پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: ٹی20 کرکٹ پاکستان کا پسندیدہ فارمیٹ کیوں ہے؟


کرکٹ

پاکستان کی کرکٹ ٹیم انگلینڈ سے ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد اب ٹی ٹوئنٹی سیریز میں انگلینڈ کا مقابلہ کرے گی۔

تین میچوں کی اس سیریز میں تمام میچز مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ کے گراؤنڈ میں ہی کھیلے جائیں گے۔

انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کا پہلا میچ 28 اگست کو، دوسرا میچ 30 اگست اور تیسرا میچ یکم ستمبر کو کھیلا جائے گا۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق، ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پہلے ہی 17 رکنی سکواڈ کا اعلان کر چکے ہیں اور اس میں اکثریت ان کھلاڑیوں کی ہے جو ٹیسٹ سیریز میں شامل نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹی ٹوئنٹی میں بلے باز وہی سرخرو جو بولر پر حاوی

’ہر بادشاہ تاج نہیں پہنتا، ہمارا بادشاہ ہیلمٹ پہنتا ہے‘

27 ماہ ٹی ٹوئنٹی میں عالمی نمبر ایک پر رہنے کے بعد پاکستان کی تنزلی

سیریز کا نتیجہ اور عالمی رینکنگ

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی عالمی رینکنگ میں پاکستان اس وقت چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی صف اول کی ٹیموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

پاکستان، کرکٹ، ٹی ٹوئنٹی، آسٹریلیا، انگلینڈ، انڈیا

وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد (بائیں) ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں فتوحات کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے کامیاب کپتان ہیں

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کو سب سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستان نے اب تک 151 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے ہیں جن میں اس نے 92 میں کامیابی حاصل کی ہے۔

کامیابی کے لحاظ سے پاکستان دوسرے نمبر کی ٹیم انڈیا سے واضح طور پرآ گے ہے جس نے 134 میں سے 83 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ جیتے ہیں۔

انگلینڈ کی اس وقت عالمی رینکنگ دوسری ہے۔ اس نے 117 میں سے 58 میچز جیت رکھے ہیں۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ دونوں کے درمیان کھیلے گئے 15 میں سے 10 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل انگلینڈ نے جیتے ہیں۔ پاکستان صرف 4 میچ جیتنے میں کامیاب ہو سکا جبکہ ایک میچ ٹائی ہوا۔

اگر انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سریز میں کلین سویپ کر لیا تو وہ آئی سی سی کی درجہ بندی میں اگرچہ دوسرے نمبر پر ہی رہے گا لیکن اس کے اور عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کے درمیان صرف چار پوائنٹس کا فرق رہ جائے گا۔ دو میچ جیتنے کی صورت میں یہ فرق آٹھ پوائنٹس کا ہو گا۔

پاکستان کی تین صفر کی شکست اسے عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر لے جائے گی۔

اگر پاکستان یہ سیریز تین صفر سے جیت لے تب وہ دوسرے نمبر پر آ جائے گا اور انگلینڈ کی پوزیشن چوتھی ہو جائے گی لیکن اگر پاکستان یہ سیریز دو ایک سے جیتا تو پھر اس کی پوزیشن چوتھی ہی رہے گی لیکن انگلینڈ کی رینکنگ دوسرے نمبر سے تیسرے نمبر پر آ جائے گی۔

پاکستان اور انگلینڈ کی حالیہ کارکردگی

پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 2016 سے 2019 تک ٹی ٹوئنٹی کی لگاتار گیارہ سیریز جیتی تھیں۔ ان تمام سیریز میں سرفراز احمد کپتان تھے لیکن اس کے بعد آخری پانچ میں سے چار میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جنوبی افریقہ میں شعیب ملک کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم تین میچوں کی سیریز دو ایک سے ہاری تھی۔ سرفراز احمد کی کپتانی میں انگلینڈ کے خلاف واحد میچ اور پھر سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز کے تینوں میچوں میں شکست کے نتیجے میں سرفراز احمد نہ صرف کپتانی سے محروم ہوئے بلکہ ٹیم سے بھی باہر ہو گئے۔

سرفراز احمد کی جگہ کپتان بنائے گئے بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا میں سیریز دو صفر سے ہاری تاہم بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں اس نے دو صفر سے کامیابی حاصل کی۔

انگلینڈ نے 2018 میں انڈیا سے سیریز دو ایک سے ہارنے کے بعد سے سری لنکا، ویسٹ انڈیز، پاکستان، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف لگاتار پانچ سیریز جیتی ہیں۔

سٹیو سمتھ

ٹی ٹوئنٹی پاکستان کا پسندیدہ فارمیٹ کیوں؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیز راجہ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی پاکستان کا پسندیدہ فارمیٹ ہے جس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔

’ایک تو یہ کہ اس فارمیٹ سے کھلاڑی کو یکدم شہرت مل جاتی ہے۔ ہمارا ٹی ٹوئنٹی کا کلچر سیٹ ہو چکا ہے۔ ہماری کلب کرکٹ بھی عموماً بیس اوورز کی ہے اور ہر سطح پر اس فارمیٹ کو آرگنائز کرنا بھی آسان ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’چار روزہ کرکٹ کو منظم کرنے اور اس کا معیار برقرار رکھنے کے لیے بڑی محنت درکار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اب شائقین کا مزاج بھی ٹی ٹوئنٹی والا بن گیا ہے۔ سب سے اہم بات پاکستان سپر لیگ نے اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اب کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی کھیل کر پیسہ کمانا چاہتے ہیں اور لوگ اس فارمیٹ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

رمیز راجہ پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کے ضمن میں کہتے ہیں کہ ٹاپ ٹیموں کے خلاف اچھے نتائج حاصل کرنا آسان نہیں کیونکہ ان بڑی ٹیموں کے خلاف غلطیاں عیاں ہو جاتی ہیں۔

’یوں بھی یہ ایک تیز فارمیٹ ہے جس میں مستقل مزاجی حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ پاکستانی ٹیم کا ٹی ٹوئنٹی میں ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے وہ عالمی نمبر ون ٹیم بھی بنی لیکن جب اسے اچھی ٹیموں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہوا تو اس نے میچز ہارے۔‘

رمیز راجہ کے خیال میں خود کو پرکھنے کے لیے اچھی ٹیموں سے کھیلنا بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی ٹیم میں خوشدل شاہ اور حیدر علی جیسے دو تین نئے کھلاڑی آئے ہیں،ان کو موقع ملنا چاہیے۔ اب نئی ٹیم بنانے کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’اگر ملک میں ٹیلنٹ نہ ہوتا تو بات سمجھ میں آتی کہ آپ پرانے کھلاڑیوں کو ہی کھلاتے رہیں لیکن آپ ٹی ٹوئنٹی میں نئے کھلاڑیوں کے ساتھ تجربات نہیں کریں گے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ ٹیلنٹ کا انتخاب کر کے اسے موقع دیں کیونکہ اگر ٹی ٹوئنٹی میں آپ موقع نہیں دیں گے تو پھر کہاں دیں گے؟‘

رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ اچھی ٹیموں کے خلاف سیریز کا انعقاد ممکن بنایا جائے۔ یہ مختصر سیریز ہوتی ہے جو آسانی سے ہوم یا حریف ٹیم کے ملک میں بھی منعقد ہو سکتی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ ہمارے پاس سپنرز اچھے ہیں۔

’ہم نے عماد وسیم، شاداب خان اور محمد حفیظ کا اچھی طرح استعمال کیا، یہ آسان بولرز نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ محمد عامر اور وہاب ریاض بھی بولنگ اٹیک کا حصہ رہے۔ بیٹنگ تبدیل ہوتی رہی لیکن کپتان سرفراز سپنرز پر ہی انحصار کرتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں ’اب بابراعظم کپتان ہیں دیکھنا ہو گا کہ وہ کس طرح اپنے سپنرز کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ پاکستانی ٹیم کو ہمیشہ سپنرز سے ہی فائدہ رہا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp