دل نادان کی گارڈ تبدیلی تقریب


پانچ اگست کو بعد دوپہر سنی بروک ہسپتال ٹورنٹو سے چار ماہ انتظار کے بعد پیغام ملنے کے بعد حسب ہدایت تیاری کرتے سات اگست جمعۃ المبارک گیارہ بجے آپریشن تھیٹر کے ساتھ والے کمرے میں پہنچنے کے حکم کے بعد ہم سوا دس بجے وہاں پہنچتے ہسپتال گاؤن پہن مزید تیاری کے لئے بستر پر لٹائے جا چکے تھے۔ فلپائنی سی لگنے والی نرس بستر کے گرد ریلنگ سے لٹکے پردہ کو کھولتے کیبن سا بنا اپنی خون کے نمونے نکالنے۔ سینے سے بال وغیرہ اتارنے۔

ای سی جی۔ بلڈپریشر اور دیگر ٹیسٹ لینے میں مصروف تھی۔ ساتھ والے کیبن سے آواز آ رہی تھی۔ اب آپ مکمل ہوش میں آچکے۔ آپ کو دو گھنٹے مزید احتیاطاً یہاں رکھا جائے گا۔ جس عزیز نے آپ کو گھر لے جانا ہے۔ انہیں فون کر دیں کہ ہسپتال قریب پہنچتے اطلاع دیں۔ آپ کو گیٹ پر پہنچا دیا جائے گا۔ اور پھر بعد از آپریشن احتیاط کا سبق دہرایا گیا۔ ( کوئی نہ ہو تیمار دار۔ کی عملی تصویر)

ہمارے والی نرس اپنے مفروضہ فرائض ادا کر کے سامنے سے پردہ ہٹا جا چکی تھی۔ سامنے والے بیڈ کا پردہ بھی ہٹ چکا تھا۔ جہاں ایک بہت بوڑھا چینی شخص لیٹا نظر آ رہا تھا۔ چارٹ والا گتا ہاتھ میں لئے ایک ڈاکٹر ایک نرس کے ساتھ داخل ہوئی اور چینی بزرگ کو آپریشن کے لئے چند منٹ بعد لے جائے جانے کی اطلاع دے رہی تھی۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ مریض اس کی بات سمجھ نہیں پا رہا۔ تو تحمل سے پوچھا آپ کون سی بولی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

کینٹونیز (چین کی بولی) ۔ نرس سے کہا فلاں فرد کو بلاؤ۔ وہ آیا چارٹ پکڑا اس سے سوال پوچھتا۔ جواب ڈاکٹر کو بتاتا اور مسکراتی لکھتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کے منہ پر ذرا شکن نہیں آئی تھی۔ اس کے کیس ہسٹری کے متعلق۔ زیر استعمال دواؤں کے متعلق۔ آپریشن کس طرح ہوگا۔ کتنا رسک ہے۔ کتنی دیر لگے گی۔ اس کا نتیجہ کس طرح ہوگا۔ یہ سب انتہائی تحمل سے اور خوشگوار لہجے میں گفتگو کر کے مریض کو کہا آپ نے کوئی سوال پوچھنا ہے۔ تو پوچھیں۔۔۔

تب اچانک میرے ذہن میں کوئی ساٹھ سال قبل کا پاکستان کے ایک مشہور ترین سرجن کا فقرہ جو میرے تازہ تازہ ایم بی بی ایس پاس کیے بڑے بھائی سے کہا تھا۔ ”لے آؤ ایک واری فیر چیر ویکھنے آں“ یعنی لے آئیں ایک مرتبہ پھر چیر دیکھتے ہیں۔ گونج گیا۔ یہ انیس سو پچاس میں میں و ہسپتال میں ہماری بڑی ہمشیرہ کے اپنڈکس آپریشن کے بعد غلطی سے صفائی والے دو چھوٹے کپڑے پیٹ میں رہ جانے کے بعد زخم کھل جانے اور انتڑی کا منہ بھی کھل جانے کچھ حصہ اجابت اس رستے سے آنا شروع ہوتے گیارہ سال عذاب سے گزارنے والی مریضہ کے متعلق کہا گیا تھا۔ جس کے اس کے درست کرنے کے انیس سو اکاون اور تریپن کی آپریشن بھی ناکام رہے تھے۔ اور اس وقت بھائی نے خود ڈاکٹر بننے کا عہد کرتے انیس سو ستر میں آپا کو شکاگو بلا کر اپنے استاد سے آپریشن کروایا اور وہ صحت مند چھیاسی برس کی عمر پا گئیں۔ (انیس سو اکسٹھ کا آپریشن بھی ناکام رہا تھا تاہم اب مواد بہت کم نکلتا۔)

نرس میرے پاس کھڑی ہو کر بتا رہی تھی کہ میرا آپریشن ڈاکٹر ٹییوون کریں گے۔ ابھی دوسرا آپریشن جاری ہے آپ کا پانچواں نمبر ہے دو سے تین گھنٹے لگ سکتے ہیں۔۔۔ نرس چلی گئی تھی۔ اور میرے ذہن میں بچپن کا دیکھا میو ہسپتال گھومنے لگا۔ سنی بروک ٹورنٹو اور میو ہسپتال شاید ایک ہی دور کے بنے ہوں۔ اس وقت میو ہسپتال بھی اتنا ہی صاف ہوتا جتنا یہ ٹورنٹو کا ہسپتال آج ہے۔ میں داخلہ دروازہ میں گھستے بڑا سفید سیاہ ٹائلوں والا ہال جس دائیں بائیں سے گھومتی آبنوسی ریلنگ والی اوپر جاتی سیڑھیاں ہمارے لئے ایک فسوں کا سماں تھا۔

پھر آج صبح ہسپتال میں داخلہ کا منظر گھوم گیا۔ ہسپتال کے باہر کوئی ساٹھ ستر افراد چھ چھ فٹ کے نشان زدہ فاصلے پر لائن بنائے کھڑے تھے۔ ہر آٹھ دس سیکنڈ بعد ایک اندر داخل ہوجاتا۔ لفٹ پہ اوپر جاتے یاد آیا کوئی کلف لگے کپڑے پہنے بانہیں چوڑی کیے سلطان راہی کے انداز میں یہ کہتے نظر نہیں آئے۔ اوئے مجھے نہیں جانتا۔ تو کون مجھے مریض کے ساتھ جانے سے روکنے والا۔۔۔ نہ کوئی دھکا نہ رعب۔ تو یاد آیا انیس سو ساٹھ میں میو ہسپتال میں اسی ہال سے ملحق ایمر جنسی روم کے باہر اندر رات کی ڈیوٹی دیتے بڑے بھائی کا منتظر تھا کہ اس عہد کے مشہور فلمی ولن شہزادہ کے میک اپ میں ہمالیہ والا کو شوٹنگ میں معمولی زخم آنے پر پہلے زیادہ توجہ طلب مریض سے فارغ ہونے تک انتظار کا کہہ دیا گیا تھا۔ اور اس نے بھی ساتھیوں کو رعب ڈالنے سے منع کر دیا تھا۔ فیصل آباد میں انیس سو ستر سے نوے کے درمیاں میاں محمد ٹرسٹ ہسپتال میں کئی مرتبہ والد صاحب والدہ اور دوسرے عزیزوں کے علاوہ تین بچوں کی پیدائش ہوئی۔ درمیانی قابل قبول صفائی اور مہذب عملہ فرض شناس ڈاکٹر ملے۔

شاید یہ اگست کا مہینہ تھا انیس سو اکانوے میں اچانک سینہ میں درد اٹھنے پر اس وقت پیپلز کالونی ڈی گراؤنڈ کے ساتھ واقعہ گھر سے قریب ترین ہسپتال پہنچا تو جمعہ کے لئے نکلتے متشرع ڈاڑھی سجائے ڈاکٹر نے جان جانے کے خطرہ میں مبتلا مریض کو فوری طبی امداد فراہم کرنے پر نماز کے لئے نکل جانے کو ترجیح دی تھی۔ بلکہ اصرار پر کہہ دیا تھا کہ مجھے کیا پتہ کہ آپ محض مارفین کا ٹیکا لگوانے کا بہانہ کر رہے ہوں۔ اور میرے کارڈیالوجسٹ کو فون کرنے کی اجازت بھی مشکل سے دی۔

وہاں سے بھاگ نور ہسپتال داخل ہوئے کہ ڈاکٹر گابا اس سے متعلق تھے۔۔۔ مانیٹر لگا مگر صبح پتہ چلا کہ اسے تو مانیٹر کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں۔ نہ ہی کوئی گھنٹی کسی کو بلانے کے لئے تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب کو اگلے روز بتایا کہ یہاں تو ( اس زمانے کی ربر پیندے والی لوشن لگانے والی ) ای سی جی کی لیڈز بھی لعاب دہن سے لگائی جاتی ہیں۔ تو ڈاکٹر کہنے لگے بھائی کیا کہوں چند ماہ قبل وہاں کے سب سے معروف زچہ بچہ ہسپتال میں ان کی بیوی کو ٹیکہ لگانے کے بعد اتفاقاً باہر نکلے خون کے قطرہ کو نرس نے اپنے دوپٹہ سے صاف کیا تھا۔

اس پر میں نے اپنے سکول کی آٹھویں کلاس کے ڈرائنگ پیریڈ کی کہانی سنا دی، کہ انتہائی شریف النفس ڈرائنگ ماسٹر نور الہی کلاس میں داخل ہوئے تو اسی کلاس کا طالب علم ان کا اپنا بیٹا روتے ہوئے ان کے پاس آیا۔ اور بولا۔ ”ابا جی سب لڑکے مجھے کھدؔڑ کھدؔڑ کہہ چھیڑتے ہیں“ ۔ ماسٹر صاحب نے بیٹے کو گلے لگاتے گلو گیر آواز میں جواب دیا تھا ”صبر کرو بیٹا صبر۔ مجھے بھی تو روندو روندو کہتے ہیں۔۔۔“

پھر انیس ستانوے میں کہ تیسرا ہارٹ اٹیک تھا فیصل ہسپتال میں داخل ہونے کی حماقت کی۔ اگلی دوپہر تک ہر گھنٹہ بعد نیا ٹیسٹ کروانے کے باوجود میرے لگاتار گرتے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں ناکامی بہت شدید ہارٹ اٹیک پر آ پہنچا۔ درد محسوس ہوتے ہی نئے نئے متعارف شدہ پاس موجود موبائل فون سے ڈاکٹر گابا اور اپنے بیٹے کو بلایا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر اور عملہ آتے ہی میں بیہوش ہو چکا تھا۔ جب ہوش آیا تو سب میرے گرد کھڑے تھے اور ڈاکٹر گابا میرے بیٹے کو کہہ رہے تھے۔

مجھے نہیں پتہ تھا اس ہسپتال میں ابتدائی ضروری آلات تک نہیں۔ آکسیجن کے سلنڈر تک نہیں۔ جب کہ خطرہ ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ بھر پور غلاظت والے سٹریچر پر اس سے بھی گندی ایمبولینس وین میں میں الائیڈ ہسپتال پہنچے خلاف توقع اور اسی باقی ہسپتال سے مکمل مختلف انتہائی صاف ستھرے ضرورت کے عین مطابق بنے وارڈ میں فوری طور سارا عملہ انہماک سے میرے علاج پہ لگ گیا۔ بیس گھنٹے میں کنٹرول نہ ہونے والا بلڈ پریشر نصف گھنٹہ میں معقول حد میں آ چکا تھا۔

ڈاکٹر عامر شوکت (پتہ نہیں، اب کہاں ہیں) کی سربراہی میں علاج کا یہ ہفتہ صحیح علاج، صفائی ستھرائی، انتظام اور عملہ کے خدمت کے جذبہ میں امریکہ کینیڈا کے ہسپتال سے کم نہ تھا۔ ڈاکٹر عامر شوکت نے بتایا کہ فیصل ہسپتال میں کرائے گئے ستر فیصد ٹیسٹ قطعاً غیر ضروری تھے اور باقی کے بہت سے رزلٹ وہ بیان کیے گئے تھے جو زندہ انسان کے لئے ممکن نہ تھے۔ اس کے بعد جب تک پاکستان رہا یہی تلقین رہی ”کنویں میں ڈوب کے مر جانا۔ یار تم پرائیویٹ ہسپتال نہ جانا“ ۔

اب میں الائیڈ ہسپتال کے ڈاکٹر عامر شوکت اور عملہ کے محبت بھرے فرض شناس عملہ کے احسانات کی یاد میں ڈوب چکا تھا۔

آہٹ نے چونکایا تو سامنے ناٹے قد کے بھاری بھرکم ڈاکٹر کے گاؤن میں ملبوس چینی شخص کو کھڑا پایا۔ مسٹر لئیق میں ڈاکٹر ٹیوون ہوں آپ کا آپریشن میں تھوڑی دیر میں کرنے والا ہوں۔ آپ کی پہلے لگی آئی سی ڈی کی جگہ اب سی آر ٹی ڈی ڈیوائس دل میں جاتی پرانی تاروں کے ساتھ ہی منسلک کی جائے گی اس کی کارکردگی کی صلاحیت پرانی سے بہت بہتر ہے اور یہ دس سے تیرہ سال تک کام دیتی ہے۔ سارا طریق کار سمجھانے بعد کی دیکھ بھال کی ہدایت دیتے پوری خوشی سے میرے سوالوں کا جواب دیتے وہ تو جا چکے تھے۔ اور میرے ذہن میں یو ٹیوب پہ دیکھے چینی جادو گروں کا ہیولا چھاتا جا رہا تھا۔

نصف گھنٹہ بعد آپریشن ٹیبل پر لیٹے میرے چہرے کے اوپر خیمہ نما پلاسٹک۔ ایک طرف سے نیلا کہ میں بائیں نہ دیکھ سکوں اور دوسری طرف سے شفاف لگایا جا چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب دائیں طرف چھاتی کے اوپر بائیں طرف آپریشن والی جگہ کے نیچے مخصوص پیچ لگا کے اس کے اوپر کوئی لوشن پوری ہتھیلی سے دائروں میں اس طرح مالش کرنے لگے کہ میں واقعی جادوگر کے کرتب دکھانے پہلے کے منتر پڑھنے اور اور ہاتھ گھمانے کے نظارہ کے تصور میں تھا۔

اس کے بعد ان کی نشتر بازی شروع ہوئی، بس ایسے لگ رہا تھا جیسے اسی صبح میرا دو سالہ پوتا حسب معمول میرے پیٹ پر ناخن پھیرتا رہا تھا۔ اور جب وہ نئی ڈیوائس فٹ کرنے لگے تو سائز بڑا ہونے کے باعث وہ جلد کو کھینچ رہے تھے۔ بس جیسے بقرعید کے روز یاسین قصاب بکرے کی کھال ہاتھ اور انگلیوں کی مدد سے نیچے کھینچا کرتا تھا۔

ڈاکٹر صاحب زخم پر ٹیپ نما پٹی لگاتے مجھے آئندہ چند روز کے ہدایتیں دے رہے تھے۔ درد محسوس ہونے پر ورنہ نہیں۔ ٹائیلانول (پیناڈول سمجھئے) کی گولی۔ پہلے دن دو بار پھر روزانہ ایک بار صاف صابن صاف تولیہ سے غسل واحد (معمول کی دواؤں کے علاوہ) دوا تھی۔ بستر پر پہنچتے چند منٹ بعد بھرپور کھانا سینڈ وچ جوس اور کسٹرڈ کی شکل میں کھا رہا تھا۔ اور تمام ضروری چیک اپ کرنے کے بعد تین دن بعد دوبارہ معائنہ کا اپوائنٹمنٹ کارڈ تھماتے نرس مجھے بیٹے کو بلانے کا کہہ رہی تھی۔

دل کے اس آپریشن کے صرف تین گھنٹہ بعد (کہ پاکستان میں شاید اب ایک دو سال سے شروع ہو گیا ہے جس کے چالیس پچاس لاکھ روپے اور امریکہ میں پینتیس سے پینتالیس ہزار امریکی ڈالر کا بل بنتا) میں صرف ڈاکٹروں اور نرسوں کا دلی شکریہ ادا کرتے اپنے بیٹے کے ساتھ کار کی اگلی نشست پر معمول کی طرح بیٹھا سوچ رہا تھا کہ موجودہ حکومت بھر پور کوشش کے باوجود ڈاکٹروں کی اکثریت کی ہٹ دھرمی خود غرضی یا بیوروکریسی کی سازش یا کیا۔ خیبر پختون خواہ تک میں ہسپتالوں کی اصلاح لانے میں تقریباً ناکام ہو چکی۔

عیدالفطر کے بعد آنے والی کورونا لہر میں ہمارا ایک جوان عزیز لاہور میں متاثر ہو گیا۔ پوری کوشش کے باوجود کسی سرکاری ہسپتال میں داخلہ نہ ملا جب کہ یاسمین راشد روزانہ اتنے بیڈ خالی ہونے کا اعلان کرتی تھیں۔ ایک مشہور ٹاؤن کے پرائیویٹ ہسپتال میں سفارش سے داخلہ ملا۔ تیس ہزار والا ٹیکہ تین سے پانچ لاکھ میں خریدا۔ پہنچانے والے کا خرچہ الگ (زیادہ امکان کہ سرکاری ہسپتال سے چوری شدہ)۔ اور پھر ہسپتال کے متعلقہ عملہ سے فیس طے گئی کہ ٹیکہ لگانے سے پہلے ویڈیو پہ دکھائے کہ وہی ٹیکہ ہے اور ویڈیو چلوا کے سامنے لگتے دیکھا جاتا کہ واقعی اصل ٹیکہ لگا دیا گیا۔۔۔ پھر بھی انتہائی نازک حالت تک پہنچے وینٹیلیٹر پر پڑے اس مریض کی جان بچ جانے کا ہی شکر ہے۔

کیا میرے وطن میں صرف محنت اور فرض شناسی سے کمائی حلال کی روزی ہی حرام رہ گئی ہے۔۔۔ یا خدا اس قوم پہ رحم فرما جو خود رحم کھانے کے قابل بھی نہیں رہی۔ جسے یہ تک احساس نہیں کہ بد ترین علمائے امت سے لے کر طوفانوں زلزلوں سیلابوں، جوؤں (کرونا) اور ٹڈی دل تک قرآن مجید میں بیان کردہ قوموں کو انذار میں سے شاید ہی کوئی ایسی رہ گئی ہو جو اس قوم پر نہیں آئی۔ نہیں آیا تو احساس ذمہ داری۔۔۔ پھر بھی ڈاکٹر عامر شوکت اور چند دوسروں کی مثال مکمل مایوس نہیں ہونے دیتی۔ کہ شاید۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).