مرغزار چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا از خود نوٹس: ’کیوں نہ ذمہ داران کو جانوروں کے پنجرے میں بند کر دیا جائے‘


اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت کے مرغزار چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جس طرح چڑیا گھر میں غفلت ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ پوری ریاست ایسے ہی چل رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہاں پر تو لوگ بے زبان جانوروں کا کھانا تک کھا گئے ہیں تو انسانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہو گا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ جانوروں کی ہلاکت کے ذمہ داران کو ان ہی پنجروں میں بند کر دیں جہاں پر یہ جانور رہا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں موجود دو شیروں کی لاہور منتقلی کا حکم دیا گیا تھا تاہم اس مرحلے کے دوران ان کی ہلاکت ہو گئی تھی۔ ان جانوروں کی ہلاکت کی وجہ مبینہ طور پر آگ سے جھلسنے کے علاوہ دم گھٹنا بھی بتائی جاتی ہے۔

اس حوالے سے ایک ایسی بھی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ان شیروں کو پنجروں سے نکالنے کے لیے پنجروں میں آگ لگائی گئی۔

اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے رواں ماہ کے آغاز میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور عدالتی فیصلے پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہ ہونے پر وزارت ماحولیات کی وزیر مملکت زرتاج گل کے علاوہ ماحولیات کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر امین اسلم اور وائلڈ لائف کے بورڈ کے 19 ارکان کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

چڑیا گھر کے جانوروں کی ہلاکت: زرتاج گل، دیگر حکام کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس

’کاون‘ کی منتقلی: امریکی گلوکارہ پاکستانی حکومت کی شکرگزار کیوں؟

کیا تیندوے اسلام آباد کے گنجان آباد علاقوں میں داخل ہو گئے ہیں؟

وائلڈ لائف بورڈ کے نوٹیفیکیشن کا معاملہ

واضح رہے کہ جب ان جانوروں کی ہلاکت کا معاملہ سامنے آیا اور عدالت نے اس پر نوٹس لیا تو پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ نیا وائلڈ لائف بورڈ جو کہ چند ماہ قبل ہی تشکیل دیا گیا تھا اس لیے سرکاری گزٹ میں اس نئے بورڈ کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا اس لیے پرانے گزٹ پر ہی اکتفا کیا جائے۔

پرانے گزٹ کے مطابق وزیر اعظم بھی اس بورڈ کے رکن ہیں۔ عدالت کا اس بارے میں کہنا ہے کہ نئے نوٹیفکیشن کے بارے میں جو بتایا گیا تھا عدالت نے اس کو جانوروں کی منتقلی سے متعلق درخواست پر چند ماہ قبل سنائے جانے والے فیصلے میں من و عن شامل کیا تھا۔

بورڈ کے دیگر ارکان میں مذکورہ وزارت کے سیکرٹری کے علاوہ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب کے علاوہ سینیٹر مشاہد حسین سید بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ سی ڈی اے کے چیئرمین اور اسلام آباد کے مئیر بھی بورڈ کے ارکان میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے توہین عدالت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نئے وائلڈ لائف بورڈ کا نوٹیفیکیشن ابھی سرکاری گزٹ میں نہیں چھپا جبکہ پرانے نوٹیفکیشن میں وزیر اعظم بھی اس کے رکن ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو تو معلوم بھی نہیں ہو گا کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں کیا ہوا ہے۔

بین الاقوامی تضحیک

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہاں پر جانوروں کا کھانا چوری کیا جاتا ہو یا ان کے کھانے کے لیے مختص کردہ فنڈز میں خردبرد کی جاتی ہو وہاں کیا بات کی جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی تضحیک سے بچنے کے لیے اسلام آباد کے چڑیا گھر کے جانوروں کی منتقلی سے متعلق تفصیلی فیصلے میں جانوروں کے کھانا چوری کا ذکر نہیں کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اور بہت کچھ تھا جو عدالت نے فیصلے میں نہیں لکھا ورنہ وہ ہمارے لیے اور بھی شرمندگی کا باعث بنتا۔

اُنھوں نے کہا کہ سماعت کے دوران عدالت کو یہ بتایا گیا تھا کہ اس چڑیا گھر سے بہت سارے جانور غائب ہو گئے ہیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے جن افراد کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری ہوئے تھے ان سے استفسار کیا گیا کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

اس دوران اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے چیئرمین عامر علی احمد نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ عدالتی حکم کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے اور بتایا کہ گذشتہ ماہ کی چھ تاریخ کو مرغزار چڑیا گھر کا کنٹرول بورڈ سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو منتقل کر دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

اُنھوں نے کہا کہ وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ نے عدالتی حکم کے بعد جانوروں کو ان کی پناہ گاہوں میں منتقل کیا۔

اپنے تحریری جواب میں عامر علی احمد نے عدالت کو بتایا کہ جانوروں کی ہلاکت کے واقعے کی بورڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی نے انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ اس وقت وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی حیثیت صرف مشاورتی ادارے کے طور پر ہے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اہم شخصیات وائلڈ لائف بورڈ کی ممبرشپ لے لیتے ہیں لیکن ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ اُنھوں نے پوچھا کہ جو لوگ جانوروں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں وہ ذمہ داری کیوں نہیں لیتے؟

اُنھوں نے کہا کہ بااثر بورڈ ممبران ذمہ داری سے جان چھڑا کر چھوٹے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا دیتے ہیں۔

چیف جسٹس کے استفسار پر عدالت کو بتایا گیا کہ ابھی تک تمام بورڈ ممبران نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع نہیں کروایا۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی امین اسلم اور وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل کے وکیل سلمان اکرم راجہ جمعرات کو عدالت میں پیش ہوئے اور اُنھوں نے اپنے موکلوں کی طرف سے جواب جمع کروانے کے لیے مزید مہلت مانگی۔

چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ذمہ داری لی اور جب چیزیں غلط ہو گئیں تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی کہ یہ ہماری تو ذمہ داری ہی نہیں تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ کابینہ کو سمری بھیجی گئی اور بورڈ بنایا گیا تو عدالت مطمئن ہو گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ جب چیزیں غلط ہوئیں تو کہا گیا کہ وہ نوٹیفکیشن گزٹ میں شائع ہی نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو جانور تکلیف میں ہیں ان کی حفاظت کے لیے کوئی انتظام کیا جائے اور اس ضمن میں ماہرین کی خدمات لی جائیں۔

زرتاج گل اور ملک امین اسلم کے وکیل نے کہا کہ وہ عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ اس حوالے سے مناسب اقدامات کیے جائیں گے اور وہ عدالت کو ان اقدامات کے حوالے سے مطمئن کریں گے۔

عدالت نے توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کے نوٹس پر تمام وائلڈ لائف بورڈ ممبران سے 25 ستمبر تک جواب طلب کر لیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp