صنفی تعصب کا خاتمہ کیسے؟


”مرد ذہین اور سنجیدہ لڑکیوں سے دور بھاگتے ہیں کہ اس سے ان کے احساس برتری کو ٹھیس پہنچتی ہے“ ۔
منقولہ عبارت کل واٹس ایپ سٹیٹس پر لگائی جس پر آج ایک سنجیدہ و ذہین طالبہ نے جوابی رائے کا اظہار کیا جو آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں۔

کہتی ہیں۔
”مرد کبھی عورت کو اپنے سے آگے نکلتا ہوا نہیں دیکھ سکتا“ ۔

اس رائے کے جواب میں ایک طالب علمانہ تبصرہ کیا ہے جو آپ کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ہم اکثر معاملات پر اپنے تجربات اور برتے گئے رویوں کے زیر اثر رائے کا اظہار کرتے ہیں جو ان رویوں کا سامنا نہیں کرچکے ہوتے ان کی رائے مختلف ہونے کے ساتھ مثبت بھی ہوتی ہے۔ میں طالبہ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں کیونکہ ہمارے معاشرے میں اب بھی یہ غیر مناسب رویے جو کبھی مذہب و ثقافت کے نام پر پنپتے رہے ہیں جن کا تاحال سلسلہ جاری ہے اور ان رویوں کو ختم کرنے کے لیے انفرادی کوششیں تو نظر سے گزرتی ہیں جو بعض پہلوؤں سے مثبت و منفی دونوں ہوتی ہیں لیکن اجتماعی کوشش ابھی تک نہ اہل مذہب کی جانب سے ہوئی ہے نہ ہی حکومتیں اس پر توجہ دے رہی ہیں۔

میری نظر میں معاملے کی اصل جڑ یہ ہے کہ جب اعتدال یا باہمی توازن کی راہ چھوڑ کر مرد و خواتین ایک دوسرے پر خود کو برتر سمجھ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو وہاں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ مرد کے عورت سے صدیوں پر محیط ناروا اور جابرانہ رویوں نے عورت کے ذہن میں جو مرد کا خاکہ بنایا ہے وہ بہت خوفناک ہے جس کو درست کرنے کے لیے بھی صدیاں چاہیے ہوں گی اور یہ خاکہ گھر ہی کی تربیت سے بہتر بن سکتا ہے چونکہ دنیا میں قدم رکھنے والی انسانی زندگی کی پہلی درسگاہ والدین ہیں۔ یہ اب والدین نے طے کرنا ہے کہ ہمیں آنے والے نئے مہمان کے ذہن میں ”عورت و مرد“ کا کیا مقام و تصور بنانا ہے۔ عورت کا بیوی کی شکل میں مرد سے رویہ اولاد کو باپ کی صورت میں مرد کی اہمیت و قدر سمجھا رہا ہوتا ہے اور مرد کے گھر کی خواتین ”خواہ وہ کسی بھی رشتے کی صورت میں ہو“ سے برتے جانے والے رویوں سے اولاد عورت کا مقام، مرتبہ و اہمیت سمجھ رہی ہوتی ہے۔

اسی لیے عورت و مرد کے درمیان صنفی تعصب اور غلط فہمیوں کو دور اور باہمی احترام کو بحال کرنے کے لیے حقوق و احترام انسانیت کے شعور سے آراستہ زیور تعلیم شہریوں تک پہنچانے کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ اسلام میں عورت و مرد کے باہمی تعاون و احترام کو نبھانے کے اصول بتانے کے لئے اہل مذہب کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی تاکہ ایک باوقار معاشرہ وجود میں آ سکے جو صنفی تعصب سے چھٹکارا حاصل کر کے ”و لقد کرمنا بنی آدم“ کے اصول کے تحت باوقار زندگی بسر کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).