نوشابہ کی ڈائری: ایم کیوایم والے کہہ رہے ہیں، ”فائنل راؤنڈ“ ہونا ہے



8 دسمبر 1990

اللہ اللہ کرکے بی اے فرسٹ ائر میں ایڈمیشن ہوا، فراغت سے جان چھوٹی۔ یہ سال کتنی خوشیاں لے کر آیا ہے، تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا، بھائی جان کی بیٹی ہوئی، باجی اور غنی بھائی حیدرآباد چھوڑ کر کراچی آگئے، اور سب سے بڑی خوشی یہ کہ بے نظیربھٹو کی حکومت چلی گئی۔

بے نظیر کے جانے پر ہمارے محلے میں مٹھائی بٹی، جیسے ہی شام کو اطلاع ملی کہ صدرغلام اسٰحق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا ہے لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، ہماری گلی یوں بھر گئی تھی جیسے کوئی جلسہ ہورہا ہو۔ بڑے تبصروں میں مصروف تھے، لڑکوں کی ٹولیاں نعرے لگا رہی تھیں، عورتیں اپنے اپنے گھر کے دروازے پر پردے کی طرح لٹکی ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہی تھیں۔ کتنی شدید ہوائی فائرنگ ہوئی تھی اس شام۔ ہوائی فائرنگ تو زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔

خوف ہو تو فائرنگ، خوشی ہو تو فائرنگ، غم ہو تو فائرنگ، ہڑتال میں فائرنگ، جلسے جلوسوں میں فائرنگ، اب تو شادی کی رسموں میں ہوائی فائرنگ بھی شامل ہوگئی ہے۔ بے نظیر کی حکومت ختم ہونے کی مجھے بھی بہت خوشی ہوئی۔ کتنی قتل وغارت گری ہوئی اس دور میں، کتنے لوگ مارے گئے۔ اب اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت آنے اور نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد شاید سکون ہو جائے۔ اسلامی جمہوری اتحاد سے ایم کیوایم کا معاہدہ پہلے ہی ہوچکا ہے، معاہدہ تو خیر پیپلزپارٹی سے بھی ہوا تھا، بات تو تب ہے جب معاہدے پر عمل بھی ہو۔

بھائی جان کہتے ہیں نواز شریف بے نظیر سے بہتر ثابت ہوگا کیوں کہ وہ پنجابی ہے، اسے بے نظیر کی طرح سندھیوں کو خوش رکھنے کے لیے مہاجروں کا حق مارنے کی ضرورت نہیں۔ کتنے کم وقت میں امیدیں بدل گئیں۔ یہی کوئی دو سال پہلے کہا جاتا تھا ایم کیوایم نے پیپلزپارٹی سے معاہدہ کرکے بالکل ٹھیک کیا، دونوں جماعتیں سندھ کی ہیں، ہمارے مفادات ایک ہیں۔ سوچیں، بیانات اور حالات کتنی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ چند دن پہلے ہی جارج آرویل کا ناول ”1984“ ختم کیا ہے، اپنے اردگرد بدلتے خیالات دیکھ کر لگتا ہے ہم بھی کسی ”بگ برادر“ کے راج میں جی رہے ہیں۔

”پیر صاحب کسی سے معاہدہ کریں تب بھی صحیح، معاہدہ ختم کردیں تب بھی صحیح، اور دوبارہ اسی سے کر لیں پھر بھی صحیح“ یہ ایم کیوایم کے ایک کارکن نے ذیشان سے کہا تھا، جو ان کا بچپن کا دوست ہے۔ ذیشان نے مجھے یہ بات ہنستے ہوئے یہ کہہ کر بتائی تھی ”نوشی! یہ ایم کیوایم والے سب روبوٹ ہیں۔“ ذیشان کو سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں۔ انھیں تو بس کرکٹ، فلمیں، ہلا گلا اور دوستوں کی محفلیں چاہییں۔ کل بھی فون آیا تھا، میں نے سیاست کی کوئی بات کی فوراً بولے ”ابے یار چھوڑو سیاست ویاست اپنی بات کرو۔“

سیاست رہی الگ ذیشان سے تو کوئی دو منٹ سنجیدہ گفتگو کروا کے دکھا دے۔ ہر بات میں شرارت، بات بات پر مذاق۔ جب بھی ان کی کال آتی ہے مجھے باربار منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی دبانی پڑتی ہے۔ جب میں نے بتایا بھائی جان کے دونوں بچوں فہد اور فرح کا نام میں نے رکھا ہے تو جھٹ بولے بس اب کسی بچے کا نام مت رکھنا سارے اچھے نام بانٹ دو گی تو اپنے لیے کیا بچے گا! پہلے تو میری سمجھ میں نہیں آیا جیسے ہی سمجھی بدتمیز کہہ کر لائن کاٹ دی۔ واقعی کتنے بدتمیز ہیں۔

ذیشان پر پاجامہ کرتا کتنا اچھا لگتا ہے۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ فرح کی پیدائش پر آئے تھے تو پاجامہ کرتا پہنے تھے۔ دل چاہتا تھا بس دیکھتی ہی جاؤں۔ جب سے ایم کیوایم مقبول ہوئی یہ لباس بھی بہت عام ہوگیا ہے ورنہ پہلے تو بزرگ ہی پاجامہ پہنتے تھے۔ ذیشان بتارہے تھے کہ جب وہ سولہ سترہ سال کے تھے تو ان کی امی نے ان کے لیے پاجامہ کرتا سیا، وہ پہن کر باہر نکلے تو دوستوں نے ”لکھنؤ، لکھنؤ“ کہہ کر ریکارڈ لگانا شروع کر دیا، اور اب ان کا مذاق اڑانے والے وہ سارے لڑکے پاجامہ کرتا پہنتے ہیں۔

سیاسیات پڑھتے ہوئے قومیت کے عناصر سے واقفیت ہوئی ان میں زمین کے علاوہ زبان، لباس اور ثقافت بھی شامل ہیں۔ میں غور کرتی ہوں تو زبان کے علاوہ مہاجروں میں کوئی مشترکہ عنصر نظر نہیں آتا۔ زمین تو ہے ہی نہیں، یوپی دہلی والوں اور میمنوں، گجراتیوں کی ثقافت بالکل الگ، کسی گجراتی کو میمن کہہ دو تو وہ چڑ جاتا ہے، راجستھان سے آنے والے قائم خانیوں کے رنگ ڈھنگ جدا، میو، رانگڑ اور لکھنؤ والوں کا طرززندگی ایک دوسرے سے کوسوں دور، حیدرآبادیوں اور بہاریوں کو اپنی اپنی ثقافت پر ناز۔

اور زبان کے معاملے میں بھی یہی حالت، اکثریت کی زبان اردو سہی لیکن مہاجر کی تعریف میں شامل کتنی بڑی تعداد میمنی، گجراتی، میواتی بولتی ہے۔ پھر بھی یہ سارے کے سارے مہاجر قومیت کے نام پر ایک ہوگئے، تو کیا کتابوں میں بس کتابی باتیں ہیں حقیقت سے دور پرے کی؟ ڈاکٹر عمران فاروق کا کتابچہ ”مہاجر قومیت اور زمین“ بھی اس سوال کا جواب نہ دے سکا، انھوں نے تو بس کچھ اس طرح کی دلیل دے کر بات ٹال دی کہ مہاجر جن صوبوں سے آئے ہیں وہ ان کی زمین تھی۔

ڈاکٹرعمران فاروق دیکھنے میں کتنے چھوٹے سے لگتے ہیں، جیسے کسی یونی ورسٹی کا طالب علم، لگتا ہی نہیں کہ اتنی بڑی تنظیم کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ خیر، یہ سوال شمن دادا سے پوچھا تو وہ یوں بولنا شروع ہوئے جیسے اس سوال کا جواب جانے کب سے سوچے بیٹھے ہوں، ”بٹیا! بعض اوقات خوف اور تعصب اپنے شکار گروہوں کو یوں جوڑتا ہے کہ وہ ایک چھتری تلے یا ایک قلعے کے اندر اکٹھے ہو جاتے ہیں، جسے قوم کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں اسلام کے علاوہ کیا مشترک تھا، رہی اردو تو وہ ہندو مسلمان سب ہی کی زبان تھی، پھر جب ہندی کا شور اٹھا تو پورے برصغیر کے مسلمان اپنی اپنی زبانوں کے نہیں ہندی کے مقابلے میں اردو کی حمایت پر یک جا ہوگئے، اور ہندو ہندی کے لیے یک جان۔

پاکستان بنتے ہی ہندی کا خطرہ ٹل گیا تو اردو اجنبی لگنے لگی، بنگال اور سندھ میں قوم پرستی کا پہلا نشانہ اردو ہی بنی۔ البتہ پنجابی کو اردو سے محبت بھی تھی، اور اردو پنجاب کی ضرورت بھی، یہی وجہ ہے کہ ’پنجاب کا مقدمہ‘ بھی اردو میں لکھا گیا اور پنجاب و پنجابیت کے ترجمان اور اردو بولنے والوں کے خلاف مخاصمت سے بھرے رسالے“ آواز پنجاب ”کی اشاعت بھی اردو میں ہوئی۔ اردو پاکستان کے بانی دو قومی نظریے کا اسلام کے بعد دوسرا نمایاں ترین مظہر تھی، لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی مادری زبان نہیں تھی۔

ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوؤں کے تعصب اور ان کے خوف نے ایک مشترکہ احساس دیا اور وہ ایک قوم بن گئے۔ یہی ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں سے پاکستان آنے والوں کا ماجرا ہے، انھیں بھی خوف اور تعصب پر ردعمل نے ایک مشترکہ احساس اور یکساں تجربے کی رسی سے باندھ دیا ہے۔ اور بٹیا اس مشترکہ احساس سے طاقت ور عنصر کوئی نہیں نہ زبان نہ زمین، لیکن اس سے زیادہ عارضی بھی کوئی نہیں۔“

واقعی یہ احساس بہت طاقت ور ہے۔ ابو جو کل تک سندھی کہلانے پر مصر تھے اب کہتے ہیں ”ارے اب تو مہاجر بنا ہی دیے گئے۔“ ورنہ کوئی سندھ یا سندھیوں کے بارے میں ذرا بھی غلط بات کر دے تو ابو لڑ پڑتے تھے۔ میں اس وقت شاید ساتویں کلاس میں تھی جب ہمارے گھر لاہور سے ایک رشتے دار آئے تھے۔ نام شاید رفیع تھا، رفن کہلاتے تھے، ہم انھیں رفن چچا کہتے تھے۔ انھوں نے کسی بات پر کہہ دیا، ”سندھی بڑی کاہل قوم ہے“ ، بس پھر کیا تھا، ابو اٹھ کر کمرے میں گئے، اپنے دوست سے تحفے میں ملنے والے رلی اور اجرک اٹھائیں اور لاکر رفن چچا کے سامنے پھیلا دیں، ”اسے رلی کہتے ہیں، غور سے دیکھیے، کوئی کاہل ہاتھ اسے سی سکتے ہیں؟

․․․اور یہ اجرک کے گل بوٹے ․․․کوئی ہڈ حرام یہ محنت کر سکتا ہے؟ کبھی شاہ عنایتؒ کے مریدوں اور پیرصبغت اللہ شاہ راشدیؒ کے حروں کی قربانیوں، بہادری اور جاں نثاری کی تاریخ پڑھو، سر دھڑ کی بازی لگا دینا کاہلوں کا شیوہ نہیں ہوا کرتا۔“ رفن چچا نے کچھ دیر بحث کی، مگر انھیں ابو کے دلائل کے سامنے خاموشی اختیار کرنی پڑی۔ وہی ابو اب سندھیوں کو متعصب کہنے لگے ہیں، ویسے وہ تو مہاجروں کو بھی احساس برتری کا شکار کہتے ہیں۔

جب سے باجی نے بتایا تھا کہ غنی بھائی انھیں لے کر کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے تب سے میں بے چین تھی کہ وہ لوگ جلد سے جلد یہاں آجائیں۔ آ تو گئے مگر کتنی دور لانڈھی میں آکر بسے ہیں۔ بھائی جان نے تو غنی بھائی سے کہا تھا ملیر میں گھر لے لیں یہاں ہمارے محلے ہی میں ان دنوں ایک گھر بک رہا تھا مگر غنی بھائی کے زیادہ تر رشتے دار لانڈھی کورنگی میں ہیں، اس لیے انھوں نے وہیں مکان لیا ہے۔ شکر ہے مہاجروں اور پٹھانوں میں دوستی ہوگئی ورنہ ملیر سے لانڈھی جاتے ڈر لگتا تھا، بیچ میں پٹھانوں کے علاقے قائدآباد اور داؤد چورنگی پڑتے ہیں نا۔

اب تو صورت حال بدل گئی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ولی خان نے الطاف حسین سے ملاقات کی، پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن کا وفد الطاف حسین سے ملا، سو اب لگتا ہے مہاجروں اور پٹھانوں کی لڑائی ختم ہوگئی۔ ایم کیوایم اور اے این پی میں تو بہت ہی اچھے تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔ الیکشن میں بھائی جان کی ڈیوٹی گڈاپ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر لگی تھی۔ بتارہے تھے وہاں پیپلزپارٹی والوں نے ایم کیوایم کے کارکنوں پر حملہ کر دیا تو اے این پی والے ایم کیوایم والوں کی مدد کو آ گئے۔ کہنے لگے منظر یہ تھا کہ آگے آگے ایم کیوایم والے بھاگ رہے ہیں، پی پی پی کے کارکن ڈنڈے لیے ان کا پیچھا کر رہے ہیں اور ایم کیوایم والوں کو بچانے اور پی پی پی والوں کو مارنے ان کے پیچھے اے این پی والے بھاگے جا رہے ہیں۔

بھائی ایم کیوایم کے پکے حامی ہیں۔ وہ تو گھریلو ذمے داریوں اور ابو کے خوف نے روک دیا ورنہ ایم کیوایم کے کارکن بن چکے ہوتے۔ اسی وجہ سے ان کے آفس والے انھیں ”ساتھی“ کہتے ہیں۔ ایک دن بھائی جان کے دوست قیصر بھائی نے انھیں ساتھی کہہ کر مخاطب کیا تو میں نے بھائی جان سے اس کا مطلب پوچھا تھا۔ کہنے لگے ایم کیوایم والے ایک دوسرے کو ساتھی کہتے ہیں۔ یعنی ایسے ہی جیسے کمیونسٹ ایک دوسرے کو کامریڈ کہتے ہیں۔ جب الطاف حسین نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی تو ان کی روزانہ کی حالت کے بارے میں ہر روز شہر کے ہر علاقے میں کسی دیوار پر رپورٹ لگائی جاتی تھی، جس میں الطاف حسین کا بلڈپریشر اور درجۂ حرارت درج ہوتا تھا۔

بھائی جان لازمی یہ رپورٹ دیکھنے جاتے تھے۔ یاد آیا، الطاف حسین کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے راشد ربانی نے بھی ایم کیوایم کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کردی تھی۔ بھائی جان نے ایم کیوایم کے ’ہفتۂ صفائی‘ میں بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔ کیا دن تھے وہ بھی۔ محلے کا ہر چھوٹا بڑا ہاتھ میں جھاڑو پکڑے گلیاں سڑکیں صاف کر رہا تھا۔ میں نے بھائی جان کی جھاڑو دیتے ہوئے تصویریں بھی بنائی تھیں۔ شاہانہ باجی کی شادی کے لیے کیمرے میں ریل ڈلوائی تھی وہ کام آ گئی۔

مگر کم بخت ریل نے دھوکا دیا دس گیارہ تصویریں ضائع ہوگئیں۔ انھی میں بھائی جان کی جھاڑو دینے کی تصویریں بھی تھیں۔ شاہانہ باجی کی شادی میں کتنا مزہ آیا۔ میں پورا ہفتہ بڑی خالہ کے گھر رکی تھی۔ شہاب بھائی سے کتنے دنوں بعد ملاقات اور دیر تک باتیں ہوئیں۔ سب رات رات بھر جاگتے رہتے تھے، ایک رات شہاب بھائی، بھائی جان، ماموں، خالو سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے، میں بھی عورتوں کو چھوڑکر ان میں گھس کر بیٹھ گئی۔ ماموں نے پوچھا ”ارے شہاب وہ مساوات اخبار نے کیا بکواس چھاپی ہے۔

“ شہاب بھائی نے ہنس کر کہا وہ جناح پور کی کہانی؟ ارے بکنے دیں۔ میں نے فوراً سوال جڑ دیا کیسی کہانی شہاب بھائی؟ پھر انھوں نے تفصیل بتائی۔ ”لکھا ہے کہ ایم کیوایم جناح پور کے نام سے کراچی اور حیدرآباد پر مشتمل آزاد ریاست بنانے کی سازش کر رہی ہے، جو سنگاپور کی طرح فری پورٹ ہوگی۔ اس ریاست کا سکہ ڈالر کہلائے گا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ اس معاملے میں الطاف حسین کو نواز شریف اور نواب زادہ نصراللہ خان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ رپورٹ ’مساوات‘ سے لے کر ’جسارت‘ نے بھی شایع کی ہے۔“

حیرت ہے جنھوں نے پاکستان بنایا ان پر ملک کے خلاف اتنی بڑی سازش کا الزام۔ ’مساوات‘ پیپلزپارٹی کا حامی اخبار ہے اور یہ الزام پیپلزپارٹی کے دور میں لگا، مقصد شاید ایم کیوایم پر پابندی لگانا تھا۔ اس دن شہاب بھائی نے تو اس کا یہی مقصد بتایا تھا اس دور میں یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ ایم کیوایم کے خلاف بہت بڑی کارروائی ہونے والی ہے، اسی لیے الطاف حسین لندن چلے گئے تھے اور بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہی واپس آئے۔

یہ سب جھوٹ سہی لیکن ایم کیوایم والے ایک عرصے سے نجی محفلوں میں یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ”فائنل راؤنڈ“ ہونا ہے، ایک آخری لڑائی۔ بھائی جان بھی یہ کہتے ہیں، شہاب بھائی نے بھی کئی دفع یہی کہا اور میری دوست لبنیٰ بھی بتارہی تھی کہ اس کا بھائی جو ایم کیو ایم کا یونٹ انچارج ہے یہی کہتا ہے۔ یہ آخری لڑائی کس سے، کیوں اور کب ہونا ہے؟ کوئی نہیں بتاتا۔

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری (13): ایک دوسرے کے اغوا شدہ کارکنوں کا آپس میں تبادلہنوشابہ کی ڈائری: جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).