افغان طالبان کا وفد پاکستان کیوں آیا؟


قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کا ایک وفد پیر کو اسلام آباد پہنچا جہاں پاکستانی حکام سے ان کی بین الافغان مذاکرات پر بات چیت ہوگی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کے روز وزارت خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں درپیش پیچیدگیاں کم ہوں اور یہ مذاکرات جلد ہی شروع ہو۔

‘کوشش تو یہی ہے، نیت بھی یہی ہے، خواہش بھی یہی ہے کہ پیچیدگیاں کم ہوں اور بین الافغان مذاکرات کو جلد از جلد شروع ہونا چائیے۔’

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دورہ چین میں بھی اُنہوں نے چینی حکام کے ساتھ افغان امن عمل پر بات چیت کی اور اسی سلسلے میں افغانستان کے لئے چین کا نمائندہ خصوصی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔

طالب ترجمان سہیل شاہین نے اُن کے وفد کا دورہ پاکستان پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وبا کے بعد اُنہوں نے غیرملکی ممالک کے دوروں کا آغاز پاکستان سے کیا اور جلد ہی اُن کے ساتھی دوسرے ممالک کا سفر بھی کریں گے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

شاہ محمود قریشی: کشمیر پر سعودی مؤقف او آئی سی سے مختلف نہیں

افغان لویہ جرگہ کی 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری، پاکستان کا خیر مقدم

’افغان حکام، دولت اسلامیہ رہا ہونے والے طالبان قیدیوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں‘

چار سو طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع، بین الافغان مذاکرات کا امکان روشن

پاکستان پر پہلے دن سے طالبان کی حمایت کا الزام لگتا رہا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان نے کورونا وبا کے بعد اپنے دوروں کا آغاز آخر پاکستان سے ہی کیوں کیا؟

افغان امور کے ماہر اور صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان کا طالبان پر دباؤ تھا کہ وہ دورہ پاکستان کریں تاکہ بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو۔

شاہ محمود قریشی

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دورہ چین میں بھی اُنہوں نے چینی حکام کے ساتھ افغان امن عمل پر بات چیت کی اور اسی سلسلے میں افغانستان کے لئے چین کا نمائندہ خصوصی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے

‘پاکستان یہ چاہتا ہے کہ وہ امریکہ اور طالبان امن معاہدے کی طرح بین الافغان مذاکرات منعقد کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں اور اسی لیے وہ بار بار قطر میں موجود طالبان کو دورہ پاکستان کی دعوت دیتے رہے۔’

سمیع یوسفزئی کے مطابق طالبان وفد دورہ پاکستان میں پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے ساتھ طالبان رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے اور اُن چھ طالبان قیدیوں کی رہائی (جن کی رہائی پر فرانس نے تشویش کا اظہار کیا ہے) اور بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں صلاح مشورے کریں گے۔

طالبان ذرائع اور افغان میڈیا کے مطابق ان قیدیوں میں حکمت اللہ، سید رسول، گل علی، محمد داود، اللہ محمد اور نقیب اللہ شامل ہیں جن پر فرانسیسی اور آسٹریلین شہریوں کی ہلاکت کا الزام ہیں۔

جبکہ صحافی اور افغان اُمور کے دوسرے ماہر طاہر خان کہتے ہیں کہ پاکستان نے حال ہی میں کئی مرتبہ طالبان کو دورہ پاکستان کی دعوت دی، لیکن طالبان نہیں آنا چاہتے تھے۔

طالبان قیدی

طالبان کا وفد اُن چھ قیدیوں کی رہائی (جس پر فرانس نے تشویش کا اظہار کیا ہے) اور بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں پاکستانی حکام سے صلاح مشورے کریں گے

‘ملا برادر اور کئی طالبان رہنما یہ سمجھتے تھے کہ بین الافغان مذاکرات شروع ہو رہے ہیں اور اس سے پہلے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں۔’

لیکن اُن کے مطابق جب گزشتہ ہفتے پاکستانی وزارت خارجہ نے طالبان رہنماوں پر پابندیاں سخت کرنے کا اعلان کیا تو اُس کے ساتھ ہی طالبان نے دورے کا آغاز کیا۔

دوسری جانب افغانستان کی وزارتِ امن نے طالبان کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھیں اُمید ہیں کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر ورسوخ کا صحیح طور پر استعمال کر کے بین الافغان مذاکرات شروع کرنے لیے راہ ہموار کرسکتا ہے۔

وزارتِ امن کی ترجمان ناجیہ انوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہمسایہ ملک اور وہاں طالبان رہنماؤں کی موجودگی کی وجہ پاکستان کا افغان امن عمل پر اثر ورسوخ ہے۔

‘پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر افغان حکام کی ملاقاتوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کا افغان امن عمل میں اثرورسوخ ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ اس اثر ورسوخ کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32546 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp