اردو شاعری اور ہماری جنگ آزادی


اردو زبان و ادب خصوصاً شاعری اپنے ابتدائی دور سے ہی جہاں پیار و محبت کے نغمے سناتی رہی وہیں انتشار و احتجاج کے رنگ بھی اس میں نمایاں رہے۔ دراصل زبان کوئی بھی ہو اس کا ادب ہمارے جذبات و احساسات کا آئینہ ہوتا ہے چنانچہ یہاں بھی اس وقت جب مطلق العنان بادشاہوں اور شہنشاہوں کی حکومت تھی شعرا نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر احتجاج کی آواز بلند کی اس کی ایک بڑی مثال جعفر زٹلی کی ہے جس نے سکہ لکھ کر اپنی جان زیر طوق کردی۔ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جو عام احتجاجی روش بنی اس کا دورانیہ 1857ء سے 1947ء تک ہے۔ 1857ء کے خونچکاں دور میں بھی غالب جیسا مصلحت پسند شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ؎

بس کہ فعال مایرید ہے آج
ہر سلح شور انگلستاں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

دیکھا جائے تو ہماری جدو جہد آزادی اسی وقت سے شروع ہوچکی تھی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دھیرے دھیرے پورے ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ بہادر شاہ ظفر محض برائے نام بادشاہ رہ گئے۔ اس وقت ہمارے دانشوروں کو احساس ہوا کہ ہم پوری طرح انگریزوں کے غلام ہوچکے ہیں۔ 1857ء کا ہنگامہ احتجاج کی وہ پہلی کڑی تھی جس نے عام ہندوستانیوں کو آزادی کے حصول پر نہ صرف اکسایا بلکہ اس کی اہمیت کا احساس بھی دلایا۔

ادھر انگریزوں نے بھی شکنجہ کسنا شروع کیا چنانچہ سیاسی طور پر ہمارے قائدین سامنے آئے اور عوامی سطح پر اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ عوام میں جو ش و جذبہ بھرنے میں ہمارے شاعروں اور صحافیوں نے بہت اہم کردار ادا کیاچنانچہ مولانا آزاد، حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں اور اس طرح کے بہت سے بزرگوں نے اپنے اخبارات اور اپنی تحریروں کے ذریعے عوام الناس کونہ صرف آزادی کا احساس دلایابلکہ عملی طور سے احتجاج کی نمائندگی بھی کی۔

یہ موضوع بہت طویل ہے۔ یہاں میرا مقصد صرف آزادی میں اردوشاعری کی حصے داری کا جائزہ لینا ہے۔ غالب کا ذکر تو اوپر آ چکا ہے ان کے علاوہ میر مہدی مجروح اور بہادر شاہ ظفر کے علاوہ محمد حسین آزاد، برج نارائن چکبست اورعلامہ شبلی وغیرہ نے بہت کھل کے اپنی نظموں میں حکومت وقت کے خلاف لکھا۔ اکبر کی تو بیشتر شاعری طنز و مزاح کے لباس میں احتجاج سے عبارت ہے۔

انیسویں صدی میں جب احتجاج کی لے بہت تیز ہوئی تو اس وقت بہت سے شعرا نے کھل کے لکھنا شروع کیا۔ حد یہ ہے کہ جب یہ سرفروشان وطن نذر زنداں کیے گئے تو وہاں بھی انھوں نے نہ صرف مشاعرہ برپا کیا بلکہ مشاعرے میں بھی انقلاب کی ہی گونج سنائی دیتی رہی۔ اس زمانے میں ہندو مسلم اتحاد اپنے عروج پر تھاجس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 9191ء کے اوائل میں جب گاندھی جی نے ستیہ گرہ کی بنیاد ڈالی اس وقت مسلمانوں نے سوامی شردھانند کو جامع مسجد کے ممبر پر بٹھا کر ان سے تقریر کرائی۔

ادھر مسلمان امرتسر میں رام نومی کے جلوس میں برابری سے شریک ہوئے۔ جلیاں والا باغ کے حادثے میں مرنے والے ہر قوم کے لوگ تھے۔ اسی زمانے میں ترک موالات کی تحریک آئی چنانچہ عام ہندوستانیوں کو جیلوں میں بھر دیا گیا۔ اس وقت جیلوں میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا تھا اس کی روداد ہمیں حسرت موہانی کے کوائف میں بھی ملتی ہے جن کی طرفہ تماشا طبیعت نے مشق سخن بھی جاری رکھی اور چکی کی مشقت بھی۔ اس زمانے میں ہندوستانی قیدیوں کو صر ف ایک لنگوٹی، ایک جانگیہ اور ایک کرتا ملتا تھا۔ انہیں کھلے میدان میں نہانا پڑتا تھا یہی حال کھانے کا تھا کہ ایک ہی قسم کی بے مزہ دال اور ترکاری مہینوں ملتی تھی پھر بھی حریت سے سرشار یہ متوالے بغیر کسی غم کے ہنسی خوشی ان تکالیف کو اٹھا رہے تھے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو جیسا اہم سیاست داں کراچی جیل سے مہاتما گاندھی کو لکھتا ہے۔

”میرے رفقاء سے بھی میری طرح عام مجرموں سا سلوک کیا جاتا ہے۔ البتہ چوروں، ڈاکوؤں، عام مجرموں اور ہم میں امتیاز ضرور ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیا جاتا اور جیل کے قیدیوں سے بھی۔ لیکن ہم ہیں کہ قلب مطمئن رکھتے ہیں اور خوب مزے کرتے ہیں۔“

مشہور مزاحیہ شاعر مولوی محمد مصطفی خاں جو مداح اور احمق پھپوندوی تخلص لکھتے تھے جس زمانے میں فتح گڑھ جیل میں قید تھے فرماتے ہیں کہ

جیل خانے میں ہوں سسرال کی مانند احمق
کوئی تکلیف یہاں پر مجھے زنہار نہیں
وہی چرچے، وہی فکریں، وہی رونق ہے اے احمق
فتح گڑھ جیل کیا ہے کانگریس والوں کا دفتر ہے

اس زمانے میں لوگوں کا جو ش و خروش اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ قید و بند کی صعوبتوں کے درمیان بھی نہ صرف آزادی کے نغمے گا رہے تھے بلکہ زنداں میں مشاعرے بھی منعقد کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں یوپی اردو اکیڈمی نے ”مشاعرہ زنداں“ کے عنوان سے نومبر سن 1982ء میں جو کتابچہ شائع کیا ہے اسی کتابچہ میں جوش ملیح آبادی کی ایک نایاب نظم جو ”روزنامہ زمیندار“ لاہور کے 23 دسمبر 1921 کے شمارے میں ”لمعات جوش“ کے نام سے شائع ہوئی تھی اس میں جوش نے کمال بہادری سے انگریزوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ

گناہ یہ ہے کہ پیرو ہیں اپنے مذہب کے
خطا یہی کہ وہ حکم خدا کے ہیں پابند
قصور یہ ہے کہ رکھتے ہیں دل میں قوم کا درد
یہ جرم ہے کہ ہیں بھارت کے نامور فرزند
بہت ہی طیش ہے اس بات پر حکومت کو
غلام ہو کے خیالات اس قدر ہیں بلند
مقدمے کا تماشا دکھا کے دنیا کو
کیا ہے مالک ٹھیٹر نے سب کو جیل میں بند
مگر یہ طرفہ تماشا ہے دید کے قابل
اسیر طوق و سلاسل ہیں خرم و خورسند
جو راستے میں اسیری کے آگئے ہیں مقام
ہوا ہے اور بھی کچھ تیز حریت کا سمند

جہاں تک جو ش کا سوال ہے انھوں نے شروع سے ہی ”انقلاب“ کا نعرہ دیا اور ”ایسٹ انڈیا کے فرزندوں سے خطاب“ اور ”شکست زنداں کا خواب“ جیسی نظمیں لکھ کر عوام میں بیداری کی ایک لہر پیدا کی۔ ایسٹ انڈیا کے فرزندوں سے خطاب کا یہ بند بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

خیر اے سوداگرو اب ہے تو بس اس بات میں
وقت کے فرمان کے آگے جھکا دو گردنیں
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
وقت کا فرمان اپنا رخ بدل سکتا ہے
موت ٹل سکتی ہے اب فرمان ٹل سکتا نہیں
زنداں کے ان مشاعروں میں طرحی مشاعرے بھی ہوتے تھے۔ ایسے ہی ایک طرحی مشاعرے کے چند اشعار درج زیل ہیں۔
مولانا عارف ہسوی کہتے ہیں
حب وطن کے نغمے شعر و سخن کے چرچے
کیا کیا ہیں لطف حاصل زندان پرفتن میں
خواجہ عبدالحمیدشیدا ؔ کے یہ اشعار بھی خوب ہیں
ہندوستاں ہے گلشن، گاندھی ہے پھول اس کا
افسوس لٹ رہا ہے گل اس کے ہی وطن میں
محشر میں بھی عیاں ہو الفت مری وطن سے
دفنانا مجھکو یارو کھدر کے ہی کفن میں
رگھوپتی سہائے فراق ؔگورکھپوری کا یہ شعر بھی لائق ستائش ہے
ستم یہ اہل حکومت نے کس لیے ڈھایا
کہ راز انہیں کی خرابی کا اس میں مملوح تھا
عزیز احمد کے یہ اشعاربھی حریت سے عبارت ہیں
گیسوئے پرشکن میں چہرہ چھپا ہوا ہے
یہ وقت ہے دعا کا خورشید ہے گہن میں
لیلیئی حریت کو دل دے کے میں نے سمجھا
زنداں پکارتا ہے بس رہ چکے وطن میں
رتن لال زمرد سکندر آبادی کہتے ہیں
بے حیائی کے جینے سے تو ہے مرنا بہتر
جس کی عزت نہ ہو دنیامیں وہ انساں نہ ہوا
شری کانت مالویہ کہتے ہیں
شہیدان وطن کا خون لایا رنگ دنیا میں
ہوئے وہ مہرباں کچھ اور بھی نامہرباں ہوکر
وہ ”لا“ اور ”آرڈر“ کے نام پہ سب کو پکڑتے ہیں
چلے انصاف کرنے وہ بڑے نوشیرواں ہوکر
اندر جی ورما اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کرتے ہیں
خزانے بھر لیے لندن کے سب آہستہ آہستہ
اجاڑا ہند کو برطانیہ نے حکمراں ہوکر
چلے تھے یہ سمجھ کر ہند کا ہے مسئلہ آساں
بلائے جاں ہوا، ری ڈنگ کو یہ چیستاں ہوکر

بہرحال یہ تو اسیران فرنگ کے شعرا تھے جنہوں نے قید و بند کے دوران بھی شاعری کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ ان کے علاوہ بھی عام طور پر انقلابیوں کی آواز سے آواز ملا کر ساتھ دینے والے شعرا کی ایک بڑی تعدا د باہر موجود تھی جنہوں نے اپنے قلم اور اپنی فکر کا بے باکی سے اظہار کیا۔ مثلاً ظفر علی خاں کہتے ہیں کہ

وقت آ پہنچا ہے یا مرجاؤ یا آزاد ہو
تخت یا تختہ ہے حکم تاجدار انقلاب

ٍ مندرجہ بالہ سطور میں، میں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اردو زبان نے جہاں پیار و محبت کے نغمے گائے ہیں وہیں موقع پڑنے پر شمشیر و نشتر کا کا م کیا ہے اور احتجاج کا یہ رنگ ہر دور میں جب ظلم و زیادتی ہوئی ہے یا کسی کا حق مارا گیا ہے تو یہ آواز زیادہ بلند ہوئی ہے اور پورے وقار اور شدت کے ساتھ۔ اسی کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور اخلاقی سطح پر ہمیں آزادی کا احساس دلانے والوں میں علامہ اقبال کا بھی بڑا نام ہے۔ جنہوں نے نہ صر ف وطن کی عظمت کے گیت گائے بلکہ اپنے فکر و فلسفے کے ذریعے آزادی کی اہمیت کا بھی احساس دلایا۔

انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے آپسی اتحاد اور رواداری کو جو فروغ دیا اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال کے افکار دراصل جو بعد میں ترقی پسند تحریک کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں جس نے شعرا کے ایک بڑے طبقے کو حریت کی راہ پر گامزن کیا۔ جو ش کا ذکر اوپر آ ہی چکا ہے ان کے علاوہ مخدوم محی الدین، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی وغیرہ وہ شعرا ہیں جنہوں نے تحریک کے زیر اثر انقلابی شاعری کو ظلم کے خلاف استعمال کیا۔

بہرحال اردو شاعری جہاں ایک طرف حسن و عشق یا قلبی واردات کا آئینہ رہی ہے وہیں خارجی سطح پر بھی اس نے اپنی نشتریت سے عوام کے ذہنوں کو جھنجوڑا ہے اورآج بھی دنیا میں جب کہیں ظلم اور جبر کے بادل اٹھتے ہیں تو اردو شاعری ہمیں حوصلہ بخشتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).