انڈیا، چین کشیدگی: نئی دہلی کے پاس چین کے خلاف کیا عسکری آپشنز ہیں؟


انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت نے 24 اگست کو جو 31 الفاظ پر مبنی تبصرہ کیا تھا اسے انڈیا کے بیشتر اخبارات نے صفحہ اول پر جگہ دی ہے اور اس پر کافی مباحثہ جاری ہے۔

اس میں انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے کہا: ‘لداخ میں چینی فوج کے تجاوزات سے نمٹنے کے لیے فوجی آپشن بھی موجود ہے لیکن اسے اس وقت ہی اختیار کیا جائے گا جب فوجی اور سفارتی سطح پر مذاکرات ناکام ہو جائیں گے۔’

دفاعی سروسز میں شامل سابق فوجیوں میں سے شاید ہی کسی نے ان کے اس بیان پر تعجب کا اظہار کیا ہو۔

فوج کی شمالی کمان کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ڈی ایس ہوڈا نے کہا: ‘کیا سی ڈی ایس یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فوجی آپشن نہیں ہے؟ میرے خیال میں وہ صرف حقائق بیان کر رہے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا اور چین کی سرحدی علاقوں میں تعمیرات کی دوڑ، برتری کسے حاصل ہے؟

انڈیا چین سرحدی کشیدگی: سرد موسم کے لیے انڈین فوج کتنی تیار ہے؟

انڈیا اور چین کے درمیان تنازعے کی تین اہم وجوہات

‘کیا انڈیا چین کے جال میں پھنس چکا ہے؟’

انڈین فضائیہ کے نائب سربراہ کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ایئر مارشل انیل کھوسلہ کا کہنا ہے کہ ‘سی ڈی ایس نے جو کہا، اس میں مجھے کچھ غلط نہیں لگا۔ یہ ایک نپا تلا بیان تھا اور مجھے لگتا ہے کہ اسے تھوڑا بہت پہلے آنا چاہیے تھا۔’

چینی فوج کی قابلیت

جنرل راوت کے بیان کے مضمرات نکالنے سے پہلے ہمیں چین کے بارے میں بھی جان لینا چاہیے۔

چین کی زمینی سرحد 22 ہزار کلومیٹر اور ساحلی سرحد 18 ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے علاوہ جبوتی سمیت اس نے بیرونی ممالک میں اپنا بنیادی ڈھانچہ تیار کر رکھا ہے۔

انڈیا میں جہاں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ دفاعی فورسز کو علیحدہ طور پر کنٹرول کرتی ہیں وہاں چین میں ایک سینٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی) ہے۔ سی ایم سی فوج کا اہم حصہ اور اپنے فوجی دستوں کا کمانڈر کہا جاتا ہے اور اس کی سربراہی چیئرمین اور وائس چیئرمین کرتے ہیں۔

چینی صدر شی جن پنگ سی ایم سی کے چیئرمین ہیں۔

سی ایم سی چین میں ہر فوجی اداروں کو کنٹرول کرتی ہے۔ ان میں پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے)، پی ایل اے نیوی (پی ایل اے این)، پی ایل اے ایئر فورس (پی ایل اے ایف)، پی ایل اے راکٹ فورس (پی ایل اے آر ایف)، پی ایل اے سٹریٹجک سپورٹ فورس (پی ایل اے ایس ایف) اور پی ایل اے جوائنٹ لاجسٹک سپورٹ فورس (پی ایل اے ایل ایس اے ایف) شامل ہیں۔

انڈیا میں جہاں ہر فوج کی اپنی کمان ہے وہیں چینی فوج کے پاس جغرافیائی طور پر پانچ مختلف تھیئٹر آف کمانڈ (ٹی سی) ہیں۔ ان میں مشرقی ٹی سی، سدرن ٹی سی، ویسٹرن ٹی سی، ناردرن ٹی سی اور سینٹرل ٹی سی شامل ہیں۔

انڈین فوج

سنہ 2019 میں سکیورٹی سے متعلق جاری وائٹ پیپر میں چین کی قومی وزارت دفاع نے 2012 سے ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا:

مشترکہ فورسز نے اپنی صلاحیت میں تین لاکھ اہلکاروں کی کمی کی ہے جبکہ متحرک جوانوں کی تعداد 20 لاکھ ہے۔

بحریہ میں اگر تعداد کم کی گئی لیکن فضائیہ نے اپنے فوجیوں کی تعداد برقرار رکھی۔ اسی دوران بحریہ اور پی ایل اے آر ایف میں جوانوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔پی ایل اے آر ایف کے پاس چین کے جوہری اور روایتی میزائلوں کا ذخیرہ ہے جسے پہلے دوسری توپ خانہ فورس کہا جاتا تھا۔

سنہ 2012 سے چینی فوج پر کافی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ یہ رقم اچھی تنخواہوں، فوجیوں کی تربیت اور ان کے لیے بہتر کام کا ماحول پیدا کرنے، پرانے ہتھیار خرید کر نئے اسلحہ بنانے، فوجی اصلاحات اور مختلف سکیورٹی فورسز کے درمیان ہم آہنگی پر خرچ کی گئی ہے۔

اگرچہ بہت سے دفاعی امور کے ماہرین کو چین کے ان دعوؤں پر شکوک وشبہات ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چینی تکنیک ‘غیر مصدقہ’ ہیں اور ان کی سکیورٹی فورسز میں ‘جنگی تجربے’ کی کمی ہے۔

انڈیا کے ‘فوجی آپشن’ کا کیا مطلب ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈین فوج چین کے ساتھ 3،488 کلومیٹر طویل لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر خود کو دفاعی جنگ میں مشغول دیکھتی ہے۔

اس کا سیدھا مطلب سامنے سے آنے والے دشمن کو مارگرانے کی لڑائی ہے۔

جنرل ہوڈا نے کہا: ‘چین کے متعلق ہماری فوجی حکمت عملی پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔ ہم پاکستان کے بارے میں جارحانہ ہیں، ہم انھیں مختلف معاملوں میں دھمکیاں دیتے ہیں لیکن چین کو دھمکی دینے کی صورت میں ہم دفاعی حکمت عملی اپناتے ہیں اور ہم جنگ کی طرف جانے کا تصور بھی نہیں کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ایل اے سی پار جاکر حملہ نہیں کرسکتے۔ ضرورت ہو تو ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ انڈیا نے اس مقصد کے لیے ماؤنٹین اسٹرائک کور تشکیل دی ہے۔

چینی دراندازی کے جواب میں کیا انڈیا ‘جیسے کو تیسا’ کی حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے اور اس کی کچھ زمین پر قبضہ کرکے سودے بازی کرسکتا ہے؟

اس پر لیفٹیننٹ جنرل ہوڈا نے کہا: ‘اس طرح کے آپشن شاید پہلے اپنائے جاسکتے تھے۔ جیسے کو تیسا کی حکمت عملی کافی اشتعال انگیز نظر آ سکتی ہے لیکن میرے خیال سے ہم ان کا جواب دینے کی اچھی پوزیشن میں ہیں اور ہمارے پاس فوجی صلاحیت موجود ہے۔’

میں نے پوچھا کہ کیا لداخ کا جغرافیائی محل وقوع انڈیا کو سبقت دیتا ہے؟

اس کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ہوڈا نے کہا: ‘مشرقی لداخ کا علاقہ مسطح ہے اور کافی بلندی پر ہے۔ یہ ایل او سی کی طرح پہاڑی نہیں ہے۔ روڈ نیٹ ورک بھی اچھا ہے، زیادہ تر فوجی چوکیوں پر گاڑی کے ذریعہ نقل و حمل ہو سکتا۔ وہاں اور ہمارے لیے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ لداخ کا جغرافیائی محل وقوع انڈیا کے حق میں ہے۔ چین کا بنیادی ڈھانچہ بہت بہتر ہے اور اس سے انھیں ایک برتری ملتی ہے۔’

انڈین بحریہ

انڈیا کی بحریہ، فضائیہ کس قدر مضبوط ہے؟

اگر چین کے ساتھ سمندری خطے میں صورتحال خراب ہوتی ہے تو کیا ہوگا؟ اس پر بحریہ کے ایک سابق سربراہ نے بتایا کہ اس حالت میں انڈیا اس علاقے میں جائے گا جہاں وہ مضبوط پوزیشن میں ہے، جیسے بحر ہند۔

انھوں نے کہا: ‘اگر کوئی یہ کہے کہ بحریہ کو ساؤتھ چائنا سی میں چین پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا جائے گا تو مجھے حیرت ہوگی۔ ہم بحر ہند میں ہی چین پر برتری رکھ سکتے ہیں کیونکہ ہم اس علاقے کو جانتے ہیں اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہاں زیادہ ساز و سامان دستیاب ہوں گے۔’

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر انڈیا فوجی آپشن کی طرف بڑھتا ہے تو انڈیا فضائیہ کا استعمال سب سے بہتر ہوگا۔

ایک اندازے کے مطابق انڈین جہازوں کے ائیر بیس سے کم اونچائی پر پرواز کرنے کی وجہ سے زیادہ تیل اور ہتھیار ہوں گے۔ اسی کے ساتھ چینی فضائیہ تبتی پٹھار اور دیگر اونچی جگہوں سے پرواز کرے گی جہاں انتہائی باریک ہوا ہے، جس کی وجہ سے اسلحہ رکھنے پر ان کا زیادہ تیل خرچ ہوگا۔

لیکن بات بس اتنی سی نہیں ہے۔

مشرقی ایئر کمان کے سابق سربراہ ايئر مارشل (ر) کھوسلا نے کہا: ‘یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس ٹی 3 کی برتری ہے، یعنی ٹکنالوجی، ٹیرین (جغرافیہ خطہ) اور تربیت۔ تکنیکی طور پر وہ آگے ہیں لیکن دعوے اور حقیقی صلاحیت پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس خطے اور تربیت کا ہمیں فائدہ ہے لیکن وہ ان امور کو دیکھ رہے ہیں اور انھیں منظم طریقے سے حل کررہے ہیں۔ فرق کو کم کرنے کے لیے ہمیں اپنی صلاحیت میں قابلیت اور عددی طور پر اضافے کی ضرورت ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں پی ایل اے اے ایف نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔

ایئر مارشل (ر) کھوسلا نے کہا: ‘چینی فضائیہ پی ایل اے کا حصہ رہی ہے۔ کسی بھی فوج کی طرح اچھی طرح سے بنائی گئی ہے جس میں ضروریات کے سارے سازوسامان ہیں۔ چین کے معاشی طور پر ابھرنے کے بعد خلیجی جنگ کے دوران اس نے اپنی بحریہ اور فضائیہ کو تیزی سے جدید بنانا شروع کیا تھا۔ آج ان کی فضائیہ اپنی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کررہی ہے۔’

فوجی

انڈیا کو کہاں تیزی کی ضرورت ہے؟

مسٹر کھوسلا کا کہنا ہے کہ انڈیا پر چین کو ‘سب سے بڑی سبقت’ اس کی ‘دیسی دفاعی مینوفیکچرنگ’ بنیاد ہے۔

مینوفیکچرنگ کی سہولت کی وجہ سے اسلحہ کی سپلائی ملک سے ہی ہوسکتی ہے جب کہ انڈیا اس سمت میں کام کر رہا ہے لیکن مستقبل قریب میں اسے درآمد شدہ ہتھیاروں پر انحصار کرنا پڑے گا۔

اس کے علاوہ جب سائبر اور خلائی صلاحیتوں کی بات کی جاتی ہے تو وہان بھی چین کی برتری قائم ہے۔

چیف آف انٹیگریٹڈ ڈیفنس اسٹاف کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ‎ لیفٹیننٹ جنرل ستیش دوآ کہتے ہیں: ‘چین نے سائبر آرمی بنانے میں مہارت حاصل کرلی ہے اور اس علاقے میں اس کی صلاحیتیں ہیں جہاں ابھی ہم پہنچنے کے خواہاں ہیں۔ ہمارے فوجی دستوں کو بہترین صلاحیتوں کو لانا ہوگا۔۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ موجود ہے لیکن وہ ہمارے ساتھ کام کرنے کے بجائے کسی اور کے لیے کام کر رہے ہیں۔’

چین کے وائٹ پیپر میں ‘فوجی اصلاحات’ کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ جنرل دوآ نے انڈیا میں فوجی اصلاحات کے اپنے تجربات کو شیئر کرتے ہوئے کہا: ‘انڈیا میں اس وقت سائبر، خلائی ایجنسی اور اسپیشل فورسز کی ڈویژن موجود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ کمانڈ مضبوط اور منظم ہو۔ یہاں تک کہ سنہ 2013 میں بھی ہمیں ان خصوصی افواج کو متحرک کرنے کی اجازت مل گئ تھی لیکن ہم 2018 کے آخر میں ہی اسے فعال کرسکے۔ یہ بہت ہی کمزور کام تھا ۔اس طرح کی اسکیموں کے نفاذ میں تیزی لانے کی ضروت ہے۔ ہمیں تہ خانوں میں بیٹھ کر کام کرنا چھوڑنا چاہیے۔ جنگ کے طریقے مسلسل بدل رہے ہیں لہذا جو پرانے طرز پر عمل پیرا ہونے کے خواہاں انھیں بدلنے کی ضرورت ہے۔’

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp