امریکہ کا بااثر کونوے خاندانکس طرح ملک میں گہری ہوتی سیاسی تقسیم کی علامت بن گیا
ان کا خاندان امریکہ کے انتہائی بااثر سیاسی خاندانوں میں شمار ہوتا ہے لیکن صرف چند گھنٹوں کے فرق سے دونوں میاں بیوی نے اپنے سیاسی عہدے چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
کیلیانی کونوے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلیٰ ترین مشیروں میں شامل تھیں اور ان کے شوہر جارج حکمران رپبلکن پارٹی کے ایک گروپ کے سربراہ تھے۔
53 سالہ کیلیانی کونوے نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اگست کے آخر میں اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں گی تاکہ اپنے بچوں پر توجہ مرکوز کر سکیں اور بچوں کو ’کم ڈرامہ‘ دیکھنے کو ملے۔
اس سب کی وجہ ان کی بیٹی کا ٹک ٹاک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا اور یہ عین اس وقت ہوا جب نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل رپبلکن جماعت کا قومی کنوینشن جاری ہے۔
امریکہ میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں پائی جانے والے شدید تلخی اور تقسیم کے دوران مشکلات کا سامنا کرنے والا ان کا خاندان واحد خاندان نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
میلانیا ٹرمپ: غیر روایتی خاتونِ اول کے بارے میں ہم کتنا جانتے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ ثانی: جوشیلے باپ سے زیادہ جوشیلا بیٹا
’مجھے الو سے نہیں، ٹرمپ کو عقل مند کہنے سے مسئلہ ہے‘
جو بائیڈن: ’میں روشنی کا اتحادی بنوں گا، اندھیرے کا نہیں‘
وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے قیام کے دوران کیلیانی کونوے سب سے زیادہ ’وفادار‘ اور طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والی مشیر رہی ہیں۔
سرکاری طور پر کیلیانی کونوے کا عہدہ صدر کی کاؤنسلر کا تھا لیکن وہ ٹرمپ انتظامیہ کے انتہائی اہم ارکان میں شامل ہیں اور وہ اکثر و بیشتر سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر صدر ٹرمپ کا دفاع کرتے اور ان کے مخالفین کو جواب دیتی نظر آتی ہیں۔
بدقستمی سے ان کے دو مخالفین ان کے اپنے گھر میں موجود ہیں۔
گو کہ صدر ٹرمپ اور کیلیانی کی طرح ان کے شوہر کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے ہے لیکن حکمران جماعت میں وہ اس جتھے کی سربراہی کر رہے ہیں جو صدر ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کی مخالفت کر رہا ہے۔
ان کی بیٹی متواتر سوشل میڈیا پر صدر ٹرمپ کے مد مقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔
ان کا خاندان اس وقت امریکی سیاست میں پائی جانے والی اس تقسیم کی علامت بن چکا ہے جس کے بارے میں بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی یہ تقسیم اور تلخی مستقبل میں ملکی سیاست پر بہت گہرے اور خطرناک اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
’انتہک اور غیر متزلزل‘
کیلیانی اس وقت سے ٹرمپ کی ٹیم میں شامل ہیں جب انہوں نے صدر کی پہلی انتخابی مہم میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ اگرچہ وہ اس انتخابی مہم میں تاخیر سے شامل ہوئی تھیں لیکن وہ بہت تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ان کی تیسری ’کیمپین مینیجر‘ بن گئیں۔
کیلیانی کے بارے میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا اور وہ ان کے ’ایجنڈے کی انتہک اور غیر متزلزل حمایت کرتی رہیں‘ اور صدر ٹرمپ نے بعد میں انھیں اپنا مشیر مقرر کر دیا۔
ایسے میں جب بہت سے مشیر اور پریس سیکریٹری آتے اور جاتے رہے کیلیانی اپنی جگہ برقرار رہیں اور کبھی لڑائی میں پیچھے نہیں ہٹیں۔
جب صدر ٹرمپ کے ناقدین نے ان تصاویر پر سوال اٹھایا جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ صدر کی حلف برداری کی تقریب میں تاریخ کا سب سے بڑا مجمع اکٹھا ہوا تھا تو انہوں نے یہ کہا کر جواب دیا کہ یہ ’متبادل حقائق‘ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
امریکی نائب صدر کے ’نئے‘ انتخابی نعرے پر طنز کیوں ہو رہا ہے؟
امریکی الیکشن 2020: ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا جو بائیڈن؟
امریکی انتخابات سے ڈاک کے نظام کا کیا تعلق؟
بعد ازاں وہ صدر ٹرمپ کی بیٹی ایونکا کے ملبوسات کی ایک ٹی وی پروگرام میں تشہیر کرتی نظر آئیں جو مبینہ طور پر سرکاری قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی بھی تھی۔
کیلیانی صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کا بھی مسلسل دفاع کرتی رہیں اور اس ضمن میں ’بولنگ گرین کے قتل عام‘ کے حوالے دیتی رہیں جب کہ بولنگ گرین میں کبھی کوئی شدت پسندانہ حملہ ہوا ہی نہیں۔
لیکن ان کا جارحانہ اور تند و تیز طرز عمل صدر ٹرمپ کے انداز گفتگو اور سیاست سے مطابقت رکھتا تھا۔
پتھر دل
ایک شخص جو صدر ٹرمپ کے طرز سیاست کو پسند نہیں کرتے وہ ان کے شوہر جارج ہیں۔
گو کہ وہ ریپبلکن جماعت کے رکن ہیں لیکن وہ جماعت کے اندر ایک ایسے گروپ کی سربراہی کر رہے ہیں جسے لنکن منصوبے کا نام دیا جاتا ہے اور جو صدر ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ ناصرف اپنی مشیر کے شوہر کی مخالفت سے آگاہ ہیں بلکہ ان پر شدید تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔
https://twitter.com/realDonaldTrump/status/1108335293671845888
صدر ٹرمپ کیلیانی کے شوہر پر کھلے عام تنقید کرتے رہے ہیں اور ایک ٹوئٹ میں ’دوزخ سے آنے والا شوہر‘ اور ’پتھر دل‘ قرار دے چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ جارج انتہائی تلخ اس لیے ہیں کیونکہ انہوں نے اسے امریکی محکمۂ انصاف میں اعلیٰ نوکری نہیں دی۔
اس موقع پر کیلیانی کو اپنے شوہر کا دفاع کرنا پڑا اور انہوں نے کہا کہ جو کچھ صدر ٹرمپ نے کہا ہے وہ درست نہیں ہے۔
یہ سب کچھ ایک خاندان کے لیے ایک کڑی آزمائش ثابت ہو سکتا ہے لیکن صف اول کی سیاست سے دونوں کے پیچھے ہٹنے کے کچھ اور محرکات ہیں۔
’میری زندگی تباہ کر دی‘
گزشتہ چند ہفتوں میں ٹک ٹاک پر جذباتی پیغامات جاری کرنے کے بعد کیلیانی اور جارج کی بیٹی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ ان کی ماں کی نوکری نے ان کی زندگی تباہ کر دی ہے۔
15 برس کی کلوڈیا نے سوشل میڈیا پر یہ سوچ اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ انہیں قانونی طور پر اپنے والدین سے آزادی مل جائے اور انہوں نے ڈیموکریٹ جماعت کے امیدوار جو بائیڈن کی حمایت کی ہے۔
اس ہی وجہ سے کیلیانی اور جارج نے اپنے عہدے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی فیملی کو زیادہ وقت دینے کے لیے اپنے عہدوں سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔
سیاست میں اس سطح کی مصروفیات کوئی معمولی یا عام بات نہیں ہے لیکن جو مسائل اس خاندان کو درپیش ہیں وہ اب امریکہ میں بہت عام ہیں۔
گہری تقسیم
آزاد تحقیقاتی ادارہ پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ تقسیم اور نفرتیں امریکہ کی سیاست میں شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہیں۔
ریپبلکن اور ڈیموکریٹ ایک دوسرے کی پالیسیوں کو صرف غلط نہیں سمجھتے بلکہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ’غیر اخلاقی‘ جیسے لفط استعمال کرتے ہیں۔
ریپبلکن جماعت کے اندر بھی تقسیم گہری ہو گئی ہے جیسا کہ کیلیانی اور جارج میں اختلافات اور صدر ٹرمپ کی سخت گیر قیادت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ ہیں یا آپ ان کے مخالف ہیں اور کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ ڈیموکریٹ اور ریپبلکن جماعتوں کے 75 فیصد حمایتی نہ صرف ایک دوسرے کی پالیسی پر اختلاف کرتے ہیں بلکہ وہ دنیا کے بارے میں بنیادی حقائق پر بھی ایک دوسرے سے متفق نہیں ہوتے۔
سابق صدر براک اوباما نے اپنے آخری سرکاری خطاب میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کے دورۂ اقتدار میں امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان تلخیوں اور شکوک و شبہات میں کمی نہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا۔
گو کہ یہ امر محال ہو گیا ہے کہ آپ کو ایسے لوگ ملیں جو حالات کو دوسری نگاہ سے بھی دیکھ سکیں، کونوے فیملی ایک ایسا خاندان ہے جو دوسروں کے لیے امید کا باعث بن سکتا ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں کی ایک اور ویب سائٹ ’فائیو تھرٹی ایٹ‘ کے مطابق امریکہ میں تین میں سے ایک شادی شدہ جوڑا مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے ہیں۔
اگر کونوے فیملی اپنے سیاسی اختلافات کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے اور اپنے اہم عہدوں کی قربانی دے سکتا ہے تو دوسرے لوگ بھی ایسا کر سکتے ہیں کہ اپنے سیاسی اختلافات کو اپنی ذاتی زندگی پر اثر انداز نہ ہونے دیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).