پرویز رشید نے راز سے پردہ اٹھا دیا


پاکستان کی تاریخ میں اعلیٰ عدلیہ اور فوج نے کئی بار بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں حتیٰ کہ آئین شکنی، مارشل لأ کے نفاذ اور دیگراقدامات کو ہمیشہ جائز قراردیا گیا۔ اس مقصد کے لئے 1950ء کی دہائی میں جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا جو آج تک رائج ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے سرخیل افتخار محمد چوہدری اور جسٹس کھوسہ نے اعلان کیا تھا کہ نظریہ ضرورت کو دفن کردیا گیا ہے لیکن دونوں نے نظریہ ضرورت کا دامن نہیں چھوڑا۔ جسٹس کھوسہ نے جاتے جاتے ایک فیصلہ دیا جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن انہوں نے نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر فیصلہ لکھا۔ اس نظریے کا کمال ہے کہ آج تک مارشل لاء لگانے والے کسی آئین شکن کو کوئی سزا نہیں ہوئی پہلی مرتبہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد نے ایک غیرجانبدارانہ اور تاریخی فیصلہ دیا لیکن اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہو گا۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ پرویز مشرف کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا۔

افتخار محمد چوہدری کا یہ عالم تھا کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر سوموٹو لیتے تھے انہوں نے ازخود نوٹس کو بچوں کا کھیل اور مذاق بنا دیا تھا۔ ان کے دور میں بڑے بڑے واقعات ہوئے لیکن ان کا سوموٹو نوٹس نہیں لیا۔ اس دوران نواب بگٹی شہید ہوئے جنہوں نے موصوف کو بلوچستان کا ایڈووکیٹ جنرل لگایا تھا۔ ان کی موت پر ازخود نوٹس تو ایک طرف، وہ تعزیت کرنے بھی نہیں گئے۔ نوازشریف کی واپسی پر انہوں نے ان کے تمام کیس یک جا کر کے انہیں بری قرار دے دیا۔ ان کی ایمانداری اور جانبداری کا یہ حال تھا کہ نامور اداکارہ عتیقہ اوڈھو پرالزام لگا تھا کہ ان سے شراب کی دو بوتلیں برآمد ہوئی ہیں۔ اس کا بھی سوموٹو لے لیا کیونکہ عتیقہ اوڈھو ان کے مخالف پرویز مشرف کی پارٹی کی رکن تھیں۔ نو سال کے بعد عدالت نے عتیقہ اوڈھو کو باعزت بری کر دیا ہے۔

افتخار چوہدری کے دور میں بلوچستان جل رہا تھا، روز مسخ شدہ لاشیں گررہی تھیں لیکن ان کی نظر کبھی اس طرف نہیں گئی۔ انہوں نے دو بوتل شراب کا تو نوٹس لیا لیکن مناکو میں جب ان کے صاحبزادے ارسلان نائٹ کلبوں میں ملک ریاض کے مہمان تھے تو کیا وہ وہاں روح افزا نوش فرماتے تھے۔ چوہدری صاحب کی جانبداری اور تعصب کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایبٹ آباد کے واقعہ کا نوٹس نہیں لیا لیکن توہین عدالت پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کٹہرے میں کھڑا کر کے چلتا کر دیا۔ ان کی جگہ آنے والے راجہ پرویز اشرف کو بھی ایک دن چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ ان کا ظرف اتنا تھا کہ گیلانی نے انہیں بحال کر دیا اور موصوف نے ان کی چھٹی کر دی۔ ان کی بحالی کی تحریک میں چوہدری اعتزاز احسن اور علی احمد کرد نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا لیکن بحالی کے بعد وہ ن لیگ کے ہمدرد بن گئے۔

میاں نوازشریف اور ان کا کردار کچھ ملتا جلتا ہے۔ جس طرح چوہدری صاحب نے جوڈیشل ایکٹوازم کو مذاق بنا دیا تھا اگر دیکھا جائے تو ضیاء الحق کے دور سے میمو گیٹ اسکینڈل تک تمام خرابیوں کے ذمہ دار میاں نوازشریف نظرآتے ہیں۔ سیف الرحمن کا احتساب بیورو ہو، انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہوں، سارے غیرجمہوری کام میاں نوازشریف نے کیے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو انہوں نے 18 ویں ترمیم کے وقت نکلنے نہیں دیا۔ اس طرح نیب کے قوانین میں ترامیم کے راستے میں میاں صاحب ہی رکاوٹ بن گئے۔ جب بھی انہوں نے کوئی آمرانہ اور غیرجمہوری اقدام کیا، کچھ عرصہ بعد اسی کی زد میں آگئے مثال کے طور پر طیارہ اغوا کیس میں ان کی اپنی بنائی ہوئی عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔ پانامہ کیس میں وہ دفعہ 62 اور 63 کی زد میں آکر نا اہل ہوگئے اور آج نیب شریف خاندان کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے۔

انکی جوانمردی اور جرأت کا یہ حال ہے کہ سعودی عرب جلاوطنی کے وقت تحریری طور پر جنرل مشرف کو لکھ کر دیا کہ وہ 10 سال تک واپس نہیں آئیں گے اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے۔ ایک دفعہ انہوں نے واپس آنے کی کوشش کی تو مشرف نے انہیں جہاز سے باہر واپس نہیں آنے دیا۔ جہاز کے اندر میاں صاحب زاروقطار رو رہے تھے اور ایک صحافی کے دیے گئے سفید رومال سے اپنے آنسو پونچھ رہے تھے۔ واپس آکر وہ مکر گئے کہ انہوں نے مشرف سے کوئی معاہدہ کیا ہے یا معافی نامہ لکھ کر دیا ہے۔ حالانکہ 12 صفحات پر مشتمل معافی نامہ سب نے پڑھ لیا تھا۔ جب زرداری کے خلاف میمو اسکینڈل کے ذریعے غداری کا کیس قائم ہوا تو درخواست گزار میاں نوازشریف تھے، انہوں نے کالا کوٹ پہن کر عدالت میں کیس کی پیروی کی۔

میاں شہباز شریف جب وزیراعلیٰ بنے تو ان کے ڈرامے دیدنی تھے۔ مائیک توڑ کر انہوں نے کہا کہ وہ زرداری کو مال روڈ پر گھسیٹیں گے اور ان کا پیٹ چاک کرکے لوٹی ہوئی دولت باہر نکالیں گے وہ زرداری کاپیٹ تو چاک نہ کر سکے البتہ موجودہ حکومت ان کا اپنا پیٹ چاک کرنے کی دھمکیاں دے کر نیب کے ذریعے انہیں دو زانو چت کروائے ہوئے ہیں وہ اتنے خوفزدہ ہیں کہ اپنے کمرے سے باہر نکلنے کی جرأت نہیں کررہے ہیں بڑے بھائی نے زوردے کر کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک میں شریک ہونا ہے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔  حتیٰ کہ پارٹی ٹوٹنے کا بھی انہیں کوئی غم نہیں ہے۔

یہ جو میاں نوازشریف کے باہر جانے کے وقت ایک انڈر اسٹینڈنگ یا این آر او کی بات کی گئی تھی اس وقت تو وہ پروپیگنڈہ محسوس ہورہا تھا لیکن اب شواہد بتارہے ہیں کہ واقعی عمران خان سے بالا مقتدرہ اور نوازشریف کے درمیان ایک این آر او ہوا تھا پنڈی کے شیخ رشید کا یہ دعویٰ کسی حد تک سچا لگ رہا ہے کہ میاں نوازشریف موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے تک واپس نہیں آئیں گے کیونکہ وہ اس کی گارنٹی دے کر گئے ہیں شیخ رشید نے تو گزشتہ روز یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ عمران خان سارے معاملے سے بے خبر تھے جب نوازشریف کا خصوصی طیارہ پرواز کرگیا تب عمران خان کو حقیقت کا پتہ چلا لیکن وہ اس وقت کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ شیخ کے بقول شہبازشریف نے واپس آکر غلطی کی، وہ اور مریم تب تک ضمانت کے طور پر یرغمال رہیں گے۔

شیخ رشید نے اپنی تازہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ موجودہ تھکی ہوئی اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں یہ بات بھی صحیح ہے کیونکہ شیخ رشید اور ان کی حکومت پر جن طاقتوں کا سایہ ہے تھکی ہوئی کمزور اور مجبور اپوزیشن کیسے تحریک چلاسکتی ہے۔ ن لیگ تو ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس کی پالیسی کیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی بھی سندھ حکومت کی برطرفی کے خوف میں مبتلا ہے اس لیے محرم کے بعد تحریک شروع ہونا مشکل نظر آتا ہے تحریک کے لئے ضروری ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی مصلحت پسندی چھوڑ دیں ورنہ مولانا کو بیچ میں لاکر راہ فرار اختیار کرنے سے کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر دونوں جماعتیں عمران خان کی حکومت کو پانچ سال دینا چاہتی ہیں تو واضح اعلان کریں یہ بلاوجہ کی آنکھ مچولی کا کوئی فائدہ نہیں۔

 مسلم لیگ ن کے جمہوریت پسند رہنما سینیٹر پرویز رشید نے میرحاصل خان سے ان کی موت کے دن سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں پارٹی کے 14 ممبران کی بے وفائی پر معافی طلب کی ہے۔ سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری صفوں میں سے جن 14 ممبران نے زیادتی کی، اس پر معافی اور شرمندگی کاخواستگار ہوں۔ جب میرے دوست نے چیئرمین سینیٹ میں حصہ لیا تو میری صفوں میں سے 14 افراد نے خفیہ رائے شماری میں میرے مرحوم دوست کو دھوکہ دیا حالانکہ جب ممبران کھڑے ہوئے تو وہ ان کے ساتھ تھے لیکن خفیہ رائے شماری میں انہوں نے ووٹ نہیں دیا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی رہنما نے ایوان بالا میں کھڑے ہوکر یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی جماعت کے اراکین نے پارٹی ڈسلپن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری امیدوار کو ووٹ دیا۔ ان کی جانب سے معافی طلب کرنا واقعی ایک بڑا عمل ہے۔ پرویز رشید نے پہلی مرتبہ اس ابہام کو دور کر دیا کہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کیوں ہارے تھے۔ پہلے شک ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے ممبران نے حکومت کا ساتھ دیا لیکن اب واضح ہو گیا کہ تمام 14 کے 14 ممبران ن لیگ سے تعلق رکھتے تھے۔ گماں ہے کہ ان اراکین نے پارٹی قیادت کے کہنے پر یہ قدم اٹھایا تھا اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔

انور ساجدی کے کالم پر سینیٹر پرویز رشید کا ردعمل

(مسلم لیگ (نواز کے نائب صدر) محترم سینیٹر پرویز رشید نے ہم سب میں 26 اگست 2020 کو شائع ہونے والے انور ساجدی صاحب کے کالم پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے بارے میں بات کرتے ہوئے “ہماری صفوں” کا لفظ استعمال کیا تھا۔ پارلیمانی روایت میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو دو فریق سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہماری صفوں سے مراد حزب اختلاف کے تمام اراکین تھے اور کسی خاص جماعت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا۔ محترم کالم نگار نے ان کے الفاظ سے درست مطلب نہیں نکالا۔

سینیٹر پرویز رشید نے مزید کہا کہ انہوں نے کسی جماعت یا رہنما کے بارے میں اشارہ نہیں کیا اور محترم کالم نگار نے یہ گمان کرنے میں عجلت سے کام لیا ہے کہ میں نے اپنی قیادت کے اشارے پر یہ بات کہی۔

ادارہ “ہم سب” اس تسامح پر سینیٹر پرویز رشید سے معذرت خواہ ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).