فیضؔ کی زندگی کے چند مخفی گوشے


آصف جیلانی نے اپنی صحافتی ز ندگی کا آغاز 1952ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ کراچی سے کیا۔ پھر وہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں چلے گئے۔ 1959ء میں ’جنگ‘ کے نامہ نگار کی حیثیت سے ان کا دلّی میں تقرر ہوا۔ وہ بیرون ملک میں کسی پاکستانی اردو اخبار کے پہلے کل وقتی نامہ نگار تھے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں وہ دلی سے گرفتار کر لئے گئے۔ انہوں نے قیدیوں کے تبادلے تک تہاڑ جیل میں قید تنہائی کاٹی۔ رہائی پر جنگ کے یورپی نامہ نگار کی حیثیت سے لندن میں تعینات ہو گئے۔ 1983ء سے بی بی سی لندن کی اردو نشریات کے کل وقتی عملہ میں شامل ہوئے۔ وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف اخبارات میں لکھتے ہیں۔ ’انٹرنیشل ہوز ہو‘ میں انہیں برطانیہ میں اردو صحافت کا Pioneerقرار دیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں ’’نایاب ہیں ہم‘‘ کے نام سے ان کے چند خاکے اور مضامین کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک مضمون ’کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے‘ کے عنوان سے فیض کے بارے بھی موجود ہے۔

فیض احمد فیض اور ان کے والد کے بارے میں انہوں نے بہت سی مختلف باتیں فیض کی زبانی لکھی ہیں۔ پوری دنیا میں اردو لکھنے پڑھنے والے، جمہوری روایات پر یقین رکھنے والے اور بھوکے ننگوں، بے گھر لوگوں کا درد رکھنے والے لوگوں کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے۔ یہ سبھی فیض کے عشق میں بھی مبتلا ہیں۔ ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کہ پورے برصغیر کی زندگی کی سہولتوں سے محروم نوجوان نسل کا ماٹو بن چکا ہے۔ فیض کی یہ نظم اس سیاسی انداز فکر کے خلاف ایک احتجاج بھی ہے، جس کا ذکر ساحر لدھیانوی یوں کرتے ہیں:

بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا                                

کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں

دونوں ملکوں کی نوجوان نسل زندہ رہنا چاہتی ہے۔ وہ دونوں ملکوں کے مودی جیسے سیاستدانوں سے نفرت کرتی ہے۔ آصف جیلانی نے فیض سے محبت کرنے والوں کیلئے نئی باتیں لکھی ہیں۔ انہی کے لفظوں میں ہی : ’’مجھے ایک ملاقات میں فیض سے بہت سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے پو چھا، لوگ کہتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ اشرافیہ کے عیش و عشرت میں پلے بڑھے فیض صاحب مفلس و نادار افراد، غریب کسانوں اور ظلم و ستم کے ستائے ہوئے مزدوروں کے بارے میں نظمیں لکھتے ہیں۔

آصف جیلانی فیض احمد فیض اور ضیا محی الدین کے ساتھ بی بی سی سٹوڈیو میں

کافی دیر تک خاموشی کے بعد اپنے خاص انداز سے مسکراتے ہوئے اور سگریٹ کا لمبا کش لگا کر فیض صاحب نے کہاکہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ہمارے والد سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں کے بے زمین، نادار کسان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اتنے غریب تھے کہ زمینداروں کے مویشی چرا کر گزارہ کرتے تھے۔ اس دوران ایک دن انہیں گائوں کے قریب ایک اسکول نظر آیا۔ اس میں انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ اسکول میں پڑھائی کے دوران وہ اپنے مویشی جنگل میں چرنے کے لئے چھوڑ دیتے تھے۔ ابتدائی اسکول کی تعلیم کے بعد گائوں کے آس پاس کوئی ثانوی اسکول نہیں تھا۔ چنانچہ مزید تعلیم کیلئے گھر سے بھاگ کر لاہور چلے گئے اور ایک مسجد میں رہنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن میں اسکول میں پڑھتے تھے اور رات کو ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرتے تھے۔ اس زمانہ میں مسجد میں رہنے والوں کو محلے والوں کی طرف سے کھانا مل جاتا تھا۔

فیض صاحب کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ایک سردار اسی مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے۔ انہوں نے ہمارے والد کو دیکھا کہ یہ پڑھا لکھا لڑکا مسجد میں رہ رہا ہے۔ افغان سردار نے ایک روز ہمارے والد سے پوچھا کہ افغانستان چلو گے؟ والد صاحب نے کہا کیوں نہیں۔ اس زمانے میں افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمٰن تھے۔ جو انگریزوں سے ڈیورنڈ لائن کے بارے میں مذاکرات کر رہے تھے۔ ہمارے والد نے پہلے انگریزی مترجم کی حیثیت سے کام کیااور ڈیورنڈ لائن کے مذاکرات میں حصہ لیا۔ پھر بادشاہ نے اپنا چیف سیکرٹری اور بعد میں وزیر بنا لیا۔ لیکن چونکہ وہ غیر افغان تھے اسلئے ان کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی تھیں۔ کئی بار ان پر انگریزوں کی جاسوسی کا الزام لگا اور ایک بار انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن بادشاہ کے بیچ بچائو کی وجہ سے وہ بچ گئے اور ایک دن ایک فقیر کا بھیس بدل کر افغانستان سے فرار ہو کر لاہور آگئے۔ لیکن یہاں انہیں افغان جاسوس ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ بعد میں وہ رہا کر دیئے گئے۔

فیض صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارے والد جب افغانستان میں تھے تو ان کی ایک انگریز خاتون ڈاکٹر ہملٹن سے دوستی ہو گئی تھی۔ جنہوں نے افغانستان میں اچھا خاصا سرمایہ جمع کر کے برطانیہ میں بڑی جائیداد بنا لی تھی۔ انہیں جب ہمارے والد کی پریشانی کا پتہ چلا تو انہوں نے انگلستان آنے کی دعوت دی۔ فیض صاحب کہہ رہے تھے کہ ان خاتون کی مدد سے ہمارے والد نے کیمبریج یونیورسٹی میں وکالت پڑھنے کیلئے بار میں داخلہ لیا۔ امیر عبدالرحمٰن کو جب پتہ چلا کہ ہمارے والد لندن میں ہیں تو ان سے کہا کہ وہ افغانستان کے سفیر بن جائیں۔ وکالت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے سفیر کے بھی فرائض سر انجام دیئے۔ آخر کار وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ افغانستان جانے کی بجائے سیالکوٹ چلے آئے اور یہیں شادی کر کے مستقل بس گئے۔ فیض صاحب کا کہنا تھا کہ والد صاحب جب تک بقید حیات تھے، ہم نے نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزاری لیکن جب ہم نے بی اے کیا تو والد صاحب انتقال کر گئے۔ ان کے بعد ان کے قرضوں کی وجہ سے ہماری مالی حالت ابتر ہو گئی۔ ویسے بھی یہ دور سنگین اقتصادی بدحالی کا تھا۔ تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ ہم نے غربت کے دن نہیں دیکھے۔ مجھے معلوم ہے کہ بیروزگاری کتنا بڑا عذاب ہے۔

پھر خود کہنے لگے کہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ہم نے عربی میں ایم اے کیوں کیا؟ بات دراصل یہ تھی کہ ہمارے پاس انگریزی میں داخلہ کیلئے پیسے نہیں تھے۔ چنانچہ ہم نے عربی ایم اے میں داخلہ لیا۔ کیونکہ اس مضمون میں داخلہ چند روپوں میں ہوجاتا تھا۔ عربی میں ایم اے کرنے کے بعد ہم نے انگریزی میں ایم اے کیا۔ تو یہ حال تھا ہماری غربت کا۔ بہت سے لوگ فخریہ کہتے ہیں کہ پدرم سلطان بود۔ فیض صاحب نے مسکرا کر کہا۔ ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے والد کا نام سلطان محمد خاں تھااور والدہ کا نام سلطان فاطمہ تھا۔ لیکن ہمارا ہمیشہ غریبوں اور ناداروں سے گہرا تعلق رہا ہے اور ہم نے ان کے مسائل قریب سے دیکھے ہیں‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).