کثرت خوشی کشید نہ کر پائی


وہ اپنی گاڑی پر روزانہ ادھر سے گزرتی تھی۔ آج ادھر کھڑی پھولوں والی لڑکی کو دیکھ کر اس نے گاڑی روکی۔ اس کو شروع سے پھول بہت پسند تھے۔ لڑکی کے نزدیک آنے پر اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ ایک لمحے کے لیے وہ اس کے معصوم حسن سے مرعوب ہو گئی۔ اس نے اپنے سر کے گرد پھولوں کا ہالہ جڑا تھا اور ہاتھوں میں گجرے اٹھا رکھے تھے۔ بھوری آنکھوں والی یہ پھولوں والی لڑکی ان پھولوں سے وابستہ نہ تھی۔ اس کو تو چند روپے چاہیے تھے تا کہ وہ وہ رات کی روکھی سوکھی روٹی لے کر جائے، خود سے بھی چھوٹے تین بہن بھائیوں کے لیے۔

وہ میڈم تھی بہت بڑی کالی کار میں جس نے اس کے پاس آ کر گاڑی روکی، پھول خریدنے کو ۔ پھول تو لے لیے لیکن ایک خواہش اس لمحے میں اس کے لیے پھانس بن گئی۔ دل کی اداسی اور بڑھ گئی۔ اس کو اپنے آباد دل کی یاد آئی۔ وہ اپنا شاداب وقت خریدنا چاہتی تھی۔ پھول تو خرید لیے لیکن دل کی ویرانی کا کیا کرے؟ اتنی کثرت اور اس کثرت میں بھی حسرت۔ پھولوں والی لڑکی بڑی یاس سے میڈم کو دیکھ رہی تھی۔ اس لمحہ عسرت میں جو دونوں جانب یکساں تھا، گاڑی میں بیٹھی خاتون اپنی ساری دولت دے کر اس لڑکی سے اس کا رنگ روپ خرید نا چاہتی تھی لیکن اس نے خود کو بے بس پایا۔ اور اس لڑکی کو اس لمحے میں اس ٹھنڈی گاڑی کی خواہش نے اپنے پاس موجود حسن و جوانی کی دولت سے بیگانہ کر دیا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔ رنگ و روپ کی کثرت میں دولت کی حسرت تھی اور دولت کی کثرت میں رنگ روپ کی حسرت تھی۔

سمیوئل بیکٹ نے لکھا تھا، دنیا میں آنسو ایک مستقل مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جب بھی کہیں کوئی رونا شروع کرتا ہے تو کہیں کسی اور کے آنسو رک جاتے ہیں اور بالکل ایسا ہی معاملہ مسکراہٹ کے ساتھ بھی ہے۔

پوری زندگی کبھی کبھی ایک نقطے پر ایک یاد کی صورت اکٹھی ہو جاتی ہے۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس کو یاد آیا ایک کے بعد دوسری خواہش، سب چلتا جا رہا ہے۔ حصول کا نشہ چھایا ہے۔ کبھی کبھار اندر سے آواز آتی ہے اب بس کریں۔ جو چھاؤں بن گئی ہے اس میں بیٹھ سستا لیں۔ خود سے بچھڑے عرصہ بیتا، کبھی خود سے بھی مل لیں۔ یہ جو سارا وقت بیچ بیٹھے ہیں ’اور‘ کے حصول کے پیچھے، اب اس کی بولی لگا کر واپس لے لیں۔ گھاٹے کا سودا تو نہیں، سب کچھ تو حاصل کر لیا جس کی خواہش تھی۔

کچھ سمے یہ آواز بھلی لگی لیکن پھر سے ایک آواز آئی، نہیں، اور۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ اور آگے جانا ہے۔ ابھی تو یہ بھی چاہیے، وہ بھی چاہیے۔ ابھی تو یہ بھی کرنا باقی ہے، وہ بھی کرنا باقی ہے۔ وہ میری منزل ذرا اور آگے ہے۔ مجھے اس سے بھی آگے جانا ہے۔ اور خالق نے انسانیت کے اجتماعی نفس کو خبردار کیا تھا۔ ۔ ۔ ”زیادہ کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے“ ۔

رکو کہ یہ مزید کی خواہش، کثرت کا انتہائی مقام تمہارا اپنا مقبرہ ہے۔ اتنی کثرت لیکن پھر بھی من چاہی ہر چیز نہ خرید سکیں۔ اس پھولوں والی لڑکی کو یہ پھول واپس کر دو اور اپنی ساری دولت دے کر اس سے اس کا یہ وقت لے لو۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اس کار والی امیر خاتون کو اپنا آباد اور پھولوں سا کھلتا وقت دے دو اور اس سے اس کی آسائش بھری زندگی لے لو کیا یہ ممکن ہے؟

دنیا ہمیشہ سے ایک ایسے خیالی نظام کی تلاش میں رہی جس میں کوئی کسی سے کم نہ ہو۔ سب کے برابر کے حقوق، مقام اور وسائل ہوں۔ لیکن خالق کی اسکیم کچھ اور ہے کسی کو کثرت دے دی، کسی کو قلت۔ دونوں کی انتہا پر کمی ہے۔ محرومی کا تجربہ محض حاشیے کے لوگ ہی نہیں کرتے بلکہ وسط میں بسے محفوظ لوگ بھی نہ ہونے کے کھوکھلے احساس کا تجربہ کرتے ہیں۔ اور یہ صرف دو افراد کی ہی کہانی نہیں یہ معاشرے کے دو حصے ہیں۔ دیکھنے کو وسط میں کثرت ہے اور حاشیے پر حسرت۔

لیکن انسان امیر ہے یا غریب، اپنی جبلتوں میں ایک ہے۔ دونوں کو پائیدار اور ابدی خوشی چاہیے۔ یہاں اشتراک کا کلیہ لگا دیکھیں۔ سرمایہ داری کے نظام میں تھوڑا مختلف اشتراک۔ یوں کہ کثرت دلدل نہ بن جائے۔ کسی محروم کا ہاتھ تھام لیں۔ اس کا سہارا بن جائیں۔ چلو اس پھولوں والی لڑکی کو چند روپے دینے کی بجائے کیوں نہ اس کو کوئی ہنر سکھا دیا جائے۔ اس کی تعلیم و تربیت کا کوئی مستقل انتظام کر دیا جائے۔ کیسا حسین اشتراک ہو یہ خوشی اور امید کا ۔ منافع دونوں کا حصہ بن جائے۔ عسرت میں ڈوبے شباب کو خوشی مل جائے، اور عشرت میں افسردہ، زبوں حال وقت آخر کو امید مل جائے۔ کہ کثرت کی وحشت سے جو دل بنجر ہو جاتا ہے، کسی کی آنکھوں سے چھلکتی خوشی کے آنسوؤں سے وہی دل پھر سے سیراب ہو جائے۔

نغمانہ حسیب
Latest posts by نغمانہ حسیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).