کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟


اپنے پچھلے مضمون میں، میں نے انڈیا کے ساتھ کشمیر کے معاہدۂ الحاق کی قانونی حیثیت پر بات کی اور دیکھا کہ فٹزماریس کی قانونی رائے یہ تھی کہ مہاراجہ الحاق کے وقت فیصلہ کرنے کے لیے آزاد نہیں تھے؛ مہاراجہ کے پاس اپنی ریاست کا مکمل کنٹرول نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہ الحاق پر عمل درامد کا اپنا وعدہ پورا کرنے کے اہل نہیں تھے، اور الحاق مشروط تھا۔

آج ہم ان نکات پر بات کریں گے: 1947 کی ہند پاک جنگ، انڈیا کی طرف سے آئینی طور پر کشمیر کے رجواڑے کو انڈیا کا حصہ بنانے کی کوشش، وہ خصوصی حیثیت، جو کشمیر کو انڈین آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A کے تحت حاصل تھی، اسے کس طرح اور کن حالات میں ختم کیا گیا۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان منقسم ہونے کے باوجود آئینی طور پر کشمیر کو انڈیا میں ضم کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ انڈیا کے پاس کشمیر کے پورے علاقے کا کنٹرول نہیں تھا۔ تاہم پاکستان اور نہ ہی چین نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو آئینی طور پر اپنے مملک میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے۔

مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ

سنہ 1947 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد کشمیر کا رجواڑہ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تقسیم ہو گیا۔ سنہ 1948 میں انڈیا نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے رجوع کیا اور پاکستان کے خلاف شکایت درج کی۔

یہ بھی پڑھیے

جب کشمیر ’ایشیا کے سب سے بڑے بدمعاش‘ کو پچھتر لاکھ روپے میں بیچ دیا گیا

مہاراجہ پر کیا دباؤ تھا؟ کشمیر کے انڈیا سے الحاق کے آخری دنوں کی کہانی

انڈین فوج اور حکومت کے باہمی تنازعات اور 65 کی جنگ کی ’سب سے بڑی غلطی‘

اس کی وجہ کچھ حد تک کشمیر کے رجواڑے پر ہونے والا قبائلی حملہ تھا۔ جہاں تک انڈیا کا سوال تھا، اس کی نظر میں سکیورٹی کونسل کے سامنے کیس یہ تھا کہ پاکستان مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی حمایت کر کے کشمیر کے رجواڑے میں انڈین بالادستی کے خلاف جارحیت کی حمایت کر رہا تھا۔

اپنی شکایت میں انڈیا نے کشمیر کے حتمی الحاق کے سوال کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طے کرنے کا عہد کیا، لیکن تب جب حملہ آوروں کو ریاست سے بیدخل کیا جائے اور حالات معمول پر آ جائیں۔

پاکستان نے اپنی جوابی شکایت میں انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کو چیلینج کیا اور انڈین فوج کو کشمیر بھیجنے کے خلاف احتجاج کیا۔

ان ابتدائی شکایات کے بعد سکیورٹی کونسل نے کشمیر کے رجواڑے سے متعلق 20 قراردادیں منظور کیں۔ بین الاقوامی غور و فکر کے بعد سکیورٹی کونسل میں قرارداد 47 (1948) منظور کر لی گئی، جو اس کے بعد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی تمام بین الاقوامی کوششوں کے لیے مرکزی ریفرنس بن گئی۔

اس قرارداد کے تحت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دو سفارشات کی گئیں، کشمیر سے فوجوں کا انخلا اور اس کے بعد اس کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے رائے شماری۔

اس قرارداد میں پاکستان سے تمام قبائلیوں اور افواج کے انخلا کو یقینی بنانے کو کہا گیا اور ساتھ ہی لگ بھگ تمام انڈین فوجیوں کو بھی کشمیر سے نکالے جانے کو کہا گیا۔

خطے کو غیر مسلح کرنے کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے رائے شماری کے لیے ایک ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جانا تھا اور اس طرح کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلے کرنے کا حق ملتا۔

جولائی 1948 میں انڈیا اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن (یو این سی آئی پی) نے غور و فکر کے بعد ایک منصوبہ پیش کیا جس کے تحت جنگ بندی اور فوجی انخلا کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم انڈیا نے یہ کہہ کر اس منصوبے کو رد کر دیا کہ ان کی نظر میں کشمیر کے رجواڑے پر پاکستان نے حملہ کیا تھا اور وہ چاہتا ہے کہ منصوبہ اس بات کو واضح کرے۔ انڈیا نے اس منصوبے کو ’غیر معقول‘ قرار دے کر اس پر عمل کرنے کے لیے تعاون سے انکار کر دیا۔

دوسری طرف پاکستان کو خدشہ تھا کہ شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں عبوری حکومت اور پیچھے رہ جانے والی انڈین فوج رائے شماری کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

اس کے بعد منظور ہونے والی سکیورٹی کونسل کی تمام قراردادوں میں خطے کو غیر مسلح کرنے اور قرارداد نمبر 47 کے رائے شماری کے مطالبے کو دہرایا گیا تاہم ایسا آج تک نہیں ہو پایا ہے۔

اس کے برعکس انڈیا اور پاکستان اب تک 1965، 1971 اور 1999 میں جنگیں لڑ چکے ہیں، اور بات جوہری تصادم تک بھی پہنچی ہے ۔

اس دوران سرحدوں پر بھی کئی بار دراندازی ہوئی اور چین نے 1962 کی انڈیا-چین جنگ کے دوران اکسائی چن پر قبضہ کر لیا۔

اکسائی چن بھی کشمیر کے رجواڑے کا حصہ تھا۔ چین وہاں کا نظام شنجیانگ کے خود مختار علاقے کے حصے کے طور پر چلاتا ہے۔ انڈیا دعویٰ کرتا ہے کہ اکسائی چن انڈیا کا حصہ ہے (لداخ کے خطے کا)، جس پر اس نے سنہ 1947 میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔

پانچ مئی 2020 سے انڈیا اور چین کے درمیان لداخ کی پینگانگ جھیل کے قریب واقع وادی گلوان میں اور سکم کے ناتھو لا پاس پر فوجی کشیدگی جاری ہے۔

تازہ ترین فوجی مذاکرات میں چین نے وادی گلوان (مشرقی لداخ) پر دعوی کیا ہے۔ چین لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) پر جاری سرحدی تنازع پر زیادہ بات نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو آئینی طور پر انڈیا کا حصہ بنانا

سن 1947 اور 1949 کے درمیان انڈیا نے کشمیر کے رجواڑے پر اپنے ’غیر قانونی‘ قبضے کو ہند نواز حکومتوں کے ذریعے مضبوط کرنا شروع کیا۔ سن 1950 کے بعد انڈیا نے کشمیر کو آئینی طور پر ملک کا حصہ بنانا شروع کیا۔ اس ضمن میں پانچ اہم قدم اٹھائے گئے:

  • پہلا، کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے قیام کے ذریعے ایک نامزد حکومت کی تعیناتی
  • دوسرا 1950 میں انڈین آئین میں شق 370 کی شمولیت
  • تیسرا، 1952 میں نامزد حکومت اور انڈیا کے درمیان ’دلی معاہدے‘ پر دستخط
  • چوتھا، 1957 میں کشمیر کے نئے آئین کا اطلاق اور 1939 کے پرانے آئین کو ختم کرنا،
  • اور پانچواں، 1975 میں اندرا شیخ معاہدے پر دستخط۔

آئینی طور پر اس طرح کشمیر کو انڈین اتحاد کا حصہ بنانے سے پہلے اقوام متحدہ میں کشمیر کے معاملے پر ڈیڈلاک تھا، جس سے انڈیا کو اپنے منصوبے پر عمل کرنے کا صحیح موقع مل گیا۔

شیخ عبداللہ

شیخ عبداللہ سنہ 1949 میں گاندھی پارک میں خطاب کرتے ہوئے۔ شیخ عبداللہ ایک خودمختار کشمیر کے حامی تھی جس کا انڈیا کے ساتھ اتحاد ہو

الحاق کے فوراً بعد کشمیر کے حالات 1947 -1949

متنازع الحاق کے بعد کشمیر کو انڈین آئین کے حصہ اوّل (اتحاد اور اس کا علاقہ) کے تحت انڈیا میں شامل کیا گیا اور اسے پہلے شیڈول میں پارٹ بی ریاستوں میں جگہ دی گئی۔ پہلے شیڈول میں ریاستوں اور اتحادوں کے نام بیان کیے گئے ہیں اور اس کے مطابق ریاستوں اور علاقوں کے چار حصے ہیں۔ پارٹ اے، پارٹ بی، پارٹ سی اور پارٹ ڈی۔ پارٹ بی ریاستوں کے حاکم راجے مہاراجے تھے اور ایک بار تعینات کیے جانے کے بعد وہ عام حالات میں تاعمر اس عہدے پر برقرار رہ سکتے تھے۔

پارٹ بی ریاستوں کے لیے یہ دفعات ان انڈین ریاستوں کے لیے بنائی گئی تھیں، جن کی برطانوی ہندوستان میں خصوصی حیثیت تھی۔ پارٹ بی کی ان ریاستوں میں بھی کشمیر کو راجستھان اور ٹراونکور کوچن جیسے رجواڑوں سے الگ ایک خاص مقام حاصل تھا۔ کشمیر بھی ان ہی کی طرح ایک رجواڑا ضرور تھا لیکن انڈین آئین کے پارٹ سات کی دفعات کا اطلاق دوسرے رجواڑوں کے برعکس کشمیر پر نہیں تھا۔

وفاقی حکومت کے پاس کشمیر کے بارے میں وفاقی اور کنکرنٹ لسٹوں میں درج شعبوں پر قانون سازی کا اختیار نہیں تھا، حالانکہ دوسرے رجواڑوں کے سلسلے میں اسے یہ اختیار حاصل تھا۔

تاہم سنہ 1956 میں ہونے والی ساتویں آئینی ترمیم کے تحت ان میں سے تین کیٹیگریز (پارٹ اے، پارٹ بی اور پارٹ سی ریاستوں) کو ختم کر دیا گیا اور ریاستوں کو لسانی بنیادوں پر منظم کیا گیا۔ اس سے یہ بھی ہوا کہ کشمیر کے حوالے سے انڈین آئین کا پارٹ سات منسوخ ہوگیا اور وفاق کے پاس صرف ان تین شعبوں میں قانون سازی کا اختیار تھا جو معاہدہ الحاق میں طے ہوئے تھے۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات۔ یعنی اندرونی معاملات پر ریاست کے حاکم کو ہی اختیار تھا۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ میں انڈین وفد کے سربراہ گوپالاسوامی اینگر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا جہاں تک دیگر شاہی ریاستوں کا سوال ہے تو نئے آئین کے تحت ان کے ساتھ ہونے والے معاہدہ الحاق ماضی کی بات بن جائیں گے۔۔ تاہم کشمیر کے کیس میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وہ ریاست کشمیر کے مخصوص حالات کی وجہ سے ابھی اس طرح کے اتحاد کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ مخصوص حالات مرکزی طور پر معاہدہ الحاق کی وجہ سے تھے، جس کا دارومدار رائے شماری کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے پر تھا۔ ویسے تو کشمیر کے اندرونی معاملات پر مہاراجہ ہری سنگھ کو اختیار ہونا چاہیے تھا لیکن نومبر 1947 میں مہاراجہ پر انڈیا کی طرف سے شیخ عبداللہ کو جموں کشمیر آئین ایکٹ 1939 کے تحت ایمرجنسی ایڈمِنِسٹریٹر بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

یہ بات صاف ہے کہ مہاراجہ ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ وہ معاہدہ الحاق سے مطابقت رکھنے والا ایک منصوبہ بنانا چاہتے تھے۔ گوپالاسوامی اینگر کو ایک خط میں انھوں نے واضح طور لکھا کہ انڈیا کو ان کے منصوبے قبول نہیں اور انہیں مجبور ہو کر عبوری حکومت قائم کرنا پڑ رہی ہے۔

ان حالات میں مہاراجہ نے پانچ مارچ 1948 کو ہنگامی انتظامیہ کی جگہ ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا، جس کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ اعلامیہ الحاق کا حصہ نہیں تھا۔ قانون ساز اسمبلی (جسے پرجا سبھا کہا جاتا تھا) پر ’نیا کشمیر‘ آئین بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ جموں کشمیر آئین ایکٹ 1939 کو ختم کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کشمیر کو انڈیا کے ساتھ آئینی طور پر متحد کرنے کے لیے ضروری تھا۔ انڈیا کے اقتدار اور اختیارات میں اس طرح کی وسعت معاہدہ الحاق کا حصہ نہیں تھی اور مہاراجہ نے یہ بالکل تسلیم نہیں کیا تھا کہ کشمیر مستقبل کے کسی بھی انڈین آئین میں شامل ہوگا۔

سن 1949 آتے آتے مہاراجہ اور شیخ عبداللہ کے درمیان تناؤ بہت بڑھ گیا تھا۔ آخرکار شیخ عبداللہ نے اپنے دوست جواہر لعل نہرو سے، جو کہ انڈیا کے وزیر اعظم تھے۔ کہا کہ وہ مہاراجہ پر تخت چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ حکومت کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ نے 29 اپریل 1949 کو اپنے بیٹے یوراج کرن سنگھ کو صدرِ ریاست نامزد کیا۔

20 جون 1949 کو مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک اعلامیے کے ذریعے اقتدار پر سے اپنا اختیار ختم کرنے سے پہلے اپنے بیٹے یوراج کرن سنگھ کو یہ اختیارات منتقل کر دیے۔ یہ اعلامیہ، جو کہ عبوری تھا، مہاراجہ ہری سنگھ کا آخری حکومتی فیصلہ تھا، اور اس کے ذریعے یوراج کرن سنگھ مستقل طور پر حکومت کا حصہ بن گئے۔

25 نومبر 1949 کو یوراج کرن سنگھ نے ایک اعلامیے کے ذریعے 1935 کے حکومت انڈیا ایکٹ کو ختم کر دیا جس کے تحت تب تک کشمیر اور انڈیا کے درمیان تعلقات قائم تھے۔ اس سے کشمیر پر انڈین آئین کے محدود اطلاق کی راہ ہموار ہوئی۔

اسی اعلامیے کی وجہ سے انڈین آیئن میں ایک عبوری دفعہ، آرٹیکل 370 کو کشمیر کو انڈیا میں خصوصی حیثیت دے کر شامل کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا۔

اس کے ساتھ ہی انڈیا نے شیخ عبداللہ کی جماعت ’آل جموں اینڈ کشمیر نیشنل فرنٹ‘ سے کشمیر کو آئینی طور پر انڈیا میں شامل کرنے کے لیے مدد حاصل کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس اقدام کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 1957 کی قرارداد 122 میں مسترد کر دیا۔ اس قرارداد کے تحت کشمیر کے مستقبل اور الحاق کا فیصلہ نیشنل کانفرنس یا کسی بھی دوسری جماعت کے ایکشن سے نہیں کیا جا سکتا۔

انڈین افواج کی کشمیر آمد کا منظر

انڈین افواج کی کشمیر آمد کا منظر

سنہ 1950 میں انڈین آئین سازی کے بعد کشمیر کی صورت حال

سنہ 1950 میں انڈین آئین عمل میں آنے کے بعد انڈیا نے آرٹیکل 1(3) اور 370 کے تحت کشمیر کو ملک کا حصہ بنا دیا۔ آرٹیکل 370 کو، جس کا مقصد خود مختاری کی صورت پیدا کرنا تھا، کشمیر کے مخصوص حالات کی وجہ سے آئین میں شامل کیا گیا۔ اسی شق کے ذریعے سنہ 1950 کے بعد انڈیا اور کشمیر کے درمیان موجود رشتے کو وضع کیا گیا۔

آرٹیکل 370 میں اس بات کو دہرایا گیا کہ انڈین پارلیمان کے پاس صرف ان شعبوں میں قانون سازی کا حق ہوگا جو معاہدۂ الحاق میں وضع کیے گئے ہیں۔

یعنی آرٹیکل 370 کے تحت انڈین پارلیمان کے پاس ریاست جموں کشمیر کے لیے صرف دفاع، مواصلات اور خارجہ امور سے متعلق قانون سازی کا محدود اختیار تھا۔ تاہم آرٹیکل 370 کے ہی تحت صدر کو دیے گئے اختیارات کا مطلب یہ تھا کہ کہ سترہ نومبر 1952کے بعد ان کے پاس احکامات جاری کرنے کا اختیار ہوگا۔

تاہم ایک اہم صدارتی آرڈر کو، ’کانسٹیٹیوشن ایپلیکیشن ٹو جموں کشمیر آرڈر 1950،‘ ’پروسپیکٹولی‘ جاری کیا گیا۔ اس آرڈر کے ذریعے ان شعبوں میں نئے شعبے جوڑے گئے جن پر وفاقی پارلیمان کو کشمیر کے لیے قانون سازی کا اختیار تھا اور پہلے سے موجود شعبوں میں تبدیلی کی گئی۔ ان میں آئین میں ترامیم کی دفعات (آرٹیکل 368) اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 اور انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947 کو ختم کرنے کی دفعات، جہاں تک ان کا تعلق کشمیر سے تھا، ان کا اطلاق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر تک بڑھا دیا گیا۔

یوں آرٹیکل 370 کے ذریعے تقریباً 205 وفاقی قوانین کو کشمیر منتقل کیا گیا۔ آرٹیکل 370 کے تحت جموں کشمیر آئین ساز اسمبلی کے اتفاق اور انڈین صدر کے احکامات کے ذریعے ان شعبوں میں مزید وسعت کا امکان بھی پیدا ہو گیا۔

تاریخی اعتبار سے سنہ 1950 کے آرڈر کے تحت انڈیا کے صدر کے پاس جموں کشمیر آئین ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر آرٹیکل 370 کو تبدیل کرنے یا ختم کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ یعنی آرٹیکل 370 میں کسی بھی ترمیم کے لیے نامزد اسمبلی کی رضامندی ضروری تھی۔ انڈین پارلیمان کی طرف سے کشمیر کے لیے قانون سازی کے حوالے سے بھی ہند نواز حکومت کی حمایت لازمی تھی تاکہ وہ قانون سازی کے لیے نئے شعبے متعارف کرا سکے۔ 27 اکتوبر 1950 کو جموں کشمیر آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا اور حسب توقع کشمیر میں کئی نئے قوانین متعارف کرائے گئے۔

یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت میں کام کرنے والی اس اسمبلی کو بین الاقوامی برادری نے تسلیم نہیں کیا تھا، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سکیورٹی کانوسل کی قرارداد 122 سے واضح ہے۔

دس جون 1952 کو جموں کشمیر آئین ساز اسمبلی نے موروثی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا اور اس کی جگہ ایک منتخب سربراہ نے لے لی جسے صدر ریاست کا خطاب دیا گیا۔

اس کے بعد نامزد حکومت نے انڈین حکومت کی نمائندوں سے مشاورت کے بعد معاہدہ دلی 1952 پر دستخط کیے۔ اس کے تحت دونوں نے ان نکات پر اتفاق کیا:

  • پہلا، معاہدہ الحاق کے تحت سٹیٹس کو کو برقرار رکھنا یعنی صورت حال جیسی ہے ویسی ہی رہے
  • دوسرا، آرٹیکل پانچ جو کہ انڈیا کی شہریت سے متعلق ہے، اس کا اطلاق کشمیر کے شہریوں تک بڑھانا
  • نمبر تین، وفاقی پرچم کے ساتھ ساتھ ریاست کے پرچم کو مقام دینا
  • نمبر چار، صدر ریاست (گورنر) کو ریاستی اسمبلی منتخب کرے گی تاہم تعیناتی سے پہلے انڈیا کے صدر کی منظوری لازمی ہوگی
  • نمبر پانچ، آرٹیکل 352 کے اطلاق کو منظوری دینا، جس کے تحت ریاست میں اندرونی کشیدگی یا باہری جارحیت کی صورت میں انڈین صدر کے پاس ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار ہوگا۔

اندرونی کشیدگی کی صورت میں دونوں نے اتفاق کیا کہ ایمرجنسی صرف ریاستی حکومت کی درخواست پر یا پھر اس کی رضامندی سے نافذ کی جائے گی۔

سچ تو یہ ہے کہ دلی ایگریمنٹ 1952 پر عمل درآمد دراصل پراجا پریشد اور جن سنگھ نامی تنظیموں کے احتجاج کی وجہ سے مشکل میں پڑ گئی۔ پرجا پریشد ایک سخت گیر ہندو جماعت تھی جس کے بانی ڈاکٹر شیامی پرساد موکرجی تھے، جبکہ جن سنگھ ایک قدامت پسند ہندو قوم پرست جماعت تھی۔ ان جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ کشمیر کو مکمل طور پر انڈیا میں ضم کر دیا جائے، اور ان کی نظر میں معاہدہ دلی 1952 سے ایک علیحدہ اور آزاد کشمیری ریاست کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر شیاما پرساد موکرجی کو بارہ مئی 1953 کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب انھوں نے بنا پرمٹ کے کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس وقت تک غیر کشمیریوں کو کشمیر میں داخل ہونے کے لیے ایک پرمِٹ کی ضرورت ہوتی تھی۔ گرفتاری کے بعد، ہسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔

شیخ عبداللہ

انڈیا مخالف کارروائیوں کے الزام میں چودہ سال کی نظر بندی کے بعد شیخ عبداللہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے

ان کے انتقال نے شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور وزیر اعظم کے عہدے سے انہیں الگ کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔ انڈیا کا خیال تھا کہ اس کے پاس ایسے شواہد تھے کہ شیخ عبداللہ ایک آزاد کشمیر کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ شیخ عبداللہ پر امریکی حمایت سے انڈیا سے علیحدگی کی کوشش کا الزام لگایا گیا اور انکے نائب ہند نواز بخشی غلام محمد کو ان کی جگہ وزیر اعظم بنا دیا گیا۔

انڈین اخبار ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ، ’انڈیا کے ساتھ محدود الحاق کی جگہ ایک آزاد کشمیر کو لے لینی چاہیے۔‘ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ 1947 میں انڈیا کے ساتھ ہونا والا الحاق مخصوص حالات کی وجہ سے، مجبوری میں ہوا تھا۔ پریم ناتھ بزاز کے مطابق، جو کہ ایک ہندو آزادی نواز رہنما تھے، پراجا پریشد ہندو قوم پرستی کی ایک کڑی تھی اور کچھ نہیں۔

شیخ عبداللہ کو سٹیٹ پریوینٹو ڈیٹینشن ایکٹ کے تحت وار سال تک جیل میں رکھا گیا اور پھر 1958 میں دوبارہ گرفتار کر کے ان پر حکومت کشمیر کا تختہ الٹنے کا الزام لگایا گیا۔ نیشنل کانفرنس کی حکومت کے وزیر خزانہ اور پلیبِسیٹ فرنٹ کے ابنی مرزا افضل بیگ کو بھی گرفتار کیا گیا۔ دونوں پر غداری اور بغاوت کے الزامات لگائے گئے۔ جموں میں ایک خصوصی میجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے دوران مرزا بیگ نی کہا، “حکومت ہند میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ رائے شماری کرائے۔۔ ان کی شکست طے ہے۔”

اسی سب کے دوران کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے انڈیا کے ساتھ الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کر لی۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا کی طرف سے کشمیر کو انڈیا میں شامل کرنے کے لیے کئی قدم اٹھائے گئے۔ انڈیا نے کشمیر کے صدر ریاست یوراج کرن سنگھ کو اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ساتھ ہی انڈیا نے کشمیر کے ساتھ زمینی رابطے بہتر بنانے کے لیے ایک سرنگ بنانے پر بھی کام شروع کیا۔

سن 1954 میں انڈیا کے صدر نے (جموں کشمیر کے لیے) ایک آئینی حکمنامہ جاری کیا۔ یہ حکمنامہ معاہدہ الحاق سے متضاد تھا کیونکہ اس کے تحت انڈین حکومت کو یونین لِسٹ میں موجود تمام شعبوں پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا، نہ کہ صرف دفاع، خارجہ امور اور مواصلات۔

اسی دوران اس وقت کے کشمیر کے نامزد وزیر اعظم بخشی نے اس عمل کے لیے ضروری قانونی توثیق فراہم کی۔ صدارتی حکمنامہ چودہ مئی 1954 کو نافذ ہوا حالانکہ اس قانون کا دوسرے حصے کا اطلاق چھبیس جنوری 1950 سے تصور کیا گیا۔

آرڈر 1954 کو اس طرح ریٹروسپیکٹولی نافذ کرنے پر ایک قانونی تنازعہ کھڑا ہو گیا اور اس کی صحیح اور جائز ہونے پر سوال اٹھائے گئے۔

انڈین حکومت کے احکامات کے تحت کشمیر کے نئے آئیں کو ہند نواز حکومت نے سترہ نومبر 1956 کو منظور کر لیا اور یہ چھبیس جنوری 1957 سے عمل میں آ گیا۔ ان تمام اقدامات اور ترامیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر انڈیا میں شامل ہوتا گیا۔ دراصل یہ آرٹیکل 370 کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا آغاز تھا؛ اس آرٹیکل پر صحیح معنوں میں کبھی کشمیر میں عمل ہی نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ہی معاہدہ دلی 1952، جس میں جموں کشمیر کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ تمام موضوعات پر قانونسازی کے حق کو دہرایا گیا تھا، وہ بھی عملا منسوخ ہو گیا۔

دسمبر 1971 میں اس وقت کی انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی اور شیخ محمد عبداللہ کے درمیان ایک ملاقات ہوئی۔ شیخ عبداللہ نے نے 1953 سے پہلے کی صورت حال اور 1952 کے معاہدہ دلی پر عمل پر زور دیا۔ تاہم اس طرح کے مطالبات انڈیا کے لیے ناقابل قبول تھے۔ مزید مزاکرات کے بعد شیخ عبداللہ، جو اس وقت بھی جیل میں تھے، جہاں ان پر دباو ڈالے جانے کے خدشے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، 1975 کے کشمیر اکارڈ پر راضی ہو گئے۔

اس معاہدے پر شیخ عبداللہ کی جگہ افضل بیگ نے دستخط کیے۔ اس معاہدے سے بس یہ حاصل ہوا کہ آرٹیکل 370 قائم رہا۔ اس سے جموں کشمیر کی ریاست کو قانون سازی کے حوالے سے آزادی کے ضمانت دی گئی۔ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ کشمیر کی ہند نواز حکومت 1953 کے بعد سے انڈین پارلیمان کی طرف سے ہونے والی قانون سازی پر نظر ثانی کرکے ان میں ترامیم کرنے یا انہیں ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

کشمیر

نامزد حکومت اور انڈیا کے درمیان تعلقات

جب 1951 میں کشمیر کی پہلی نام نہاد آئین ساز اسمبلی کا انعقاد کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی مستقبل میں ہونے والی افرا تفری کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ نیشنل کانفرنس کے تمام 71 اراکین کو “بنا مقابلے کے منتخب” قرار دے دیا گیا۔ یہ الحاق کے بعد کشمیر کے پہلے انتخابات تھے۔ نیشنل کانفرنس کے علاوہ تمام جماعتوں کے امیدواروں کے کاغزات کو مسترد کر دیا گیا۔ آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور بنا ووٹ ڈالے نیشنل کانفرنس کے امیدواروں کو فاتح قرار دے دیا گیا۔

سہ 1953 میں جب شیخ محمد عبداللہ کی ضرورت نہیں رہی تو انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد مئی 1957 میں وزیر اعظم بخشی کی انتظامیہ کے تحت انتخابات کرائے گئے جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ وزیر اعظم بخشی کی “وسیع بدعنوانی” کے کافی چرچے تھے۔ اس زمانے کے ایک دستاویز میں (ڈومِنین آفس ڈاکیومنٹ)، جو کہ لندن کے نیشنل آرکائیوز میں محفوظ ہے، دلی میں برطانوی ہائی کمشنر کی طرف سے ڈاوننگ سٹریٹ کے کامن ویلتھ آفس کے نام ایک خط ہے جو چھ جولائی 1957 کو لکھا گیا۔ اس خط میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں پریس میں مثبت کووریج نظر نہیں آ رہی۔

سنہ 1962 میں ہونے والی انتخابات بھی کوئی بہتر نہیں تھے۔ حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس کے امیدوار تقریبا ہر علاقے سے بنا مقابلے کے منتخب ہوئے اور انہوں نے 97 فیصد سیٹوں پر فتح حاصل کی۔

اس کے کچھ ہی دیر بعد بخشی کو اقتدار سے الگ کر کے ان کی جگہ جی ایم صادق کو دے دی گئی۔ بخشی کے حامیوں نے نئے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منعقد کرنے کی کوشش کی۔ اس کو روکنے کے لیے حکومت ہند نے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت سنہ 1964 میں بخشی غلام محمد کو گرفتار کر کے اسے جیل میں بھیج دیا جہاں 11 برس پہلے شیخ عبداللہ کو قید کیا گیا تھا۔

صادق 1970 میں اپنی وفات تک اقتدار میں رہے اور ان کے دور میں کشمیر کو انڈیا میں ضم کرنے کا عمل عروج پر پہنچا۔

صدر ریاست، اور وزیر اعظم کے عہدوں کو باضابطہ طور پر، دوسری انڈین ریاستوں کی طرح، گورنر اور وزیر اعلی بنا دیا گیا۔ گورنر اب قانون ساز اسمبلی کی طرف سے منتخب نہیں بلکہ حکومت ہند کی طرف سے تعینات کیے جانے لگے۔

سنہ 1970 میں میر قاسم کو کشمیر کے نئے وزیر اعظم کے طور پر تعینات کیا گیا۔ تاہم 1975 میں انہیں ہٹا کر شیخ عبداللہ کو وزیر اعلی بنا دیا گیا۔ شیخ عبداللہ کو وزیر اعلی بنانے کے لیے کسی الیکشن کا انعقاد نہیں کیا گیا۔ وہ سنہ 1953 سے جیل میں تھے۔ دراصل ان کی رہائی اور وزیر اعظم کے طور پر تعیناتی کشمیر معاہدے کی شرائط پر راضی ہونے کے بعد ایک سمجھوتے کا حصہ تھی۔

مارچ 1977 میں کانگریس نے شیخ عبداللہ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی ، جس کے بعد ریاست میں ایل کے جھا کی گورنرشِپ میں تین ماہ تک جاری رہنے والا گورنر راج نافذ کیا گیا۔

پھر سنہ 1983 میں ہونے والے انتخابات کسی بھی لحاظ سے پرامن نہیں تھے، بلکہ ان میں کئی جانیں گئیں اور سینکڑوں لوگ زخمی بھی ہوئے۔ سات مارچ 1986 کو انڈیا کی طرف سے تعینات کیے گئے گورنر جگموہن نے بدعنوانی، اور سیاسی غیر استحکام کی بنا پر نئے وزیر اعلی جی ایم شاہ کو برخاست کر دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جی ایم شاہ انڈیا کی مدد سے اس وقت وزیر اعلی بننے میں کامیاب ہوئے تھے جب انہوں نے دو جولائی 1984 کو فاروق عبداللہ (شیخ محمد عبداللہ کے بیٹے) کی حکومت گرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

جی ایم شاہ کی حکومت کے پہلے 90 میں سے 72 روز کشمیر میں کرفیو نافذ رہا۔ مارچ 1986 سے چھ ستمبر 1986 تک کشمیر پر گورنر راج نافذ رہا جس کے بعد ایک ماہ تک صدارتی راج نافذ کیا گیا۔

1986 کے اواخر میں فاروق عبداللہ (نیشنل کانفرنس) نے انڈین حکومت کے ساتھ صلح صفائی کر لی جس کے بعد انہیں مارچ 1987 میں ہونے والے انتخابات سے پہلے وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔

ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ہی کشمیر میں انڈیا کے خلاف مسلح تحریک کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

ان حقائق سے کشمیر میں جمہوریت کے فقدان اور سیاسی جبر کی ایک تصویر کھنچتی ہے۔ وزیر اعظم، وزیر اعلی جب چاہے بنائے اور نکالے گئے، اور انڈین گورنرز کو کشمیر پر حکومت کرنے کے لیے تعینات کیا گیا۔

سنہ 1989 آتے آتے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیاست کا دائرہ اس قدر تنگ ہو چکا تھا کہ ایک مقامی تحریک کا آغاز ہوا جو ایک مسلح تحریک میں بدل گئی اور جس کے نتیجے میں انڈین فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

نو جون 1990 کو انڈیا نی کشمیر پر گورنر راج نافذ کر دیا۔ جگموہن نے چار ماہ طویل اس دور میں ایسے کئی اقدامات کیے گئے جن سے کشمیر کی مشترکہ ثقافت پر اثر پڑا۔ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی سیلیکشن کی شرح لگ بھگ آدھی کر دی گئی۔ ساتھ ہی اسی دوران کشمیری پنڈتوں نے بڑی تعداد میں وادی سے ہجرت کر لی۔

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت وقت نے کشمیری پنڈتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی جگہ ان کے انخلا کو فروغ دیا تاکہ ان کے جانے کے بعد وہ کشمیر کی مسلم آبادی سے بنا کسی روک کے نمٹ سکیں۔ اس عرصے میں حق خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو دبانے کے لیے سخت فوجی طاقت کا استعمال کیا گیا۔

25 مئی 1990 کو جگموہن نے استعفی دے دیا اور ان کی جگہ جی سی سکسینا کو گورنر بنایا گیا۔ اس کے بعد 19 جولائی 1990 کو ریاست میں صدارتی راج نافذ کیا گیا جو اکتوبر 1996 تک جاری رہا۔

1996 میں سول راج کی بحالی کی کوشش کے لیے انتخابات کا انعقاد کرنے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی حکومت بنی۔ ان انتخابات پر بھی غیر شفاف ہونے کے الزامات لگے۔

آٹھ اکتوبر 2002 کو پھر انتخابات منعقد ہوئے مگر حسب توقع بائیکاٹ اور تشدد کے سائے تلے۔

سنہ 2002 میں ہونے والے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور کانگریس کے اتحاد کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ اس سے قبل ہونے والے انتخابات کی ہی طرح اس الیکشن پر بھی خونریزی، دھاندلی، سکیورٹی فورسز کی طرف سے زبردستی اور عسکریت پسندوں کی طرف سے تشدد کے الزامات لگے۔

سنہ 2005 میں کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کو اتحادی حکومت کا سربراہ بنایا گیا۔ یہ اتحاد سات جولائی 2008 تک چلا۔ آزاد کی حکومت اس وقت گر گئی جب اس نے شری امرناتھ شرائین بورڈ کو 40 ہیکٹر پر مشتمل جنگلات کی زمین منتقل کرنے کے اپنے ہی ایک حکمنامے کو واپس لے لیا۔ وزیر اعلی غلام نبی آزاد نے یہ حکمنامہ دو جولائی 2008 کو واپس لے لیا اور سات جولائی 2008 کو مستعفی ہو گئے۔

یہاں یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا ہو، کیونکہ حکمنامہ واپس لینے کا فیصلہ دلی کے حق میں نہیں تھا۔

کشمیر میں اکثر ہند نواز حکومتوں کو تب تب اقتدار سے علیحدہ کیا گیا ہے جب جب ان کے اقدامات دلی کی کشمیر پالیسی سے مختلف رہے ہیں۔

شری امرناتھ شرائین بورڈ کو زمین نہ دینے کے فیصلے کے خلاف بی جے پی اور شو سینا جیسی سخت گیر ہندو جماعتوں نے شدید اور پرتشدد احتجاج کیا۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر کے خلاف ایک اقتصادی بلاکیڈ بھی شروع کیا گیا اور کشمیر جانے والی شاہراہوں کو بلاک کر دیا گیا تاکہ ضروری اشیا وادی تک نہ پہنچ سکیں۔

غلام نبی آزاد کے استعفی کے بعد ایک بار پھر کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ نئے گورنر نے آتے ہی ایک اعلامیے کے ذریعے ریاستی حکومت کی تمام کارروائی سنبھال لی۔ گورنر نے ہندو جماعتوں کے احتجاج کی وجہ سے چار رکنی پینل تشکیل دی جس نے چالیس ہیکٹئیر زمین کے استعمال کے حوالے سے شری امرناتھ شرائین بورڈ کے خصوصی اختیارات کو بحال کر دیا۔

اس سے کشمیر کے حالات مزید بگڑ گئے اور روزانہ کی بنیاد پر آزادی کے حق میں مظاہرے ہونے لگے جو کہ مجموعی طور پر پرامن تھے۔

مئی 2010 میں تین کشمیریوں کے ’قتل‘ اور پھر ان پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگانے کی کوشش کے بعد ایک بار پھر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جواب میں حکومت نے طویل عرصے تک کرفیو نافذ کر دیا اور پتھر پھینکنے والے مظاہرین پر گولیاں برسائیں۔

سنہ 2014 میں بی جے پی انڈیا میں اقتدار میں آئی۔ بی جے پی ایک سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت ہے، جس کا ایجنڈا جمہوریت اور سکیولرِزم کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔ ان کے دور میں انڈیا میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں قوم پرست ہندوؤں کے ہاتھوں کئی مسلمانوں کا قتل ہو چکا ہے۔

یہی سب کچھ سنہ 2015 میں کشمیر میں بننے والے بی جے پی اور پی ڈی پی کے اتحاد میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی لوگوں کی نظر میں اس اتحاد سے کشمیر میں پی ڈی پی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔

برہان وانی

سنہ 2016 عسکریت پسند کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان پر قابو پانے کے لیے انڈین فورسز نے پیلیٹ گنز کا استعمال کیا جن سے کئی لوگ بینائی سے محروم ہو گئے۔

کشمیر میں اس وقت تقریباً سات لاکھ انڈین فوجی موجود ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں بھی فی کس آبادی فوجیوں کی سب سے زیادہ شرح ہے۔

انڈین فوج پر ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، فِزِشنز فار ہیومن رائٹس جیسی بین الاقوامی تنظیموں اور کویلِشن فار سِوِل سوسائٹی جیسی مقامی تنظیموں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، شہریوں کو انسانی ڈھال کی طرح استعمال کرنا، ٹارچر، جعلی مقابلے، قتل عام، اجتماعی قبریں، کاروباروں اور گھروں کو تباہ کرنا، رہائشی علاقوں کو آگ لگانا، اور سکولوں اور یونیورسیٹیز کی عمارتوں پر قبضہ کرنا شامل ہے۔

یورپی پارلیمان کی رکن ایما نکلسن آف ونٹربورن نے یورپی پارلیمان کے لیے ’پریزنٹ سچویشن اینڈ فیوچر پروسپیکٹس آف کشمیر‘ کے عنوان سے تیار کی گئی اپنی ڈرافٹ رپورٹ میں انڈین مسلح فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں اور عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے پرتشدد حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

پچھلی کچھ دہائیوں میں کشمیری عوام مسلسل مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سنہ 2018 اور 2019 میں شائع ہونے والی رپورٹس میں ان کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اگست 2019 کے بعد جس طرح حالات مزید بگڑے ہیں اس کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی ہے۔ کشمیر کی سِوِل سوسائٹی نے اگست 2019 کے بعد پیش آنے والی تبدیلیوں کے قانونی اور معاشی اثرات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر ایک مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت میں انڈین حکومت نے یکطرفہ طور پر، کشمیر کی ریاستی اسمبلی سے مشاورت کے بغیر (جو کہ گورنر راج کی وجہ سے اس وقت فعال نہیں تھی) کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔

ایک لمحہ کے لیے لگا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے: لگ بھگ تمام ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو قید کر دیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو اس سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مین سٹریم ہند نواز سیاست کے لیے جگہ مکمل طور پر ختم ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ: کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز

کشمیر کا ترانہ، پاکستان کے ترانے سے بھی پرانا

ان حالات میں ایک نیا آئینی آرڈر، کانسٹیٹیوشن آرڈر 2019 پاس کیا گیا جس کے تحت ریاست جموں کشمیر کو دو یونین ٹیریٹوریز میں تقسیم کیا گیا: لداخ، اور جموں و کشمیر۔ اس عمل کے دوران انڈیا نے کشمیر میں موجود اپنی فوجوں میں اضافہ کیا جس سے کشمیر میں انڈین فوج کی مجوموعی تعداد ساڑھے سات لاکھ تک پہنچ گئی۔ کشمیر پر مکمل مواصلاتی پابندی لگا دی گئی، اور اب بھی کورونا وائیرس کی وبا کی وجہ سے بگڑتے ہوئے حالات کے باوجود تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ پر پابندی ہے۔

چار ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں بچے بھی شامل تھے اور ان میں سے اکثر کو بنا کسی فرد جرم کے قید کیا گیا۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا مطلب ہے کہ انڈین آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کے تحت کیے گئے وعدے اب نہیں رہے اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر اب دلی کی براہ راست حکومت ہے۔ اس سے ریاستی پرچم، ریاست کا آئین اور سینکڑوں ریاستی قوانین بھی بیکار ہو گئے اور سیاسی، انتظامی اور قانونی نقطہ نظر سے سب کچھ تھم گیا۔

اس کے بعد انڈیا نے 18 مئی 2020 کو جموں و کشمیر یونین ٹیریٹوری کے لیے ڈومیسائل کے نئے قواعد متعارف کرائے جن کے تحت انڈیا کے کسی بھی حصے سے لوگ کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 370 اور 35A کے تحت حاصل حاصل ضمانتوں کے تحت یہ ممکن نہیں تھا۔ دی جموں اینڈ کشمیر ری آرگانائیزیشن آرڈر 2020 کے تحت ڈومیسائل کی تعریف بدل دی گئی تا کہ غیر کشمیریوں کے لیے مستقل رہائش حاصل کرنا آسان ہو جائے۔ اس کا مقصد کشمیر کے متنازع خطے میں آبادی کے تناسب کو بدلنا ہے۔

ترمیم شدہ ڈومیسائل قانون کی وجہ سے کشمیریوں کے لیے ملازمت میں بھی مواقع کم ہو جائیں گے کیونکہ اب کشمیر میں موجود نوکریوں کے لیے غیر کشمیری بھی درخواست دے سکیں گے۔ اس طرح کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ آبادی کے تناسب میں تبدیلی سے کسی بھی رائے شماری کے نتائج پر اثر پڑے گا۔

کئی مبصرین نے اس ڈومیسائل قانون میں اس تبدیلی کو ’اسرائیلی طرز‘ کی یہودی آبادیوں کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے، جس سے آخر کار کشمیر کی مسلمان اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی جس کے بعد اس کی نسل کشی آسان ہو جائے گی۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پہلے انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر کی ریاستی قانون ساز اسمبلی سے مشاورت نہیں کی گئی جو کہ آرٹیکل 370(3) کے تحت لازمی تھا۔ کشمیر کی اسمبلی کو جون 2018 میں اس وقت تحلیل کر دیا گیا تھا جب پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان اتحاد ختم ہو گیا تھا۔

اس کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پر گورنر راج اور پھر صدارتی راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی منتخب حکومت نہیں تھی؛ تاہم 2019 کے صدارتی حکمنامے کے مطابق گورنر ریاستی اسمبلی کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کے بارے میں اپنی سفارشات صدر کو دیں گے۔

محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مین سٹریم ہند نواز سیاست کے لیے جگہ مکمل طور پر ختم ہو گئی

آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا مقصد پورا کرنے کے لیے 2019 کے صدارتی حکمنامے میں ’آئین ساز اسمبلی‘ کو بدل کر ریاست کی ’قانون ساز اسمبلی‘ کر دیا گیا۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ آرٹیکل 370 (3) کے مطابق آرٹیکل 370 صدارتی حکمنامے سے ختم ہو سکتا ہے تاہم اس کے لیے ’آئین ساز اسمبلی‘ کی سفارش لازمی ہے۔

یہ تمام آئینی ترامیم غیر آئینی تھیں کیونکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلے سے ہی صدارتی راج نافذ تھا اور 2019 کے صدارتی حکمنامہ کے دعوے کے برعکس ریاست کی رضامندی حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔

انڈیا کی ان یکطرفہ آئینی تبدیلیوں کے اثرات خطے کی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ چین اور پاکستان بھی اس تنازع میں شریک ہیں اور دونوں نے نیپال میں مقیم چینی سفارت خانے کے ذریعے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی طرف سے منظور شدہ حل کی پاسداری کی جانی چاہیے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا ایک فوری نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ انڈیا کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانونی حیثیت کا تنازع ایک بار پھر زیر بحث آ گیا ہے۔

انڈیا اور کشمیر کے رجواڑے کے درمیان رشتہ اسی معاہدہ الحاق پر مبنی تھا جس پر ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے کے تحت مہاراجہ نے دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کا اختیار انڈیا کو دے دیا تھا۔ اسی کی بنا پر کچھ عرصے بعد آرٹیکل 370 اور 35A کو انڈین آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر دیگر معاملات میں خود مختار رہے گا۔

دراصل آرٹیکل 370 اور 35A ڈوگرا حکمرانوں کے ان وعدوں کی عکاسی کرتے تھے جو انہوں نے کشمیریوں سے، کشمیریوں کو سرکاری نوکریوں اور زمین کے استعمال اور ملکیت پر حقوق کے حوالے سے کیے تھے اور جو غیر کشمیریوں کے لیے نہیں تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں کشمیر کی حیثیت کے تحفظ کے لیے کئی قراردادیں منظور کی گئیں جو کہ انڈیا پر لاگو ہوتی ہیں۔ ان میں 20 جنوری 1957 کو منظور ہونے والی قرارداد 122 شامل ہے جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتی ہے اور جس کے مطابق، ’جموں کشمیر کی حیثیت کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام کرائے جانے والی ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے تحت ہوگا، کشمیر کے عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ ‘

رائے شماری کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے اس معاملے پر ایک ابتدائی اعلانیہ تشکیل دیا جا چکا ہے جس کے تحت ممالک پر ایک مخصوص رویہ اپنائے رکھانا لازمی ہے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا کی طرف سے ڈومیسائیل لا متعارف کرانے جیسے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے اس کے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ایک قابض طاقت ہونے کے تاثر کو تقویت ملتی ہے۔

کشمیر سے متعلق نئے آئینی اقدامات متعارف کرانے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو جاتی کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت کشمیر ایک متنازع خطہ ہے۔ بین الاقوامی برادری نے غیر قانونی قبضے کے حوالے سے ایک متواتر پالیسی تسلیم کی ہے جیسا کہ بالٹک ریاستوں، فلسطین، کرائیمیا اور کویت کی مثالوں سے واضح ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp