔ ۔ ۔ مجبوراً کالج نے انھیں واپس ان کے گاؤں بھیج دیا۔

ریلوے کالونی کے اکثر رہائشی ریل کی آواز انجن کی وسل کے بنا پرسکون نیند نہیں سو پاتے۔ میرے ایک دوست جو باوجہ ملازمت پدر ریلوے کالونی میں زندگی بھر رہے، انھوں نے کوئٹہ کے پوش علاقے میں دو کنال کی کوٹھی بنائی مگر ان کے والد ٹرین کی آواز اور انجن کی وسل نہ سن پانے کی وجہ سے بیمار پڑ گے۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ ”شہرمیں جہاں تک انجن کی وسل سنائی دے آپ وہاں رہیں تا کہ ان کی طبیعت بہتر ہو۔ پھر وہ بھی دوبارہ ریلوئے کالونی کے قریب آ بسے، مجھے امید ہے وہ طالبعلم اور وہ بزرگ وہاں پہنچ کر ایسے ہی مست سوئے ہو گے جیسے“ ولی خان ”اپنے ٹال، اپنے گھر سے بھاگ کر جندر پر آکر سویا تھا۔

ایسے کئی واقعات آپ سب کو معلوم ہوں گے، مگر اختر رضا سلیمی نے اس کیفیت کو کس خوبصورتی سے ناول میں بیان کیا ہے اس پر وہ داد کے مستحق ہے۔

”جندر“ مختلف ادوار کی کہانی ہے جب ”مردم مردم کا درمان تھا“ جب انسان انسان سے رابطہ رکھتا، ان کے ساتھ دکھ درد، غمی خوشی، زند و مرگ میں شریک ہوتا جب نوزور، بسنت، بساکی اور ہولی مل جل کر منائی جاتی جب کسی ایک کا دکھ سارے گاؤں کا دکھ اور ایک کی خوشی سارے گاؤں کی خوشی ہوتی تھی۔

” جندر“ اک ایسا جادو ہے جس کا اثر ہر عمر کے انسان پر الگ انداز سے ہوتا ہے۔ میں نے شام کو ناول کی قرآت شروع کی اور ایک ہی نشست میں رات کے پچھلے پہر ختم کرکے سویا پھر ساری رات میں خوابوں میں جندر کے آس پاس گھومتا رہا۔ میں نے ڈاک ٹیلے سے دی کہیں آوازیں سننی، میں نے بکری کو رسی سے پھانسی لگتے اور مچھلی کو بے آب تڑپے دیکھا۔ میں نے کھارے میں چونگ انڈیلے کی آواز سنی، میں نے ولی خان کو کیل اوپر نیچے کر کے پانی کے بہاؤ اور پاٹوں کی رفتار کو کنٹرول کرتے دیکھا۔ میں ساری رات بلکہ صبح فجر تک اس کے سحر میں مبتلا رہا کیونکہ میری عمر ابھی پچاس سے چند سال کم ہے۔

جی! آپ دوستوں کو ضرور حیرت ہوئی ہو گی کہ عمر کا ناول کے سحر سے کیا تعلق؟ تو میرے دوست

” جندر“ ایک ایسا گیت، سنگیت اور ساز ہے جو ہر عمرکے انسان کو ایک الگ نغمہ حیات سناتا ہے۔ اسے پڑھنے والا اگر نوجوان ہے تو اسے ولی خان کے بیٹے کے کردار سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ جلد از جلد اپنے گاؤں واپس جا کر والد والدہ کے قدموں پر سر رکھنے کو بے تاب ہوگا، وہ اپنا مال و زر لگا کر کسی مسجد کے خادم کے ہاتھوں اپنے والد کی موت کا سامان نہیں کرے گا اوراگر وہ مجھ جیسا چالیس پیتالیس سالہ قاری ہے تو وہ شریک حیات کے ساتھ ساری عمر روا رکھے سلوک، چیزوں، آوازوں اور یادوں کا قیدی بن کر اپنے پیاروں کو کھونے سے بچ جائے گا۔

ہاں! یہ ناول جہاں مثبت پیغامات دیتا ہے وہیں

” جندر“ ساٹھ سال سے ذائد کے قارئین کے لیے مایوسی، ناکامی اور موت کا سامان بھی ہو سکتا ہے۔ یہ انھیں اپنے ٹرانس میں لے کر ساری ساری رات چارپائی پر موت کے انتظار کا کرب اور پھر بعد از موت ہونے والے واقعات، چونٹیوں، لال بیگ اور بجو کا خوف طاری کر کے بے وقت موت سے ہم کنار بھی کر سکتا ہے۔ یہ ان بوڑھے والدین، جن کی اولاد بسلسلہ روزگار دیگر شہروں یا ملکوں میں آباد ہے، موت سے پہلے موت کا کرب محسوس کروا سکتا ہے۔ ان کی آنکھیں میں برسوں سے تھمی جدائی اور غموں کی برسات کو برستے کی دعوت دے سکتا ہے، ان کی راتیں بے سکون اور ان کے حوصلے توڑ کر ان کے تکیے آنسو سے بھگو سکتا ہے۔ تو میرے خیال میں ”جندر“ ایسے لوگوں کی پہنچ سے دور رہے تو بہتر ہے۔

ماسوائے رب کریم اور اس کے انبیاء کے کوئی انسان مکمل نہیں، میرا نکتہ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ ہر تحریر کو اس کی اچھائیوں اور برائیوں کو سامنے رکھ کر پرکھا جائے۔ اگر کسی تحریر، کسی تخلیق کی صرف تعریفیں ہی کی جائیں تو یہ ادیب اور اس کی تخلیق کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ انسان عقل کل نہیں بعض مرتبہ ادیب اپنی تحریر، جس پیراگراف کو سب سے اچھا سمجھتا ہے قاری کو وہیں بوجھل، بد مزہ اور بور لگتاہے۔ ادیب چونکہ اپنی تحریروں، اپنے کرداروں کے ساتھ جی رہا ہوتا ہے تو بعض چیزیں وہ محسوس کرتا تو ہے مگر قاری تک ان جذبات کی ترسیل اس کی روح کے مطابق نہیں کر پایا جیسے کوئی لکھت اپنی تحریر کی پروف ریڈنگ احسن انداز میں خود نہیں کر سکتا کیونکہ کہانی اس کے دماغ پر طاری ہوتی ہے، آنکھیں وہی دیکھتی ہیں جو دماغ بول رہا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ مگر انگلیاں غلط کر چکی ہوتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی تخلیق کار اپنے ناول میں کئی چیزوں کو بنا تحریر کیے یہ گمان کر لیتا ہے کہ قاری سمجھ گیا ہو گا مگر سب قاری دانش مند نہیں ہوتے چند اک مجھ جیسے کم فہم اور کوڑھ مغز بھی ہوتے ہیں تو ان کے لیے آپ کو چیزیں ذرا کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اختر رضا سلیمی صاحب سے ایڈونس معافی کے بعد عرض ہے کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ”جندر“ میں درج ذیل چند واقعات ذرا تفصیل کے متلاشی تھے۔ ہو سکتا ہے میں بالکل غلط ہوں مگر ایسا محسوس ہوا تو لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

ولی خان کے دادا غریب تو تھے، یہ ان کا حلیہ بتاتا ہے، مگر وہ کم نسل یا اچھوت نہ تھے جس کی وجہ سے انھیں باہر سب سے الگ بٹھا کر کھانا دیا گیا۔ شاہ ولی اللہ کی سکھوں کے ساتھ جنگ کا ذکر ہے مگر کیا وہ مسلمان آبادی انھیں راجہ کے ڈر سے کمی یا کمتر سمجتی تھی؟ جو کہ ممکن نہیں کیونکہ اس دور میں تو درکنار آج کا مسلمان بھی ان کے خاندان کو عزت دار اور معزز سمجھتا ہے۔ تو اچھا ہوتا اگر ایک پیراگراف راجہ کی اس حرکت یا نفرت کو مجھ جیسے کم فہم قاری کے سمجھنے کو مزید لکھا جاتا۔

ولی خان کے دونوں پردادا جو انتہائی بھاری پاٹ، جسے پانچ سات آدمی بامشکل اٹھا کر لائے تھے اسے واپس ایک رات میں چھوڑ آئے۔ چلیں مان لیا۔ تو پھر ایک میل اسی پاٹ کو لے جانے سے قبل ادھار میں مائی ہاجرہ سے اصیل مرغے تل کر کھانا اور دیسی گھی لے کر پینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا پہلا والا پاٹ بھی انھوں نے دو چار مرغے کھائے اور دیسی گھی پینے کے بعد پہنچایا تھا؟ یقیناً نہیں، کیونکہ تخلیق کار نے اس رات ان کی بے چینی اور انتقامی جذبے کا ذکر کر کے اسے ایک جذباتی قدم دکھایا ہے۔

اگر وہ جذبات میں پتھر اٹھا سکتے ہیں تو پھر اصیل مرغے کھانے اور دیسی گھی پینے کی ضرورت نہ تھی، یہاں لفظ ”ادھار“ یہ بناتا ہے کہ ان کی معاشی حالت بھی ایسی نہ تھی کہ ہر روز اچھی خوراک کھا سکتے جو طاقت کے لیے ضروری ہے۔ ہاں اگر چند صفحات اس واقعے سے پہلے ان کی طاقت اور اچھی خوراک بارے لکھے جاتے تو قاری کو بہتر محسوس ہوتا۔ کیونکہ ایک دن کسی مشقت طلب کام سے چند گھنٹے قبل کھائے مرغ اور پیا گھی باعث طاقت نہیں ہو سکا۔

ولی خان جو تین سال کی عمر میں جندر پر آباد ہوا جس کی وجہ سے وہ ساری عمر جندر کی آواز کا قیدی رہا۔ وہیں ولی خان اپنی زوجہ کو بچپن میں کندھے کر بٹھا کر جندر بھی لایا کرتا تھا جو اس سے کم و پیش بارہ سال چھوٹی ہے۔ پھر وہ بچی وہی آنے جاتے جوان ہوئی، بابا جمال دین کو ضحیم ناول پڑھ کر سناتی ہے، چند ایک گھرکے کام بھی کرتی ہے۔ چھوٹے بچے اکثر کہیں جائیں تو وہی سو بھی جایا کرتے ہیں لازماً وہ بچی وہاں سوتی بھی رہی ہو گی پھر وہ کیونکر پانی کی آواز، آٹے کی دھول، پاٹوں کی ہوک کی عادی ہونے کے بجائے بیزار ہو جاتی ہے؟

صفحے نمبر 79 پر ولی خان دوسرے کمرے کی چنوائی کو چونگ لائے شخص کے ساتھ بے ایمانی کرنے کو کیل اٹھا کر جندر کی رفتار بڑھا دیتا ہے جس سے آٹا موٹا مگر زیادہ پسنے لگتا ہے اور وہ اپنا حصہ وصول کر کے گاہک کے جاتے ہی اسے دوبارہ پیس کر بہتر کر لیتا ہے۔ ۔ ۔ بابا جمال دین جیسے بزرگ کی کہانیاں سن کر، ان کی تربیت میں جوان ہوئے نمازی شخص سے اچانک ایسی بے ایمانی ہونا ذرا اچنبھے والی بات ہے۔ چند سطور میں اس سے قبل اس کا ایسا سوچنا یا ارادے کا ذکر قاری کو ذہنی طور پر اس بات کو ہضم کرنے کو تیار کر سکتا تھا۔

بیٹے کا باپ کا جندوری ہونے پر ندامت کا احساس۔ کیا جندوری پنجاب یا ہزارہ میں کمی کمین یا نیچ لوگوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے یا وہ کم نسل تصور ہوتے ہیں۔ جیسے نانی، مراثی، دھوبی، موچی، تیلی یا چمار سمجھے جاتے ہیں؟ میرے ناقص علم کے مطابق تو جندوری ہر قوم قبیلے کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ بعض علاقوں میں انھیں اچھا مالداراور عزت دار سمجھا جاتا تھا۔ ویسے بھی ولی خان کے آبا و اجداد نے یہ جندر ایک راجہ سے اپنی طاقت و بہادری کے عوض حاصل کیا تھا نہ کہ کسی ایسے فعل کی بدولت جو باعث شرم ہو۔ پھر ان کی بہادری کی کہانی زبان زد عام بھی تھی۔

پھر اس کے بیٹے کا اپنے والد اور جندر کو لے کر احساس کمتری کا شکار ہونا مجھ بے عقل کو سمجھ نہ آسکا۔

نثر کے اکثر اساتذہ یہ نصحیت کرتے ہیں کہ کرداروں کو مار کر قاری کی ہمدردیاں اور جذبات سے کھیلنا اور یوں اپنی تحریر ان پر طاری کرنا مناسب نہیں۔ دوست اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، میری اپنی اکثر تحریروں میں کرداروں کو مرتے دکھایا گیا ہے۔ مگر اختر رضا سلیمی جیسے اچھے لکھاری اور مجھے نا چیز کا موازنہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ اس ایک سو اٹھارہ صفحات کے ناول میں ولی خان مر رہا ہے۔ موت اور اس کے بعد کی پوری منظرکشی کی گئی ہے، پھر اس کی ماں، اس کی پہلی ہچکی کے ساتھ فوت ہوتی ہے۔

پھر وہ اپنے والد کی ندی میں پڑی خون الود لاش دیکھتا ہے۔ اس کی بیوی فوت ہوتی ہے، پھر اس کا ماموں فوت ہوتا ہے جس کی قبر کوئی نہیں کھودتا، یہاں تک کہ بکری بھی اذیت ناک موت سے ہمکنار ہوتی ہے۔ یہ تمام اموات ستر سالہ دور اور ایک سو اٹھارہ صفحات میں ہوئیں۔ ہاں اگر سو دو سو سال کا عرصہ اور ڈھائی چار سو صفحات ہوتے تو شاید مجھ جیسے احساس انسان کو یہ اتنی شدت سے محسوس نہ ہوتا۔

مجھ نا سمجھ کو بابا جمال دین کا بستر مرگ سے اٹھ کر جندر تک آنا، ولی خان کا انھیں ہاتھ سے پکڑ کر چارپائی پر بٹھانا، قحط کے دنوں میں رات ڈھائی من چونگ اٹھائے شخص کا آنا اور پھرچونگ اور اس بزرگ کا غائب ہونا بھی سمجھ نہ آسکا۔ یقیناً کوئی دوست رہنمائی کرے گا۔

آواز دینے کو استعمال ہوتے ٹیلے کو ”ڈاک ٹیلہ“ کہنا بھی عجیب لگا کیونکہ آواز دینے کی مناسبت سے اگر اسے ٹیلی فون سے کسی صوتی مشین سے تشبیہ دی جاتی تو مناسب لگتا کیونکہ ڈاک کی تشبیہ کسی چیز کا کسی کے فزیکلی حوالے کرنا ظاہر ہوتا ہے۔

میرا ان تمام باتوں کا مقصد کوئی تنقید نہیں، بلکہ دوستوں کی اس بارے راے جاننا چاہتا ہوں۔ خدانخواستہ میں محترم ناول نگار سے کسی قسم کی وضاحت نہیں چاہتا اور نہ ان کی قابلیت پر سوال اٹھاتا ہوں۔ مجھے اپنی ذہنی سطح اپنی علمی قابلیت اور فہم فراست کا بخوبی اندازہ ہے تو سمجھنے کی نیت سے جو واقعات مجھے عجیب لگے سو پوچھ لیے۔ ان سب باتوں کے باوجود میں اوپر کی گئی تعریف کے ایک ایک حرف پر قائم ہوں۔

یہ ناول اک لازوال ناول ہے، یہ نئے لکھنے والوں کو کرداروں کو بے وجہ پھیلا کر لکھنے کے بجائے با مقصد تحریر کی طرف لے کر آئے گا۔ ناول کا پلاٹ بے حد جاندار اور زندہ ہے۔ یہ سانس لیتا ہے اور قاری اس کے لمس کو محسوس کر سکتا ہے۔ بے شک یہ ازل سے ابد کی کہانی ہے۔

میری ادبی زندگی بامشکل چند سال ہے میری تعلیم، میری قابلیت اتنی نہیں کہ زند گی و مرگ کا یہ فلسفہ سمجھ سکوں۔ میری کوئی اوقات نہیں کہ محترم اختر رضا سلیمی اور جندر جیسے لازوال ناول پر کچھ تحریر کر سکوں۔ بس میں نے ناول پڑھا جیسا مجھے محسوس ہوا اور مجھ پر جو کیفیت طاری رہی اس کے زیر اثر اگلی ہی رات ایک ہی نشست میں جو سمجھ آیا لکھ دیا۔ امید ہے اختر بھائی درگزر سے کام لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).