پاکستان کے نجی تعلیمی ادارے اور بھارتی فلم چاک اینڈ ڈسٹر


چاک اینڈ ڈسٹر 15 جنوری 2016 ء کو منظر عام پر آنے والی انڈین آرٹ فلم ہے جس کا موضوع نجی تعلیمی اداروں کی کمرشلائزیشن ہے۔ کہنے کو یہ کہانی ہندوستانی تعلیمی اداروں کی ہے جہاں اساتذہ کا استحصال انتہائی مہارت سے کیا جا رہا ہے اور نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ ملازمت کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔ فلم کی ابتدا ایک سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب کی تیاری سے ہوتی ہے۔ جس میں مختلف اساتذہ کو مختلف پروگراموں کی تیاری کی ڈیوٹی دی جاتی ہے۔

ایک خاتون استاد بچوں کو موسیقی اور رقص کی تربیت دیتی ہیں۔ دوسری استاد بچوں کو مصوری سکھاتی ہیں۔ اس تقریب میں پیش کیے جانے والے مختلف پروگرام، ٹیبلو، اسکٹس، کمپیئرنگ کی تیاری اساتذہ دن رات ایک کر کے کرواتے ہیں۔ مگر اسکول کی وائس پرنسپل ہر چیز میں نقص نکالتی ہیں۔ اور تقریب کے آخر میں ٹرسٹی کے چیئر مین اساتذہ کے بجائے وائس پرنسپل کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وائس پرنسپل کی محنت کی وجہ سے آج کی یہ تقریب اس قدر کامیاب رہی۔

چھ ماہ بعد وائس پرنسپل ٹرسٹی کے ممبران کو اسکول کو اس شہر کے اعلی اسکول بنانے کا خواب دکھا کر اس اسکول کی پرنسپل بن جاتی ہیں۔ پھر اس حکمت عملی پر کام ہوتا ہے کہ عمر رسیدہ اساتذہ پر کام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈال کر انھیں کس طرح نکالا جائے۔ سینیئر اساتذہ کی تنخوا ہ جونیئر سے تین گناہ زیادہ ہوتی ہے۔ وائس پرنسپل کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس تنخواہ میں ایک کی جگہ تین نئے استاد رکھے جا سکتے ہیں۔ کمرہ جماعت سے اساتذہ کی کرسیاں ہٹا دی جاتی ہیں۔

ان پر غیر حاضر اساتذہ کی کلاسوں کا اضافی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ پھر مارننگ ڈیوٹی، بریک ڈیوٹی، اور آف ٹائم ڈیوٹی کے نام پر ان کو مصروف رکھاجاتا ہے۔ جب وہ اساتذہ کام کے بوجھ سے بیمار پڑنے لگتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ اب وہ کام نہیں کر سکتے اس لیے گھر بیٹھ جائیں۔ ہندی کے بہترین عمر رسیدہ استاد کو ہندی کے بجائے پی ٹی کی کلاس دے دی جاتی ہے۔ اور ان کا جسم پی ٹی پیریڈ کی مشقت برداشت نہیں کرپاتا اور وہ مجبور ہوکر نوکری چھوڑ دیتے ہیں۔

صبح ایک سیکینڈ لیٹ ہونے پر اساتذہ کی غیرحاضری اور تین دن لیٹ ہونے پر ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ اساتذہ کے بچے جو پہلے فری میں پڑھتے تھے ان کو فیس واوچر ملنے لگتے ہیں۔ چائے جو پہلے اسکول کی طرف سے اساتذہ کو ملتی تھی بند ہوجاتی ہے اور اساتذہ کو چائے خرید کر پینی پڑتی ہے۔ حساب کی ایک سینیئر استاد بخار کی حالت میں کلاس میں لیکچر دینے کے بعد طلبہ کو کچھ سوالات دے کر ایک طالب علم کی خالی سیٹ پر بیٹھ جاتی ہیں، تو ان پر کلاس میں سونے کا الزام لگ جاتا ہے۔

اور پرنسپل حساب کی استاد پر غصہ اتار کر، فارمولے مٹا کر ایک نالائق بچے سے کہتی ہے کہ وہ بورڈ پر لکھے ہوئے فارمولے کو دوبارہ سمجھائے۔ بچے کو استاد کے کہانی سنانے والے انداز کی وجہ سے فارمولا یاد رہ جاتا ہے اور وہ بالکل ٹھیک جواب دے دیتا ہے۔ پرنسپل کو اور زیادہ غصہ آ جاتا ہے اور وہ حساب کی استاد کو ٹرمینیشن لیٹر دے دیتی ہیں۔ حساب کی استاد معاشی مجبوریوں کی وجہ سے نوکری کر رہی ہوتی ہیں انھیں دل کا دورہ پڑجاتا ہے۔ وہ ہسپتال پہنچ جاتی ہیں جہاں ان کے علاج کے لیے روپوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔ ۔

اس کے بعد بھی آگے طویل کہانی ہے۔ یہاں اس فلم کی کہانی زیر بحث لانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے نجی تعلیمی اداروں کی بھی یہ ہی صورتحال ہے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ ان اداروں میں کام کا اس قدر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ استاد کی تخلیقی صلاحیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایک ادارے میں تو گرمیوں کی چھٹی میں بھی ٹیچرز ٹریننگ ورکشاپ کے نام پر اساتذہ کو مسلسل بلا یا جاتا ہے۔ اور اساتذہ ورکشاپ سے فارغ ہونے کے بعد بھی اسکول میں وقت گزارنے کے پابند ہیں وہ چھٹی کے وقت سے قبل گھر واپس نہیں جا سکتے۔

وہ ان اداروں میں غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں۔ زیادہ بولنے والے اساتذہ کی ترقی نہیں ہوتی اور انکریمینٹ نہیں لگتا۔ اگر کسی کلاس کا رزلٹ اچھا نہ آئے تواس مضمون کے استاد کی نوکری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ غرض اس شہر میں بے شمار نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں جو بات بات پر ان کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں۔ اے سی آر خراب کردیتے ہیں۔ انکریمینٹ نہیں لگنے دیتے۔ اور ان کی مزید تعلیمی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ نئی شادی شدہ خواتین اساتذہ پر یہ پریشر بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی فیملی میں اضافہ نہ کریں۔

میٹرنٹی لیو کے بجائے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ پورے سال کی چھٹی لے کر گھر بیٹھ جائیں۔ تاکہ وہ تعلیمی ادارے نئے تعلیمی سال کے لیے کسی دوسری استاد کو ہائر کر لیں۔ بیسٹ ٹیچر کا ایوارڈ قابلیت پر نہیں بلکہ حسن نسوانی پر ملتا ہے۔ نہ جانے یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی؟ ان تعلیمی اداروں کے ٹرسٹیز، حکومت اور، سماجی تنظیموں کو ان اساتذہ کے مسائل کو زیر غور لا کر ان کے حل کی کوشش کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).