خیبر پختونخوا پولیس کی کارکردگی


دو ہزار تیرہ کے الیکشن ہوتے ہیں ،عمران خان وزیرِ اعظم تو نہیں بن پاتے ،البتہ کے پی کے میں اِن کی پارٹی برسرِ اقتدار آجاتی ہے۔پی ٹی آئی کا خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کرنا ،معمولی واقعہ نہیں ٹھہرتا۔مذکورہ صوبہ میں ایک مُدت سے برسرِ اقتدار چلی آرہی سیاسی پارٹیوں سے عوام کی ایک بڑی تعداد اپنا اعتماد ایکا ایکی ختم کرکے ،پی ٹی آئی کے پلڑ ے میں ڈال دیتی ہے۔یہ اعتماد اَن گنت خوش کن خوابوں سے ترتیب پایا تھا۔ایک خواب تھا کہ نظام بدلے گا،تبدیلی آئے گی،لوگوں کو اُن کے دروازوں پر انصاف اور حقوق بہم میسر آئیں گے۔دہشت گردی کا اژدھابھوک کے ہاتھوں مَر جائے گا۔

پھر دوہزار اَٹھارہ آتا ہے۔عمران خان ،وزیرِ اعظم ہائوس میں پڑائو ڈالتے ہیں تو کے پی کے اور پنجاب میں اِن کی پارٹی کے وزرائے اعلیٰ مسند نشین ہوتے ہیں۔کے پی کے ،کی سیاسی تاریخ میں دوہزار اَٹھارہ کا الیکشن ایک بڑے واقعہ کی صورت ظہور پذیر ہوتا ہے ،پہلی بار عوام کا اعتماد ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن میں ایک ہی سیاسی جماعت کو منتقل ہوتا ہے۔پنجاب کے جن علاقوں میں پی ٹی آئی معرکہ مارتی ہے ،وہاں کے ووٹرز کے پی کے میں پی ٹی آئی کی مسلسل دوسری بار کامیابی سے اپنے اندر بے پایاں اعتماد پاتے ہیں اور خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں کہ جو تبدیلی کے پی کے میں آئی ،اُس کے نتیجے میں حکومت اور عوام کے مابین اعتماد کا رشتہ مزید مضبوط ہوا ،ایسی ہی تبدیلی پنجاب میں آوے گی اور یہاں انصاف،تعلیم اور دیگر جملہ انسانی حقوق گھرکی دہلیز پر بہم میسر آویں گے۔

کے پی کے میں پی ٹی آئی کی دوسری مرتبہ الیکشن میں کامیابی کی وجہ ،یہ بتائی گئی کہ وہاں تعلیم ،صحت اور پولیس کے نظام میں خاطر خواہ اصلاحات کی گئیں۔کے پی کے کی پولیس ،پنجاب کی پولیس کی طرح گلوبٹ ٹائپ نہیں ،بلکہ فرض شناس اور ایمان دار ہے۔مگر واقعی !کے پی کے میں پولیس کے ادارے میںتبدیلیاں لائی گئیں؟اس کے لیے ایک تازہ واقعہ کو مثال بناتے ہیں: اسلام آباد بحریہ انکلیو میں ایک پڑھا لکھا نوجوان کنسٹرکشن کے کام سے وابستہ ہے۔وہاں اُس نے ایک چھوٹا موٹا آفس بنایا ہوا ہے ،اس کاروبار سے وابستہ دیگر کئی لوگوں نے بھی دفاتر بنائے ہوئے ہیں ۔

باہر سے ایک آدمی (اسلام آباد کا رہائشی) اس نوجوان کے جاننے والے کاروباری شخص سے ڈیل کرتا ہے اور اُس کے کاروبار میں ایک کروڑ کی انویسٹ منٹ کرتا ہے،صاف ظاہر ہے یہ انویسٹ منٹ منافع کے عوض کی جاتی ہے۔کچھ عرصہ گزرتا ہے ،کورونا کے دِنوں میں وہ شخص کاروبار سمیٹ کر چلتا بنتا ہے اور جس سے کروڑ روپیہ لیا ہوتا ہے ،اُس کو چیک دے جاتا ہے۔چیک بائونس ہو جاتا ہے ،دوچار ماہ گزرجاتے ہیں ،جس نے پیسے لیے ہوتے ہیں ،اُس کا کوئی اَتا پتا نہیں ہوتا ، انویسٹ منٹ کرنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب اُس کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ۔

وہ شخص اُس نوجوان جس کا ذکر اُوپر آچکا ،کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارا وہ دوست تھااور کاروباری ڈیل میں تم بھی شامل تھے ،لہٰذا اُس کو پکڑوائو ،ورنہ تمہارے خلاف پرچہ کٹوا دوں گا،وہ نوجوان کہتا ہے کہ میرا اُس ڈیل سے کوئی تعلق نہیں ،اگر کوئی تعلق ہے تو بتائیں۔قصہ کوتاہ،آج سے لگ بھگ پندرہ دِن قبل ہر ی پور سے دو پولیس والے سادہ کپڑوں میں آتے ہیں اور نوجوان کو پکڑ کر لے جاتے ہیں ،شام پڑتی ہے تو اُس کے معصوم بچے اپنے بابا کا انتظار کھینچتے ہیں ،مگر شام رات میں بدل کر اگلی صبح کو خوش آمدید کہتی ہے ،مگر بچوں کے بابا گھر نہیں آپاتے ،اب کسی کو کوئی خبر نہیں کہ کہاں ہیں ،ایک دو دِن کے بعد ہری پور کے سٹی تھانہ سے اطلاع آتی ہے کہ آپ کا بندہ یہاں ہے۔

جب اُس نوجوان کا بھائی اور ایک دوست وہاں پہنچتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ اُس کے خلاف ایف آئی آر موجود ہے ۔نوجوان کا بھائی اور دوست پولیس کو سارا معاملہ بتاتے ہیں کہ اِس کا کوئی تعلق نہیں ،جو چیک ہے ،اُس پر نہ اس کے دستخط ہیں ، نہ بینک اکاونٹ اس کا ہے ،مزیدبراں چیک پر جس کمپنی کی مہر ثبت ہے ،وہ کمپنی اس کی نہیں ،مگر پولیس کہاں یہ بات مانتی ہے ،وہ مُدعی کے ساتھ مل کر یہ زور دیتے ہیں کہ پیسوں کا بندوبست کرو، ورنہ پورے گھر کو اندر کردیں گے۔اب یہ نوجوان جیل میں ہے اور معاملہ سیشن کورٹ تک پہنچا ہوا ہے۔

یہاں دوچار بنیادی نکتے ہیں۔کے پی کے ،پولیس نے بحریہ انکلیوسے نوجوان کو سادہ کپڑوں میں دھوکے سے پکڑا۔اس کارروائی کی اطلاع مقامی تھانہ میں نہیں دی گئی ،ایک شہر سے دوسرے شہر مزید ایک صوبے سے وفاقی دارالحکومت میں کارروائی کرنے کے لیے انتظامی طور پر نہ اطلاع دی گئی اور نہ ہی قانونی ضوابط کی پیروی کی گئی ،پولیس کی وردی میں اہلکار کیوں نہیں آئے اور مقامی تھانہ کا کوئی سپاہی اُن کے ساتھ کیوں نہیں تھا؟کیا یہ جرم نہیں ،کیا یہ اغوا نہیں ؟جس نوجوان کو پکڑا ہوا ہے ،نہ اُس کا چیک ہے ،نہ بینک اکائونٹ اور نہ ہی کوئی کمپنی اس کے نام پر ہے ،پھر کس بنیاد پر ایف آئی آر کاٹی گئی ؟یہ ایف آئی آر اسلام آبا دکے مقامی تھانہ میں کیوں نہ کاٹی گئی ؟

جس بینک کا چیک ہے ،اُس بینک سے ریکارڈ تک نہ لیا گیا،بس پولیس آئی نوجوان کو اغوا کر کے لے گئی ،محض اس بنیا دپر کہ جس نے چیک دیا ہوا تھا ،وہ اس کا جاننے والا تھا ،مُدعی کہتا ہے کہ بندہ ہمیں پکڑوائو ،ورنہ تمام گھروالوں سمیت اندر کروادوں گا۔پولیس نے ایک مَن گھڑت اور جھوٹی ایف آئی آر کاٹی اور وہی حربے آزمائے جو وہ شروع دِن سے آزماتے چلے آرہے ہیں۔اگر لحظہ بھر کے لیے مان لیتے ہیں کہ گرفتار نوجوان کسی طرح ملوث ہے ،تو کیا جس طرح ہری پور تھانہ سٹی کی پولیس نے کارروائی کی ،وہ قانون کے مطابق تھی؟

جس بندے کا نہ چیک ہے ،نہ چیک پر دستخط ہیں ،نہ اُس کے نام بینک اکاونٹ ہے ،پھر کس بنیاد پر چیک کو اُس کا قرار دے رہے ہیں۔یہ تبدیلی تھی جو پی ٹی آئی لائی تھی اور جس کی دعوے دار تھی؟وزیرِ اعظم عمران خان ،وزیر اعلیٰ کے پی کے اور آئی جی پولیس اس واقعہ کا نوٹس لے کر فریق بنے پولیس کی کالی بھیڑوں سے پوچھ گچھ کریں گے؟اگر نوٹس لیا گیا تو یہ تبدیلی ہوگی ،ورنہ وہی نعرے ہوں گے ،جو پہلے بھی لگائے گئے تھے بعد میں بھی لگائے جائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).