کیا نواز شریف ”ڈیل آف دی سنچری“ کرکے لندن گئے؟


توشہ خانہ ریفرنس میں اپیل کرنا نواز شریف کو مہنگا پڑ گیا۔ عدالت میں میڈیکل گراؤنڈ پر عدالتی ضمانت اور ای سی ایل سے حکومتی رضامندی پر نام کے انخلا کا ذکر ہوا تو حکومت کو نواز شریف کی واپسی کا خیال آیا اور پھر برسات کے مینڈکوں کی طرح دھڑادھڑ ہر طرف سے نواز شریف کی بیماری کی کہانی، میڈیکل رپورٹس میں فراڈ، ضمانت کی داستان، ضامن کا کردار، واپسی کا طریقہ کار پر وزراء اور ہمنوا بولنے لگے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نواز شریف کی داستان کا آغاز 35 سال پہلے بقول شیخ رشید گیٹ نمبر چار سے ہوا۔ اور اس کے زیرسایہ انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ ملکی سیاست کے کئی مد و جزر دیکھے۔ جڑیں اتنی گہری تھیں کہ 12 اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف نے جب حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کو جیل بھیجا توکچھ ہی عرصے میں دوطرفہ این آر او کر کے دونوں بھائی سیاسی خارزار سے گزرنے کے بجائے عیش وآرام کی جلاوطنی پر سعودی عرب چلے گئے۔

8 سال بزنس کیا اور ملکی سیاست کو اپنی نہج پر چلنے دیا۔ 8 سال بعد جس کے بل بوتے پر باہر گئے انہیں کے زیر سایہ ایک اور این آر او 2007 میں ہوا تودونوں بھائی وطن ہیرو بن کر واپس آگئے اور ملکی سیاست کا حصہ بن کر 2013۔ 2018 تک پھر ایوان اقتدار میں رہے۔ اس دوران کراچی آپریشن اور ضرب عضب جیسے اقدمات سے فوج اور عوام کے ساتھ مل کر امن کی بحالی میں کامیاب ہوئے۔ یہ الگ بات کہ پانامہ لیکس اقتدار کے کوریڈور سے جڑ ی کرپشن کی کہانیوں کو سرعام لے آیا جس کے سبب کھلنے والے کھاتوں کے ہاتھوں ملک کے طول و عرض میں ”مجھے کیوں نکالا“ کا شور مچ گیا۔

س بار نواز شریف کی یہ پکار نہیں سنی گئی اور انہیں پابند سلاسل ہونا پڑا۔ ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ آہستہ آہستہ مفاہمت کے لبادے میں لپٹ گیا اور سیاست ”کچھ لو کچھ دو“ کی ڈگر پر چلنے لگی۔

2019 میں جب عدالتی کارروائی اپنے عروج پر تھی تو دنوں میں نواز شریف کی حالت بگڑنے لگی اور ن لیگ کے متوالوں نے ایسی افراتفری پیدا کی کہ خود حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا داروں نے میڈیکل رپورٹس کی شکل میں وہ دھول اڑائی کہ بستر مرگ پر لیٹے نواز شریف بقدم خود چل کر قطری شاہ کی بھیجی ائر ایمبولنس میں انگور کھانے جا بیٹھے۔ آٹھ ہفتوں کی ضمانت آٹھ مہینوں پر محیط ہوگئی۔ مگر بے شمار جان لیوا بیماریوں کا شکار جان بلب نواز شریف ا ستقامت سے ان سب سے نبرد آزما رہے تآنکہ ملکی سیاست میں آل پارٹیز کانفرنس کا غلغلہ اٹھا اور ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی واپسی، میڈیکل رپورٹس اور حاضری کا سوال پوچھ لیا اور یوں برسات کے مینڈکوں کے شور میں بھی اضافہ ہو گیا۔

سوال تو کچھ اور بھی پیدا ہوتے ہیں مثلاًحکومت کی ناک کے نیچے اگر رپورٹس جعلی بن رہی تھیں تو حکومتی ماہرین کہاں تھے؟ ڈاکٹر یاسمین راشد تو اسپتال میں ان کو وزٹ کرتی تھیں اور تما م میڈیکل معاملات کو دیکھ رہی تھیں۔ ڈاکٹر فیصل سلطان تھے، ڈاکٹر طاہر شمسی تھے، ڈاکٹر ایاز تھے۔ یہ سب تو اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ رپورٹس ٹھیک ہیں لیکن حکومت میں بیٹھے سیاست کے ڈاکٹرز ان رپورٹس پر شک کی نگاہ کے سوا کوئی اور نگاہ ڈالنے کو تیار نہیں ہیں۔

حکومتی وکیل کہاں تھے جب ضمانت اور ضامن کا اسٹامپ پیپر لکھا جا رہا تھا؟ جس کرپشن پر نواز شریف اندر تھے اسی کرپشن کے زور پر ببانگ دہل وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ احتساب کا دعویٰ کرنے والی حکومت احتساب کی نبض پر ہاتھ کیوں نہ رکھ سکی؟ کیا یہ سب صرف رحم اور خدا ترسی تھی یا این آر او تھا۔ کیونکہ ان دنوں اسٹیٹ بینک میں ایک بڑی رقم کے جمع ہونے کی خبریں بھی گرم تھیں۔

کیا اربوں لوٹنے والوں پر حکومتی خزانے سے تحقیقات کے نام پر کروڑوں خرچ کر دینا اورپھر ایک مجرم کو جانے دینا اور مہینوں پلٹ کر نہ پوچھنا ہی انصاف ہے؟ غلطیوں کی اصلاح نیتوں سے نہیں عمل سے ہوتی ہے۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت اس امر سے آگاہ ہے؟

واپسی کی قانونی کارروائی کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے اپنے وزیر کہتے ہیں کہ نواز شریف بھولے نہیں کہ واپس آجائیں۔ کیا برطانیہ سے الطاف حسین اسحاق ڈار، حسن، حسین، سلمان اور علی واپس آگئے یا عدالتی کور دے کر بھیجے جانے والے نواز شریف کی واپسی اندھیرے میں تتیر پکڑنے کا کھیل ہے؟ کیا یہ سب قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے مترادف نہیں؟

شنید تو یہ بھی ہے کہ اے پی سی کے معاملہ پر نواز شریف کی مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کے ساتھ براہ راست رابطے اور گرین سگنل نے حکومت اور نواز شریف کے مابین مفاہمت کے عمل کو دھچکا لگایا جس کے تحت وہ باہر گئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان اسی وجہ سے اب گو سلو کی پالیسی بدلنے پر آمادہ ہیں۔ فواد چودھری تو برملا کہتے ہیں کہ نواز شریف کا جانا احتساب کے بیانیہ کے لئے بڑا سیٹ بیک ہے لیکن کابینہ کے ایک اور رکن شیخ رشید کہتے ہیں کہ نواز شریف عمران خان کی حکومت کو پانچ سال چلنے کی ضمانت پر باہر گئے ہیں۔ اس سب سے ہٹ کر اگر تحریک انصاف احتساب کے بیانیہ کو آگے نہ بڑھا سکی تو آنے والے وقتوں میں اس کے لئے بڑا کڑا امتحان ہے۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal