سائیں ظہور احمد کا حق ادا کیا جائے


گزشتہ روز حسب معمول اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک ایک ایسی خبر پر نظر پڑی جس سے پڑھنے کے بعد دل افسردہ ہو گیا۔ پاکستان کے مشہور صوفی گلوکار سائیں ظہور احمد کے بارے میں رپورٹ تھی کہ حکومت پاکستان ان کے ساتھ ہاتھ کر گئی۔ خبر کچھ یوں تھی ”وفاقی حکومت سائیں ظہور کو ایوارڈ کی امید دلا کر بھول گئی، سائیں ظہور کی جگہ ایوارڈ کسی اور کو دے دیا گیا“ ۔ سائیں ظہور کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ ڈویژن نے ایوارڈ کی نامزدگی کا خط لکھا اور بتایا گیا کہ ان کا نام ایوارڈ کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے جبکہ وقت آنے پر انہیں ایوارڈ نہیں دیا گیا بلکہ ان کی جگہ کسی اور کو ایوارڈ دے دیا گیا ہے۔

آرٹسٹ ملک کا سرمایہ تو ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک اور کلچر کی پہچان بھی ہوتے ہیں۔ سائیں ظہور احمد گلوکاری میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں جس کا لوہا انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں منوایا۔ امریکہ، یورپ، انگلینڈ، ناروے، جاپان اور بھارت جیسے ممالک نے انہوں نے اپنی صوفی گائیکی کے ذریعے اپنی الگ پہچان بنائی۔ ہمسایہ ملک بھارت میں میوزک انڈسٹری کا سب سے بڑا نام ”ٹی سیریز“ بھی پیچھے نہ رہ سکا اور سائیں ظہور کی گائیکی کو مانتے ہوئے ان کے صوفی گانے ریکارڈ کیے۔

ٹی سیریز موسیقی کی دنیا کا وہ نام ہے جس کے ساتھ کام کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں لوگ لائنوں میں لگے ایک موقعے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ بھارت کا سب سے بڑا میوزک شو ”انڈین آئیڈل“ کو جیتنے والے گلوکار کو ٹی سیریز کے ساتھ صرف ایک گانا گانے کنٹریکٹ ملتا ہے۔ سائیں ظہور احمد کو 2006 میں بی بی سی ورلڈ میوزک ایوارڈ سے نوازا گیا اور سائیں ظہور احمد کی آواز کو ”وائس آف دی ائر“ کا خطاب دیا گیا۔ سائیں ظہور احمد نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ صوفیا اکرام کے مزارات پر گزارا جس کی وجہ سے ان کا گائیکی کا انداز بھی صوفیانہ ہے اور وہ صوفی کلام کو میوزک میں ڈھال کر اپنی منفرد آواز اور انداز سے اس طرح گاتے ہیں کہ سننے والے کسی الگ ہی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔

ماس کمیونیکیشن کے فائنل پروجیکٹ کے سلسلے میں سائیں ظہور سے ملاقات طے تھی۔ ان کا انٹرویو لینے جب ان کے گھر پہنچے تو ہمیں ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ کمرے میں سادہ سا قالین تھا، ایک طرف پچاس سال پرانے ڈیزائن کی کرسیاں پڑی تھیں، دیوار پر سائیں ظہور صاحب کی ”تمبی“ تھی۔ سائیں ظہور جب کمرے میں آئے تو سائیں ظہور بھی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔ بیٹھنے کے بعد بولے ”پتر میں ذرا اچا سننا واں، تے جہڑی وی گل کرنی اے تھوڑی جی اچی آواز وچ کرنا“ (میں اونچا سنتا ہوں، قوت سماعت کمزور ہے، جو بھی بات کرنی ہو اونچی آواز میں کرنا) ۔

میرے ساتھ میری کلاس کی دو لڑکیاں بھی تھیں۔ سائیں ظہور نے اپنے شفقت بھرے ہاتھوں سے ان لڑکیوں کے سر پر پیار دیا اور ہمارے ساتھ فرش پر بیٹھ گئے۔ انٹرویو شروع کرنے سے پہلے میں اس درویش انسان کو صرف دیکھتا رہا جس میں ذرہ برابر بھی غرور نہیں تھا، انا نہیں تھی۔ لگتا نہیں تھا کہ جس شخص کے ساتھ فرش پر بیٹھے ہیں وہ ان ممالک میں اپنا لوہا منوا چکا ہے جہاں جانے کے ہم جیسے لوگ صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔ انٹرویو ختم ہونے کے بعد ایک لڑکی نے سائیں ظہور سے فرمائش کی کہ بابا بلھے شاہ کا کلام سنا دیں جو آپ اپنی تنبی کے ساتھ خود بجا کر گاتے ہیں۔

سائیں تھوڑا سا مسکرائے، لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیرا، تنبی اٹھائی اور اس کی تاروں پر انگلیاں پھیر کر گانے میں مصروف ہو گئے۔ ایک ختم ہوا دوسرا شروع کر دیا، ایسے کرتے کرتے سائیں ظہور نے پانچ کلام سنا ڈالے اور ایک دفعہ بھی ماتھے پر بل نہیں آیا۔ سائیں ظہور ہم سب کو واپسی پر دروازے تک چھوڑنے آئے اور ہم سب طالبعلموں کو ایسے دعائیں دے رہے تھے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کو دعائیں دیتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک کی شوبز انڈسٹری کو سب سے زیادہ نقصان تھیٹر نے پہنچایا۔ ایک وقت تھا کہ تھیٹر میں پیش کیا جانے والا ڈرامہ کسی نہ کسی اخلاقی سبق پر ختم ہوتا تھا اور آج اسی تھیٹر میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اس کو سننے سے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے، ادھ پھٹے کپڑے پہنے فنکار اور فنکارائیں اپنے جسم کی نمائش کرتے ہیں تو عوام ان کو داد دینا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی عہدے داروں میں بھی ایسے ہی کچھ لوگ بیٹھے ہیں جو حقائق اور محنت کو پس پشت ڈال کر فحاشی کو فروغ دینے والے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور سچے لوگوں کا حق مار جاتے ہیں۔

وہ حکمران جو ٹک ٹاکرز اور ننگے ناچ دکھانے والوں کو اپنا مہمان بنائے رکھیں گے انہیں اہم ملکی سرکاری عمارتوں تک رسائی دیں گے، جن کے ساتھ فون پر گھنٹوں گپ شپ لگائیں گے ان سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ سائیں ظہور جیسے فنکار کو بھی اس کا حق دیں۔ حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ سائیں ظہور کو اس کا حق ادا کیا جائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).