نیلم احمد بشیر: رجحان ساز ادبی شخصیت


پاکستان کے نمایاں علمی ’ادبی اور فن کار گھرانے سے تعلق رکھنے والی اردو کی ممتاز افسانہ نگار‘ ناول نگار ’سفرنامہ نگار‘ خاکہ نگار اور شاعرہ نیلم احمد بشیر کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یوں تو ان کا پورا خاندان ہی فن کارانہ اوصاف سے مالامال ہے لیکن والد احمد بشیر سے ملنے والا علمی و ادبی سرمایہ نیلم احمد بشیر کا تخصص بنا۔ احمد بشیر کی تربیت نے نیلم کی شخصیت میں وہ خوداعتمادی پیدا کی جو آج بھی ہمارے یہاں کی بیشتر خواتین اہل قلم میں مفقود ہے۔

نیلم احمد بشیر نے زندگی کے سردوگرم کا جس ہمت اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا ’وہ قابل ستائش ہے۔ شادی کے بعدجبر کے ایک ایسے ماحول میں جہاں منفی ذہنیت کے سبب عورت کی عزت نفس کو پامال کیاجاتاتھا اور نیلم کی فن کارانہ صلاحیتیں ان کے رفیق حیات کو احساس کمتری میں مبتلا کرتی تھیں‘ نیلم نے حرف اور کتاب سے تعلق کو مضبوط کرنے میں ہی اپنی بقا کا راز پایا۔

نیلم احمد بشیر کے لہجے کی کاٹ اور خواتین کے حقوق کی خاطر ان کی جرات اور احتجاج ان کی تحریروں کی نمایاں خوبی ہے۔ ان کے یہاں ظلم و ستم کو خاموشی سے برداشت کرتی عورت کا تصور محال ہے۔ وہ ہمت اور حوصلے کی تحریک دیتی ایسی شاعرہ اور ادیبہ ہیں جو زندگی کے روشن پہلوؤں کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تاریک پہلوؤں کی بھرپور مذمت کرتی ہیں۔ ان کے اس تخلیقی اور سماجی شعور کو پروان چڑھانے میں ان کے گھرانے کے ادبی ماحول کے ساتھ ساتھ ان تمام حالات و واقعات کو بہت اہمیت حاصل ہے جو زندگی کے نشیب و فراز کی صورت میں نیلم کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔

نیلم کہانی بناتی نہیں بلکہ وہ ان کی رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے سماجی واقعات سے لے کر بین الاقوامی سطح تک کے معاملات کے مختلف پہلوؤں کو اس مہارت سے الفاظ کا روپ عطا کرتی ہیں کہ پڑھنے اور سننے والا دنگ رہ جاتا ہے ۔ انھیں ڈرے سہمے اور اپنے سماج کے حقائق سے نظر چراتے ادیب اور شاعر لمحہ بھر کے لیے بھی متاثر نہیں کر پاتے۔ وہ بے باک ’حق گو اور نڈر اہل قلم کے قبیلے کی نمایاں رکن ہیں۔ مظلوم طبقے کی بلند آواز‘ جس کا وصف معاشرتی حقائق کا بیان ہے۔

امریکہ میں طویل عرصے تک قیام کے سبب نیلم احمد بشیر کی تحریروں میں امریکی تہذیب و ثقافت کے رنگوں کی جھلک بھی ہے اور مشرقی و مغربی تہذیب اور معاشرتی رویوں کا تقابلی جائزہ بھی۔ نیلم کے ہاں عورت کے استحصال اور اس استحصال کے نتیجے میں رونما ہونے والے نفسیاتی تغیرات کا بیان نہایت عمدہ ہے۔ ان کے سفرناموں میں مزاح کی چاشنی موجود ہے۔ نیلم کے خاکے اور مضامین بھی شگفتگی اور سلاست کا نمونہ ہیں۔ بلاشبہ نیلم احمد بشیر ایک رجحان ساز شاعرہ اور نثرنگار ہیں جو اپنے افکارونظریات کے بیان میں مصلحت سے کام لینے کے خلاف ہیں۔

ان کے ادبی ذوق کی آب یاری ایک ایسے تن آور شجر کے سائے میں ہوئی جس کی موجودگی نیلم کی شخصیت کی نشوونما کے راستے میں رکاوٹ کا باعث نہیں بنی بلکہ انھیں اپنی سمت اور جہت کے تعین کی بھرپور شخصی آزادی حاصل رہی۔ ورنہ اکثر تن آور درختوں کے سائے میں پلنے والے پودے اپنے ذاتی تشخص سے محروم ہی رہتے ہیں۔ نیلم احمد بشیر ایک رجحان ساز علمی و ادبی شخصیت کی مالک ہیں جو تنگ نظری اور تعصبات کی فضا میں تازگی اور جدت کی پیام بر ہیں۔

بلاشبہ ہمیں ایسی سچی اور کھری علمی و ادبی شخصیات کی ضرورت ہے جو اپنی تحریروں کے ذریعے سماجی و نفسیاتی مسائل سے نبرد آزما ذہنوں کو زندگی کی جدوجہد سے روشناس کراسکیں۔ زندہ رہنے کا ڈھنگ سکھا سکیں اور سب سے بڑھ کر جبر کے مقابلے میں آواز بلند کرنے کی ترغیب دے سکیں۔ نیلم ہماری خواتین کے لیے مثال ہیں۔ دعا ہے کہ وہ اپنے مخصوص آہنگ میں اسی طرح زندگی کے تلخ وشیریں موضوعات کو لفظوں میں ڈھالتی رہیں۔ لفظوں کی حرمت کی امین ’انسانیت اور انسانی حقوق کی علم بردار اس ادیبہ اور شاعرہ کی خوشیوں کے لیے بہت دعا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).