کراچی میں بارشیں: شہری کیا احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں؟


کراچی، بارش، اربن فلڈنگ

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی گذشتہ چند ماہ کے دوران بے وقت بارش، ندیوں کا منظر پیش کرنے والی سڑکوں اور نالوں کی صفائی کے حوالے سے خبروں میں رہا ہے۔

تاہم منگل سے شروع ہونے والی ریکارڈ بارشوں کے باعث شہر میں نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے جبکہ گھروں کے اندر بھی پانی بھر جانے کے مناظر سوشل میڈیا سمیت تمام ٹی وی چینلز پر نظر آ رہے ہیں۔

اسی طرح بدھ کو چترال میں متعدد سیلابی ریلوں کے باعث اپر چترال کا لوئر چترال سے رابطہ منقطع ہونے کے علاوہ انفراسٹریکچر کو نقصاں پہنچا ہے جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق 27 اور 28 اگست کی درمیانی رات سے شمالی علاقہ اور پاکستان کے تمام بڑے دریاؤں کے بلائی علاقوں میں شدید بارش متوقع ہے۔

کراچی میں محکمۂ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق جمعے کو بھی بارشوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے مگر اس کی شدت جمعرات جتنی نہیں ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی: ’اتنی شدید بارش کبھی نہیں دیکھی، نہ رکی تو کیا بنے گا‘

کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بارش سے تباہی، ’رین ایمرجنسی‘ نافذ

کراچی: ’اتنی شدید بارش کبھی نہیں دیکھی، نہ رکی تو کیا بنے گا‘

’حکومتی اہلکار کراچی میں گھومتے رہے مگر انھیں چلو بھر پانی نہیں ملا‘

حکام کے مطابق اس بارش کی وجہ بحیرۂ عرب میں بارشوں کے سسٹم کی موجودگی ہے جسے بلوچستان سے آنے والے ہوا کے کم دباؤ نے تقویت بخشی ہے۔

محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے بعد بارش کا یہ سلسلہ جمعے کو صبح کے وقت دوبارہ شروع ہوسکتا ہے جبکہ ایک روز وقفے کے بعد 29 اور 30 اگست کو دوبارہ بارش ہوسکتی ہے۔

حکام کے مطابق شہریوں کو اس دوران احتیاطی تدابیر اپنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس دوران کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔

بی بی سی نے اس صورتحال پر حکام سے بات کی ہے جس میں اس بات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شہری بارشوں سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال میں اپنا اور اپنے عزیزوں کا تحفظ کس طرح کرسکتے ہیں۔

کراچی، بارش، اربن فلڈنگ

شہری کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر میر عالم ریسیکو 1122 خیبر پختونخواہ میں چار سال سے بحیثیت ضلعی ڈائریکٹر کے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے حالیہ سیلاب اور ملک کے دیگر علاقوں میں آنے والے سیلاب کی صورتحال عموماً مختلف ہوتی ہے۔ بہت زیادہ تعمیر و ترقی کی وجہ سے قدرتی نکاسی آب میں تبدیلی آ چکی ہے اور سیلاب اور دیگر خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر میر عالم کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں سیلاب کا خطرہ ہے اور اس حوالے سے محکمہ موسمیات نے کوئی وارننگ وغیرہ جاری کی ہے تو پھر مستقبل کے خطرے سے بچنے کے لیے کچھ بنیادی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

ان کے مطابق ’جس میں سب سے پہلے اپنے گھر کی انگیٹھی، پانی و بجلی کے ہیٹر اور بجلی کے پینل کو اونچا کر کے لگائیں۔ بجلی کی وائرنگ کو چیک کریں، اگر کوئی نقص ہو تو دور کریں۔

’ضرورت کی ایسی اشیاء جو پہلی منزل پر ہونے کی وجہ سے پانی سے خراب ہوسکتی ہیں ان کو اونچا کر کے اور اگر گھر کی دوسری منزل ہو تو وہاں رکھیں۔‘

کراچی، بارش، اربن فلڈنگ

انھوں نے کہا کہ سیلاب کے پانی کو اپنے گھر کے اندر، صحن، نالیوں میں جمع ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

’اگر ممکن ہو تو سیلاب کے پانی کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے باڑ بنائیں، اگر کسی کو تہہ خانے کی سہولت حاصل کرنی ہو تو اس کی دیواروں کو واٹر پروف بنائیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کی صورتحال کے اندر شہریوں کو کچھ غیر معمولی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ سب سے پہلے جس عمارت میں رہائش پزیر ہیں اس کے بارے میں تعین کریں کہ وہ کتنی محفوظ ہے۔ اگر محفوظ نہیں ہے تو محفوظ بنانے کے اقدامات کریں ورنہ عمارت خالی کر دیں۔

انھوں نے کہا کہ جن علاقوں میں اب پانی کھڑا ہے وہاں سے اس کو نکلنے میں وقت لگ سکتا ہے اس لیے اگر ممکن ہو تو زیادہ پانی والے مقام سے فی الفور نقل مکانی کر لیں۔

’یہ سب سے زیادہ محفوظ طریقہ ہے کیونکہ کھڑے پانی سے عمارتوں کو خطرات لاحق ہونے کے علاوہ بجلی کے کرنٹ وغیرہ لگنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔‘

پانی میں باہر نکلنا پڑے تو کیا کیا جائے؟

ڈاکٹر میر عالم کے مطابق کراچی جیسی صورتحال میں اگر شہریوں کو انتہائی ضرورت کے تحت باہر نکلنا پڑے تو ان کو چند احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہییں۔

‘ہاتھ میں کوئی ٹھوس چیز رکھیں عموماً ایک چھڑی جو کہ بزرگ افراد استعمال کرتے ہیں فائدہ مند رہتی ہے۔

‘یہ سہارا بھی دیتی ہے اور چلتے ہوئے اس کی مدد سے گڑھے وغیرہ کی نشاندہی بھی ہو سکتی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ پاؤں میں مضبوط جوتے پہنیں، عموماً لانگ شوز کہلائے جانے والے جوتے پانی میں زیادہ حفاظت کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چھتری سے بہتر ہے کہ اچھی کوالٹی کی برساتی پہنی جائے۔ انھوں نے کہا کہ موٹر سائیکل، چھوٹی گاڑیاں بالکل استعمال نہیں کرنی چاہییں کیونکہ یہ عموماً پانی میں بند ہوجاتی ہیں جس سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انفرادی اور اجتماعی سطح کے اقدامات

ڈاکٹر میر عالم کا کہنا تھا کہ ہنگامی صورت حال کے لیے سامان کی ایسی کٹ پاس ہونا ضروری ہے جس میں خراب نہ ہونے والا کھانا، پانی، بیٹری پر چلنے والا یا ہینڈ کرنک والا ریڈیو، اضافی فلیش لائٹ اور بیٹریاں شامل ہوں۔

’اسے آپ اپنی گاڑی میں بھی رکھ سکتے ہیں، اس کٹ میں ممکنہ طور پر ادویات کے نسخوں کے نقول اور طبی سامان، بستر اور کپڑے، جس میں سلیپنگ بیگ اور تکیے شامل ہوں۔

’اہم دستاویزات کی نقول، اہم قریبی عزیزوں، بینک، امدادی اداروں کے فون نمبر الگ سے ڈائری میں لکھے ہوں، قانونی دستاویزات جو وقت ضرورت شناخت وغیرہ کے کام آسکیں۔‘

گلستان جوہر میں لینڈ سلائیڈ

ڈاکٹر میر عالم کا کہنا تھا کہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ بات کرنا بھی لازم ہے جس میں ممکنہ طور پر کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لیے کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

’جیسے سیلاب یا آفت آنے پر اگر خاندان کے لوگ اکٹطے نہ ہوں تو ایک دوسرے کے ساتھ ممکنہ رابطے کا ذریعہ کیا ہو گا، ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کیسے ہو گی اور ہنگامی صورت حال میں کیا کریں گے۔

’اپنے محلے کے اندر اور باہر ان جگہوں کی منصوبہ بندی کریں جہاں آپ کے گھر والے اور محلے والے ملیں گے اور سیلاب کی صورت میں اونچی جگہ کی طرف جائیں۔‘

بلاضرورت باہر نہ نکلیں

کچھ دن قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سندھ حکومت کے ترجمان سینیٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ اربن فلڈنگ ایک حقیقت ہے اور اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ شہری احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

انھوں نے کہا کہ شہر کے دورے کے دوران انھوں نے لوگوں کو اس بارش میں بھی موٹر سائیکلوں پر اپنے خاندانوں کے ہمراہ سفر کرتے دیکھا جس سے انھیں اجتناب کرنا چاہیے۔

حکام کے مطابق اس دوران عام طور پر بجلی کا کرنٹ لگنے سے متعدد ہلاکتیں ہو چکی ہیں اس لیے شہریوں کو بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے دور رہنا چاہیے۔

گھروں میں بجلی کی ناقص وائرنگ بھی حادثات کا سبب بن سکتی ہے جبکہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ گھروں پر مناسب مقدار میں کھانے پینے کا سامان محفوظ مقام پر رکھیں۔

گلی محلوں میں بارش کا پانی اکھٹا ہوتا ہے، تو اس وقت لوگ چلتے ہوئے، یا گاڑی یا موٹر سائیکل پر سواری کرتے ہوئے زیادہ تر کسی گڑھے میں گر کر حادثات کے شکار ہوتے ہیں، اس لیے بلاضرورت باہر نہ نکلیں۔

اس دوران تیز بہتے ہوئے پانی میں کچرا اور ملبہ بھی آ رہا ہوتا ہے، جس میں ٹھوس اور تیز دھار اشیا بھی ہو سکتی ہیں، ان سے بھی ٹکرانا انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔

بارشوں کے دوران بڑے بھی باہر نکلنے میں احتیاط کریں مگر خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp