عرب ممالک برطانیہ کے جال میں کیسے پھنسے؟


خاکسار نے گزشتہ کالم میں یہ عرض کی تھی کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے فلسطین سمیت اکثر عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ صیہونی تنظیم نے کوشش کی کہ ترکی کے سلطان انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں لیکن سلطان نے سختی سے انکار کر دیا۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی بن کر میدان میں آئی۔ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے ترکی پر بڑا حملہ کیا لیکن بری طرح ناکام ہوگئے۔

جب جولائی 1915 میں ترکی پر اتحادیوں کا حملہ ناکام ہونا شروع ہوا تو اس ناکامی میں انہیں ایک امید کی کرن نظر آئی۔ حجاز یعنی عرب کا وہ علاقہ جس میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ واقعہ ہیں سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا لیکن مقامی طور پر یہاں پر شریف مکہ بطور حکمران مقرر تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران حسین بن علی شریف مکہ کے طور پر کام کر رہے تھے [اردن کے موجودہ بادشاہ انہی کی اولاد سے ہیں]۔ شریف مکہ کا خاندان عثمانی بادشاہ کو بطور خلیفۃ المسلمین حکمران تسلیم کرتا تھا۔ اور اس سلطنت کے تحت کام کرتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران شریف مکہ نے محسوس کیا کہ اب موقع ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ سے علیحدہ ہو کر صرف حجاز ہی نہیں بلکہ تمام عرب ممالک کے بادشاہ بن جائیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ اعلان کریں کہ وہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔

اس کام کے لئے انہوں نے برطانیہ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مصر میں برطانوی سفیر ہنری میکمہن کو خط لکھنے شروع کیے ۔ جولائی 1915 میں شریف مکہ نے مکمہن کو خط لکھا کہ سلطنت برطانیہ عالم اسلام کی عرب خلافت کی منظوری عطا کرے کیونکہ اب عرب سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس کے لئے بر طانیہ کی مدد چاہیے۔ اس کے بدلے میں عرب علاقوں میں اقتصادی منصوبوں کے لئے سلطنت برطانیہ کو ترجیح دی جائے گی۔

اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ برطانیہ نے اس تجویز کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا اور شریف مکہ کو یقین دلایا کہ برطانیہ عرب علاقوں کو سلطنت عثمانیہ کی غلامی سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ اس دور میں برطانیہ نے ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا۔ اس پس منظر میں یہ دعویٰ کہ وہ عرب علاقوں کو ترکی کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں ایک لطیفہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت عرب دنیا کے قائدین اس لطیفے کو سنجیدہ وعدہ سمجھ رہے تھے۔ یہ منصوبہ بنایا گیا کہ شریف مکہ برطانیہ کی مدد سے عرب علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت برپا کریں گے۔

یہ تو حجاز کا قصہ تھا۔ مشرق میں نجد کا علاقہ امیر عبد العزیز السعود کے زیر تسلط تھا [یعنی موجودہ سعودی بادشاہ کے والد اور سعودی عرب کے بانی]۔ اس کا صدر مقام ریاض کا شہر تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے عبد العزیز السعود نے کوشش کی کہ سلطنت برطانیہ انہیں اپنے زیر سایہ لے لے۔ لیکن اس وقت برطانیہ سلطنت عثمانیہ سے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے برطانوی افسران نے امیر عبد العزیز السعود کے خطوط کا جواب نہیں دیا۔

اس کے بعد مایوس ہو کر امیر عبد العزیز نے سلطنت عثمانیہ سے نجد کے علاقے پر والی ہونے کا منصب قبول کر لیا۔ لیکن جب جنگ عظیم شروع ہوئی تو عبد العزیز السعود نے علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کیا۔ مگرایک نہایت اہم جنگ میں انہیں سلطنت عثمانیہ کی حامی افواج سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں ان کی فوج کا ایک حصہ عین میدان جنگ میں دغا دے کر سلطنت عثمانیہ کے حامی رشید خاندان کی فوجوں سے مل گیا۔ اس کے بعد جب دشمن نے حملہ کیا تو سعودی افواج میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئیں۔

اس کے بعد سعودی خاندان کے حالات خراب شروع ہوئے۔ جس طرح انہوں نے سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کی تھی ان کے ماتحت قبائل نے ان کے خلاف بغاوت کر دی۔ اور تو اور ان کے خاندان کے کچھ لوگ بھی ان قبائل سے مل گئے۔ لیکن اب سلطنت برطانیہ سعود ی خاندان میں دلچسپی لے رہی تھی تا کہ انہیں سلطنت عثمانیہ کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔

چنانچہ دسمبر 1915 میں جب گیلی پولی [ترکی ] میں برطانیہ اور اس کی اتحادی افواج اپنی شکست کے آخری مراحل میں داخل ہو چکی تھیں، اس وقت امیر عبد العزیز السعود اور برطانوی افسر پرسی کوکس کے مذاکرات ہوئے۔ اور ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے کی رو سے اس علاقے میں برطانیہ کو تجارتی حقوق حاصل ہوئے اور سعودی خاندان نے اپنی خارجہ پالیسی مکمل طور پر سلطنت برطانیہ کے سپرد کر دی۔ اور سلطنت برطانیہ نے اس امارت کو اپنے زیر سرپرستی رکھنا قبول کیا۔

اس کے عوض امیر عبد العزیز السعود کو تین سو بندوقیں دی گئیں جو کہ ترک فوجیوں سے قبضہ میں لی گئی تھیں اور برطانوی حکومت نے انہیں دس ہزار ہندوستانی روپے کی رقم بھی دی۔ اگلے سال 1916 میں برطانیہ نے سعودی خاندان کو ایک ہزار مزید بندوقیں اور دو لاکھ گولیوں کے راؤنڈ کے علاوہ بیس ہزار پاؤنڈ کی مالی مدد دی تاکہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرائی جا سکے۔ اس مدد کی وجہ سے امیر عبد العزیز السعود نے نجد کے علاقے میں سلطنت عثمانیہ کی حامی افواج پر حملہ کر کے اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کیا۔ سلطنت عثمانیہ کی حامی یہ افواج برطانوی فوج کی اطراف پر حملے کر کے انہیں پریشان کر رہی تھیں۔

جولائی 1916 میں شریف مکہ نے اپنے خلیفہ یعنی ترکی کے سلطان کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اب انگریزوں نے عرب سرداروں کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ چنانچہ نومبر 1916 میں انگریزوں نے کویت میں ایک دربار منعقد کیا۔ سلطنت برطانیہ کے اس دربار میں شریف مکہ اور امیر عبد العزیز السعود دونوں شامل ہوئے۔ یہ دربار کامیاب رہا۔ یہ پہلا موقع تھا جب امیر عبد العزیز السعود ریل پر سوار ہوئے۔ کار میں بیٹھے۔ انہوں نے جہاز اڑتے دیکھا اور انہیں محظوظ کرنے کے لئے ان کے ہاتھ کا ایکس رے بھی دکھایا گیا۔

اب تک عرب سردار یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ سلطنت عثمانیہ سے علیحدہ ہو کر اپنا آزاد ملک قائم کریں گے۔ شریف مکہ کو یقین دلایا گیا تھا کہ تمام عرب علاقوں کو ایک متحدہ ملک کی صورت میں آزاد کیا جائے گا اور انہیں اس ملک کا بادشاہ مقرر کیا جائے گا۔ اس دربار میں حاضر ہوتے ہوئے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی مدد سے سلطنت عثمانیہ کو تو ختم کر دیا جائے گا لیکن پھر فرانس اور برطانیہ بندر بانٹ کر کے طویل عرصہ تک عرب علاقوں کو اپنے تسلط میں رکھیں گے۔

عرب سرداروں سے وعدے وعید کر نے کے فوری بعدبرطانیہ فرانس سے ایسا معاہدہ کرے گا اور یہودیوں کو ایسی مراعات دے گا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کا کبھی ارادہ ہی نہیں تھا کہ وہ عربوں سے کیے گئے وعدے پورے کرے۔ اور سب سے بڑھ کر فلسطین میں یہودیوں کو آباد کیا جائے گا۔ اور جب فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنے کے مسئلہ پر شریف مکہ آنکھیں دکھانے کی کوشش کریں گے تو سعودی خاندان حملہ کر کے انہیں حجاز سے بے دخل کر دے گا۔ اور پھر فلسطین یہودیوں کو عطا کیا جائے گا تاکہ وہ اسرائیل قائم کرنے کا خواب پورا کر سکیں۔

مغربی طاقتیں اب بھی عربوں کو اسی طرح کے سبز باغ دکھا رہی ہیں اور عرب لیڈر اب بھی اسی طرح ان کے جھانسے میں آ کر اپنی قوم کو مشکلات میں پھنساتے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ برنارڈ شا نے کہا تھا کہ اگر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ہمیشہ غیر متوقع واقعات ہوتے رہتے ہیں تو اس سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ انسان اپنے تجربات سے کچھ نہیں سیکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).