کیا کانگریس پارٹی اور گاندھی خاندان لازم و ملزوم ہیں؟


انڈیا میں عوام ہوں کہ خواص، سب کی دلچسپی اس وقت کانگریس کی داخلی میٹنگ میں ہے اور کچھ اسی قسم کا تجسس پایا جاتا ہے جو مقبول سیریز ’گیم آف تھرونز‘ کے لیے دیکھا گیا تھا۔

برسوں تک کانگریس کے متعلق خبریں دینے والے دی ٹیلی گراف اخبار کے سینیئر صحافی سنجے کمار جھا نے ٹویٹ کیا کہ کانگریس جیسی بڑی پارٹی ’ویڈیو کانفرنسنگ‘ کے ذریعے اپنی اہم داخلی میٹنگ منعقد کرتی ہے اور ان کی ’خفیہ سرگرمیوں‘ کی لمحہ بہ لمحہ کی کمنٹری تقریباً ہر چینل پر نشر ہو رہی تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ دیوانہ پن ہے۔‘

جھا کے ٹویٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اندرونی اجلاسوں کے متعلق ہر منٹ کی معلومات اگر عام ہو رہی ہیں تو یہ اس تنظیم اور اسے چلانے والوں کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

بہرحال یہ ہوا کیسے کہ انڈیا کی سب سے بااثر سیاسی جماعت اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ نہ تو وہ خود احتسابی کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرنے کی حالت میں۔ ایک طویل عرصے سے کانگریس قیادت کے سوال پر اندرونی تنازعات کا شکار رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سونیا گاندھی کا کانگریس کی عبوری صدارت قبول کرنے کا فیصلہ، صدر کا انتخاب اگلے اجلاس میں ہوگا

جب راجیو گاندھی نے سونیا کی قربت کے لیے ’رشوت‘ دی

کیا یہ گاندھی خاندان کی سیاست کا اختتام ہے؟

کیا کانگریس کو نئی اندرا مل گئی ہے؟

جس مقصد کے لیے کانگریس کا قیام ہوا تھا وہ آزادی تھی۔ جدوجہد آزادی کے دوران کانگریس میں مختلف نظریات کے حامل افراد مل کر کام کر رہے تھے۔ اس میں بائیں بازو کے علاوہ دائیں بازو اور درمیانی خیالات کے لوگ بھی شامل تھے۔

سیاسی تجزیہ کار شیوم وج نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی نے مشورہ دیا تھا کہ آزادی ملتے ہی کانگریس نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے، لہذا اب اسے ایک سماجی تنظیم کی حیثیت سے عوامی فلاح و بہبود کے کام کرنا چاہیں اور اقتدار کے پیچھے نہیں جانا چاہیے۔

وج کا کہنا ہے کہ جس پارٹی نے جواہر لعل نہرو، نرسمہا راؤ، لال بہادر شاستری اور اندرا گاندھی جیسے کرشمائی قائدین دیے ہیں، آج اسے قیادت کے بحران کا سامنا ہے، یہ ایک انتہائی سنگین صورتحال ہے۔

راہل گاندھی

لیکن کانگریس پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شروع ہی سے ہی اس تنظیم پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر گاندھی خاندان کی بالادستی رہی۔ جواہر لعل نہرو سے شروع ہونے والے اس سلسلے میں، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی بھی آتے ہیں۔

لیکن سنہ 2019 میں راہل گاندھی نے استعفیٰ دے دیا اور پارٹی کی قیادت گاندھی خاندان سے تعلق نہ رکھنے والے کسی رہنما کے حوالے کرنے کی وکالت کی، جسے بعد میں ان کی بہن اور پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی نے بھی دہرایا۔

لیکن جو لوگ کانگریس کی سیاست کو قریب سے سمجھتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر اس تنظیم کی قیادت گاندھی خاندان کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ آئی تو یہ ان کے لیے کانٹے کا تاج ثابت ہوگا اور ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

مجموعی طور پر کانگریس کے 13 صدور ایسے تھے جو گاندھی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جب تک وہ اس عہدے پر فائز رہے تنظیم چلانا، ان کے لیے ایک چیلنج تھا۔

مثال کے طور پر جیوٹ رام بھگوان داس کرپلانی آزادی کے بعد کانگریس کے صدر بنے تھے جب جواہر لعل نہرو وزیر اعظم تھے۔

کرپلانی اس وقت نہرو کے سب سے بڑے ناقد بن گئے جب انھیں احساس ہوا کہ پارٹی کے صدر تو وہ ہیں لیکن ان کے اختیارات محدود ہیں کیونکہ تنظیم کے بڑے فیصلوں میں وزیر اعظم کا دخل رہتا ہے۔

یہ سنہ 1947 کی بات ہے اور ایک سال کے اندر ہی ان کی جگہ پٹابھی سیتارمیا نے لے لی۔

پھر سنہ 1950 میں نہرو کی شدید مخالفت کے باوجود پورشوتمم داس ٹنڈن کانگریس کے صدر بن گئے۔ کانگریس کے ایک حصے نے انھیں قدامت پسند سمجھا۔

لیکن وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل ان کے سخت حامی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ نہرو کی اتنی مخالفت کے باوجود ٹنڈن جیت گئے کیونکہ پٹیل ان کے ساتھ تھے۔

ٹنڈن کے صدر بننے کی وجہ سے جواہر لعل نہرو نے کانگریس ورکنگ کمیٹی سے استعفی دے دیا تھا۔

بعد میں جب سردار ولبھ بھائی پٹیل کی موت ہوگئی تو ٹنڈن نے خود ہی استعفیٰ دے دیا اور جواہر لعل نہرو سنہ 1951 میں کانگریس کے صدر بھی بنے اور وزیر اعظم بھی رہے۔ یعنی تنظیم اور طاقت دونوں ان کے پاس تھی۔ سنہ 1954 تک وہ اس عہدے پر رہے۔

پھر یو این دھیبر چار سالوں تک صدر رہے لیکن انھیں نہرو کا قریبی سمجھا جاتا تھا۔

پھر اندرا گاندھی سنہ 1959 میں اس عہدے کے لیے منتخب ہوئیں اور کانگریس کے سینیئر افراد کا کہنا ہے کہ جواہر لعل نہرو خود ان کی رہنمائی کرتے تھے۔

اندرا گاندھی

اندرا گاندھی

اس کے باوجود اپنی مدت پوری ہونے کے بعد اندرا گاندھی نے دوبارہ انتخاب لڑنے سے انکار کردیا۔

سینیئر صحافی ساگریکا گھوش نے اندرا گاندھی پر ایک کتاب لکھی ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی کو انتخاب ہارنے والے قائد کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کمزور کانگریس کی وجہ سے اپوزیشن بھی کمزور ہے۔

انھوں نے کہا: ‘کانگریس نے بہت سارے کرشمائی اور قدآور رہنماؤں کو دیکھا ہے جن کی بڑے پیمانے پر اپیل تھی۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ راہل گاندھی خود امیٹھی کا انتخاب ہار گئے، جو گاندھی خاندان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ سونیا گاندھی نے 2004 اور 2009 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے یہ ظاہر کیا کہ وہ راہل سے زیادہ بہترین رہنما ہیں۔

سنہ 1960 میں اندرا گاندھی کے ہٹنے کے بعد نیلم سنجیوا ریڈی کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بنے اور تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔

لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ 1964 میں منتخب ہونے والے کامراج کا دور سب سے مشکل تھا کیونکہ ان کے دور مین جواہر لعل نہرو کا انتقال ہوگیا تھا اور انھوں نے لال بہادر شاستری کو وزیر اعظم بنانے کے لیے تمام رہنماؤں کو اعتماد میں لیا تھا۔

لال بہادر شاستری کا کامراج کے دور میں انتقال ہوگیا لیکن مورارجی دیسائی کے سینیئر ہونے کے باوجود اندرا گاندھی کے نام پر اتفاق کیا گیا۔

راجیو گاندھی

راجیو گاندھی

سنہ 1969 میں ایس نجلنگپپا اور اندرا گاندھی کے مابین نظریات کی جنگ شروع ہوگئی۔ آزاد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اندرا گاندھی اختیارات اپنے کنٹرول میں چاہتی تھیں۔ اسی وجہ سے آخرکار کانگریس تقسیم ہوگئی اور اندرا گاندھی کے دھڑے نے جگجیون رام کو صدر منتخب کیا۔

شیوم وج کہتے ہیں کہ جگجیون رام کے بعد جو بھی کانگریس کے صدر بنے یعنی شنکر دیال شرما اور دیووکانت بڑوا وہ اندرا گاندھی کے قریبی ہی تھے۔ بڑوا نے وہ مشہور نعرہ بھی دیا تھا: ‘اندرا از انڈیا اور انڈیا از اندرا ۔’

بہرحال ایمرجنسی کے دوران شکست کے بعد اندرا گاندھی نے آخری وقت تک پارٹی کی کمان اپنے ہاتھوں میں رکھی تھی۔

اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی وزیر اعظم بھی تھے اور پارٹی کے صدر بھی تھے۔ لیکن سنہ 1989 کے عام انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد وشوناتھ پرتاپ سنگھ وزیر اعظم بنے جبکہ راجیو گاندھی اپنے قتل تک پارٹی کے صدر رہے۔

راجیو گاندھی کے بعد سونیا گاندھی خود سیاست میں داخل ہونا نہیں چاہتی تھیں اور نہ ہی وہ چاہتی تھیں کہ ان کے خاندان سے کوئی سیاست میں آئے۔

راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی

راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی

سنہ 1992 میں پارٹی کی قیادت پی وی نرسمہا راؤ کے ہاتھ میں آئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب نہ تو گاندھی خاندان کا کوئی فرد اس تنظیم میں موجود تھا اور نہ ہی حکومت میں۔

لیکن پارٹی میں نرسمہا راؤ کے مخالفین نے سونیا گاندھی کو سیاست میں آنے پر مجبور کردیا۔ اس وقت تک سیتارام کیسری پارٹی کے صدر بن چکے تھے۔

اتفاق سے کیسری کے دور میں کانگریس کی دو حکومتیں صرف چھ ماہ میں گر گئیں اور اس کا الزام سیتارام کیسری کی قیادت پر عائد کیا گیا۔

سنہ 1998 میں سونیا گاندھی نے صدر کا عہدہ سنبھالا اور وہ سب سے طویل عرصے تک صدر رہیں۔

راہل گاندھی 2017 میں صدر بنے اور کانگریس نے تین ریاستوں میں کامیابی حاصل کی۔ بہر حال 2019 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد انھوں نے عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کی اور گاندھی خاندان کے علاوہ کسی اور رہنما کو تنظیم کی کمان سونپنے کی سفارش کی۔

سونیا گاندھی

سونیا گاندھی

آلوک مہتا بہت سے اخبارات اور رسائل کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اگر گاندھی کنبے کے علاوہ کسی اور رہنما کو تنظیم کی کمان سونپ دی جاتی ہے تو پھر یہ قیاس آرائیاں بھی کی جائیں گی کہ اقتدار گاندھی خاندان کے ہاتھ میں ہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جو بھی اس عہدے پر آئے گا اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ گاندھی خاندان کی پسند کا ہوگا۔

لیکن ساگریکا گھوش کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو کانگریس کے لیے بھی یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس نریندر مودی کا چہرہ ہے۔ اگر کانگریس دوبارہ اپنی پرانی ساکھ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے ایسے چہرے کو سامنے رکھنا ہوگا جو عوام میں مقبول ہو۔

گھوش کے مطابق کانگریس کی موجودہ تنظیم حزب اختلاف کا کردار بھی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کررہی ہے جبکہ ایسے بہت سے معاملات ہیں جن پر کانگریس لڑ سکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘جدوجہد ٹویٹر کے بجائے سڑکوں پر ہونی چاہیے اور وہ بھی عوامی مسائل پر۔ اپوزیشن کو مسائل طشتری میں سجے ہوئے ملے ہیں۔ چاہے گرتی ہوئی معیشت ہو، بے روزگاری ہو یا پھر وبا پر ٹھوس اقدامات نہ اٹھانا۔ اپوزیشن نے کچھ نہیں کیا۔’

ان کا ماننا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرح کانگریس کو بھی نئے لوگوں کو آگے لانا چاہیے اور رہمنائی کے لیے پرانے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp