نوحہ ”گھبرائے گی زینب“ کا شاعر چھنو لال دلگیرؔ


اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ دنیا کا سب سے مشہور نوحہ کون سا ہے تو میں بلا تامل کہوں گا کہ ”گھبرائے گی زینب“۔ یہ نوحہ ساری دنیا میں مجلسِ شام غریبا ں کا لازمی جز بن گیا ہے۔ اگر کسی شامِ غریباں کی مجلس یا ریڈیواور ٹی وی سے نشر ہونے والے پروگرام کے آخر میں یہ نوحہ نہ پڑھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی کمی رہ گئی ہے۔

غالباً 1956 ء کے محرم میں ریڈیو پاکستان سے یہ نوحہ مرحوم ناصر جہاں نے اپنی پرسوز آواز میں پہلی بار پڑھا تھا۔ اس نوحے کو عوام میں اتنی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کے بعد جب تک ناصر جہاں حیات رہے، وہ خود یہ نوحہ پڑھتے رہے اور اب ان کے صاحبزادے اسد جہاں اور ان کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے نوحہ خوان یہ نوحہ پڑھتے ہیں۔

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نوحہ آلِ رضا صاحب کا لکھا ہوا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نوحہ لکھنو کے ایک شاعر چھنّو لال دلگیرؔ کا لکھا ہوا ہے۔ جو 1888 ء میں مطبع نول کشور سے شائع ہونے والی کلیاتِ دلگیر کی پہلی جلد میں موجود ہے۔ میاں دلگیر 1847ء میں وفات پاگئے تھے۔ گویا کہ یہ نوحہ تقریباً دوسو سال پرانا ہے اور جب ہی سے لکھنو اور اس کے اطراف میں برپا ہونے والی مجالس میں پڑھا جاتا رہا ہے۔ مگر ناصر جہاں صاحب کی پر تاثیر آواز اور ریڈیو پاکستان کی نشریات کے ساتھ یہ نوحہ دنیا بھرمیں مقبول ہوگیا۔

لالہ چھنو لال کی اصل تاریخ پیدائش کہیں درج نہیں ہے مگر مختلف تذکروں کی بنا پر محققین نے 1780- 1781 عیسوی مانی ہے۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور لکھنو ہی میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ ان کے والد کا نام منشی رسوا رام تھا اور ان کا تعلق راجہ جھاؤ لال اور راجہ میوہ رام کی سکسینہ کایستھ برادری سے تھا۔ راجہ جھاؤ لال نواب آصف الدولہ کے زمانے میں عہدۂ نیابت پر فائز تھے۔ انہوں نے ٹھاکر گنج میں ایک شاندار امام باڑہ اور عالی شان مسجد تعمیر کروائی تھی جو اب تک قائم ہے۔ ان عمارتوں کے علاوہ ان کا بنوایا ہوا جھاؤ لال کا پل بھی لکھنو میں بہت مشہور ہے۔

راجہ میوہ رام کے والد کا نام نول کشن تھا۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اپنا نام ہدایت علی رکھ لیا۔ نصیرالدین بادشاہ نے افتخار الدولہ کا خطاب دے کر اپنا دیوان مقرر کرلیا۔ تاریخ اودھ کے مطابق میوہ رام ایام محرم میں تعزیہ داری صدق دل سے کرتے تھے اور دو تین لاکھ روپے محرم میں خرچ کرتے تھے۔ میوہ رام افتخار الدولہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ آخری عمر میں وہ ترک دنیا کرکے کربلائے معلی میں جاکر روضۂ اقدس کے کلید بردار ہوکر وہیں کے ہوگئے۔ کربلائے معلی میں ہی 1867 عیسوی میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

Mir Anees in Hyderabad in 1871

لالہ چھنو لال نے اس وقت کے دوسرے شعرا کی طرح شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے کی۔ اور طربؔ تخلص اختیار کیا۔ شیخ امام بخش ناسخ ؔسے استفادہ کرتے تھے۔ تیس برس کی عمر میں ان کا شمار لکھنو کے بہترین شعرا میں ہونے لگا تھا۔ نواب سعادت علی خاں کے مصاحبین میں شامل تھے۔ نواب صاحب نے انہیں طرح طرح کی نوازشوں سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا تھا۔ برسوں تک ان کی سرکار سے وابستہ رہے۔ نواب سعادت علی خاں کے انتقال کے بعد انہوں نے دربار چھوڑ دیا۔ طبیعت میں بدلاؤ آ گیا۔ غزل گوئی ترک کرکے سلام اور مر ثیہ گوئی کی طرف راغب ہو گئے۔ اسلام قبول کر کے اپنا نام غلام حسین رکھ لیا اور صرف سلام اورمرثیہ لکھنے لگے۔ طربؔ تخلص ترک کرکے دلگیر ؔ تخلص اختیار کیا اور تعزیہ رکھنا اور مجالس بپا کرنا شروع کردیں۔ اور پھر ساری عمر مدح اہل بیت میں گزار دی۔

شیفتہ نے دلگیر ؔکے تبدیلیِ مذہب کی وجہ یہ بتائی ہے کہ چونکہ آئمۂ معصومین علیہ السلام سے انہیں بہت زیادہ عقیدت تھی اس لئے اپنے آبائی مذہب کو ترک کرکے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اور پھر بقول محسن لکھنوی ”اپنا دیوان موتی جھیل عیش باغ لکھنو میں ڈبو دیا“۔ دلگیر بسیار گو تھے۔ رجب علی بیگ سرورؔنے ”فسانۂ عجائب“ میں انہیں تمام مرثیہ گویوں پر فوقیت دی ہے۔ کیونکہ انہوں نے قلیل مدت میں سلام اور مرثیوں کا دیوان کثیر مرتب کیا تھا۔

سرور ؔلکھتے ہیں کہ ”مرثیہ گو بے نظیر میاں دلگیر صاف باطن نیک ضمیرخ لیق فصیح مردِ مسکین مکروہاتِ زمانہ سے کبھی افسردہ نہ دیکھا۔ ا للہ کے کرم سے ناظم خوب سکندر طالع صورتِ گدا بارِ احسان اہل دول کا نہ اٹھایا۔ عرصۂ قلیل میں مرثیہ سلام کا دیوان کثیر فرمایا۔ “۔

ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کی تحقیق کے مطابق ان کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مرثیوں کی تعداد چار سو سترہ ہے۔ مطبع نول کشور نے ان کے سلام اور مرثیوں کی چھ جلدیں شائع کی تھیں۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ساتویں جلد بھی شائع ہوگئی تھی۔ مگر وہ اب کہیں دستیاب نہیں ہے۔ چھ جلدیں راجہ صاحب محمود آباد کے کتب خانے میں اور لکھنو کی امین الدولہ پبلک لائبریری میں موجود ہیں۔ اور پانچ جلدیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائیبریری میں موجود ہیں۔ ان شائع شدہ سلاموں اور مرثیوں کے علاوہ ان کا کافی غیر مطبوعہ کلام مخطوطات کی شکل میں پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب صاحب اور راجہ صاحب محمود آباد کے کتب خانوں میں محفوظ ہے۔ کتب خانہ سالار جنگ میں بھی ان کا قلمی غیر مطبوعہ کلام مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ ان میں سب سے پرانا مرثیہ اٹھارہ سو بائیس عیسوی کا مکتوبہ ہے۔ ڈاکٹر اکبر حیدری صاحب کے اندازے کے مطابق اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے سلام، مرثیوں، مثنویوں اور قطعات پر مشتمل جملہ اشعار کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے جو اب تک محفوظ ہے۔

دلگیر کے مراثی میں میر انیس کے مراثی کی سی روانی نظر آتی ہے اور اکثر ان کے مرثیوں پر میر انیس کے مرثیوں کا گمان ہوتا ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں اپنے وطن بلرام پور میں یہ بند میر انیسؔ کے نام ہی سے سنا تھا۔

گزرِ منزلِ تسلیم و رضا مشکل ہے

سہل ہے عشقِ بشر عشقِ خدا مشکل ہے

وعدہ آسان ہے وعدے کی وفا مشکل ہے

جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے

یہ فقط امر ہوا فاطمہ کے جانی سے

مشکلیں جتنی بڑھیں، جھیلیں وہ آسانی سے

یہ مصرع تو ضرب المثل ہے کہ … جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے۔ میاں دلگیر کا ایک اور نوحہ لکھنؤ میں بہت مقبول تھا۔ جس کا ایک شعر مجھے یاد ہے۔

کہتی تھیں بانو الہی خیر ہو وارث کی آج

سر سے کیوں میرے گری جاتی ہے چادر بار بار

میاں دلگیر کے ہم عصر مرثیہ گو شعرا میں میر خلیقؔ (والد میر انیس) میر ضمیرؔ (ا ستاد مرزا دبیر) اور مرزا فصیح جیسے قادرالکلام استادان فن شامل تھے۔ مگر میاں دلگیر کے کلام کو جو مقبولیت اور قبولیت حاصل ہوئی وہ ان استادوں میں سے کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ دلگیر کا کلام عوام میں فصاحت و بلاغت اور اظہار بیان کے سبب بے حد مقبول ہوا۔ اسی لئے کئی کئی مرتبہ شائع ہوا۔ داکٹر اکبر حیدری کاشمیری کے مطابق اٹھارہ سو ستانوے عیسوی تک جتنی جلدیں میاں دلگیر کے سلام اور مرثیوں کی شائع ہوئیں کسی اور مرثیہ گو شاعر کی نہیں ہوئیں۔ ان کے کلام کی مقبولیت اور شہرت اس حد تک تھی کہ اس زمانے کے سب سے مشہور و ممتاز سوز خوان امیر علی اور سلطان علی خاں ان کے سلام اور مرثیے سوز کے لہجے میں پڑھتے تھے اور ان کی سوز خوانی کی شہرت بھی اسی لیے تھی کہ میاں دلگیر کا کلام پڑھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں دلگیر کی زبان میں لکنت تھی اس لئے وہ اپنا کلام خودمنبر پر بیٹھ کر نہیں پڑھتے تھے۔ یا تو ان کے شاگرد تحت الفظ میں پڑھتے تھے یا پھر زیادہ تر سوز خوان پڑھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں دلگیر نواب سعادت علی خاں اور غازی الدین بادشاہ کے زمانے کے مرثیہ گویوں کے سرتاج تھے۔

مرزا دبیر میاں دلگیر کا بہت احترام کرتے تھے۔ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ مرزا دبیرؔ میاں دلگیرؔ سے استفادہ کرتے ہیں۔ کسی نے مرزا دبیر سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا گو کہ وہ میرے استاد نہیں ہیں مگر اگر ہوتے تو یہ بات میرے لئے قابل فخر ہوتی۔ میاں دلگیر کے کلام پر زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔ یہ تو مشکل نظر آتا ہے کہ ان کے مرثیے دوبارہ کتابی شکل میں شائع ہوسکیں گے مگر رثائی ادب کے محققین کو ان پر مزید کام کرنا چاہیے۔ خدا بھلا کرے کینیڈا کے اصغر مہدی اشعر صاحب کا کہ جنہوں نے اپنی ویب سائٹ۔ emarsiya.com پر میاں دلگیر کے ایک سو سڑسٹھ ( 167 )مرثیے اپ لوڈ کردیے ہیں۔

میاں دلگیر کا انتقال انہتر برس کی عمر میں سن 1264 ھ۔ مطابق 1847ء، لکھنو میں ہوا تھا۔ اسیرؔ نے تاریخ وفات کہی۔

آہ آہ از جہانِ فانی شد

مرثیہ گوئے شاہ عرش نظیر

گفت ہاتف اسیرؔ تاریخش

وائے دلگیرؔ عاشقِ شبیرؑ

1264 ھ

میر تقی میرؔ کی طرح میاں دلگیر کی قبر کا بھی صحیح پتہ نہیں ہے۔ غالباًیہ انیس سو اٹہتر یا اناسی کی بات ہے جب میں لکھنو یونیورسٹی کا طالب علم تھا، جناب کیفی ؔاعظمی لکھنو آئے ہوئے تھے۔ میں ان کے ساتھ پرانے لکھنو کی طرف جارہا تھا۔ نخاس میں چڑیا بازار کے قریب بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہماری کار آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ کیفی صاحب نے سڑک کے کنارے بنی ہوئی ایک ٹیڑھی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ یہ قبر لکھنو کے ایک بڑے شاعرچھنو لال دلگیر ؔکی ہے جن کا نوحہ “گھبرائے گی زینب” بہت مشہور ہے۔ کچھ عرصے بعد جب میں ادھر سے گزر رہا تھا تو میں نے رک کر اس پختہ ٹیڑھی قبر کو بغور دیکھا۔ مگر اس پر کوئی کتبہ نصب نہیں تھا اس سے یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ قبر کس کی ہے مگر لکھنو کے پرانے باشندے کہتے تھے کہ یہ قبر میاں دلگیر کی ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).