سات لاکھ پاؤنڈ اور پچیس سال


الجزیرہ نے حال ہی میں انگلینڈ کے ایک جاسوس کے انٹرویو کا انکشاف کیا ہے، نارمن ڈربی شائر جو کہ بیسویں صدی کے وسط میں جزیرہ قبرص میں ایم آئی سکس کے انچارج تھے۔ ڈربی شائر نے 1985 میں ایک انٹرویو دیا تھا [برٹش سیریز ”اینڈ آف ایمپائر“ کے سیزن کے لیے لیکن انہوں نے سکرین پر آنے سے معذرت کرلی تھی] اور ان کی درخواست پر اس وقت انٹرویو کو شائع نہیں کیا گیا۔ ڈربی شائر 1993 میں وفات پا گئے، اور ان کا انٹرویو نیشنل سیکورٹی آرکائیو نے 17 اگست 2020 کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں شائع کیا ہے۔ اس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ایم آئی سکس اور سی آئی اے اس سازش کے پیچھے کارفرما تھے جس کے ذریعے ایران کے منتخب وزیراعظم محمد مصدق کو اقتدار سے برطرف کیا گیا اور جس کا نام ”آپریشن آجیکس“ تھا۔

ایران کا اقتدار 1925 کے بعد قاچار خاندان سے پہلوی خاندان کا منتقل ہوا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی ایرانی بادشاہت کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی، اس کی ایک وجہ وہ رعایات تھیں جو رضا شاہ نے ’اینگلو پرشین آئل کمپنی‘ کو دی ہوئی تھیں، 1935 میں رضا شاہ نے ملک کا نام ’پرشیا‘ سے ’ایران‘ کر دیا اور کمپنی کا نام ’اینگلو ایرانین آئل کمپنی‘ ہو گیا۔ 1941 میں برطانوی اور روسی سرخ افواج نے ایران پر چڑھائی کردی اور رضا شاہ کو معزول کر کے اس کے بائیس سالہ بیٹے ’محمد رضا شاہ‘ کو بادشاہ نامزد کیا۔

1951 کے ایرانی انتخابات میں ”نیشنل فرنٹ“ کو برتری حاصل ہوئی اور محمد مصدق 79۔ 12 ووٹ کی برتری سے وزیراعظم مقرر ہوئے۔ نیشنل فرنٹ کا بنیادی نکتہ آئل کمپنی کو ”ملکی تحویل میں لینا“ یعنی ’قومیانے‘ کی پالیسی تھا۔

1951 میں ”ایران آئل“ کو قومیانے کا بل پاس ہوا، اینگلو ایرانین آئل کمپنی سے انگریزوں کو بے دخل کیا گیا، ردعمل میں برٹش رائل نیوی نے ”ابادان جزیرے“ کا محاصرہ کر لیا اور ایران سے تیل کی برآمد روک دی یہ کہ کر کہ تیل ”چوری“ کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ اس مسئلے کو ”عالمی عدالت انصاف“ میں لے گیا اور ایران پر معاشی پابندیاں عائد کردیں، ایران معاشی طور پر تباہ حال ہو گیا اور بدامنی کا دور شروع ہوا۔

1952 میں مصدق اور شاہ میں ایرانین آئل کو قومیانے کی پالیسی میں اختلافات بہت بڑھ گئے اور مصدق نے 17 جولائی کو استعفی دے دیا لیکن صرف تین دن بعد شاہ کو فسادات کی وجہ سے مصدق کو وزیراعظم کی کرسی پر بحال کرنا پڑا۔

محمد مصدق کو پہلے ”مذہبی فدائین“ کی حمایت حاصل تھی جب وہ شاہ سے جا ملے تو بائیں بازو کی جماعت ”ٹوڈے پارٹی“ جو کمیونسٹ مقاصد رکھتی تھی اتحاد میں شامل ہو گئی، اور فسادات پھوٹ پڑے، یہی وہ وقت تھا جب ”ایم آئی سکس“ اور ”سی آئی اے“ نے ”آپریشن آجیکس“ کا منصوبہ بنایا اور مصدق کی حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس آپریشن کی اصل وجہ جو انہوں نے لندن اور واشنگٹن کو دی وہ یہی تھی کہ ٹوڈے پارٹی کے ذریعے روس ایران کو کمیونسٹ بلاک میں کھینچنا چاہتا ہے۔

آجیکس پلان کا آغاز یہاں سے ہونا تھا کہ شاہ ایک فرمان کے ذریعے مصدق کو برطرف کردے لیکن یکم اگست 1953 کو شاہ نے سی آئی اے کے لکھے ’شاہی فرمان‘ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، 4 اگست کو مصدق نے بھانپ لیا کہ سازش ہو رہی ہے اس سے بچنے کے لیے اس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا، سازشی طاقتوں نے شاہ کی بہن ’شہزادی اشرف‘ کے ذریعے شاہ کو یقین دلایا کہ امریکہ اس سازش کی پشت پر ہے، بداعتمادی کی اس فضا میں 13 اگست کو شاہ نے ’شاہی فرمان‘ پہ دستخط کیے کہ وہ مصدق کی حکومت برطرف کر رہا ہے اور اس طرح ’آپریشن آجیکس‘ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

15 اگست کو بغاوت شروع ہوئی اور جنرل فضل اللہ زاہدی نے وزیراعظم ہونے کا اعلان کیا، لیکن یہ ناکام ہوئی کیونکہ مصدق کو اس کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی، 16 اگست کو شاہ بغداد نکل گیا اور وہاں سے بعد ازاں اٹلی چلا گیا، 18 اگست کو {نیویارک ٹائمز آرکائیو ”تاریخ کے راز“ کے مطابق} سی آئی اے نے تہران میں اپنے ایجنٹوں سے کہا کہ ”آپریشن آجیکس“ روک دیا جائے اور ایسا لگتا تھا بغاوت ناکام ہو گئی ہے اور حالات مصدق کے قابو میں ہیں، مصدق نے اپنے حامیوں کو گھر واپس جانے کا اشارہ دے دیا۔

لیکن 19 اگست کو تہران کے ہر بڑے اخبار نے شاہ کے فرمان کو کہ ’مصدق کو برطرف کر دیا گیا ہے‘ بڑی سرخیوں سے شائع کیا، اور شاہ کے حامی سڑکوں پر جمع ہونا شروع ہوئے، جنرل فضل اللہ زاہدی جو ڈر کے مارے چھپ گیا تھا باہر نکل آیا، اور سی آئی اے نے تہران کے جنوب سے چھٹے ہوئے کرائے کے بدمعاش ’شعبان جعفری‘ [جس کا نام ’بے مغز شعبان‘ پڑ گیا] کے ذریعے احتجاج شروع کرایا، اور دن کے اختتام پر فضل اللہ زاہدی تہران کی باگ ڈور سنبھال چکا تھا، مصدق کے گھر پر گولا داغا گیا اور بعد ازاں ’منتخب‘ وزیراعظم کو گرفتار کر لیا گیا۔

نیشنل سیکورٹی آرکائیو نے 15 صفحات پر مشتمل جو دستاویز منظرعام پر لائی ہیں ان میں سیکھنے اور جاننے کے لیے بہت کچھ ہے، جیسے ایک جگہ ڈربی شائر ایران کے مصدق اور مصر کے جمال عبد الناصر کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں اور اول الذکر کو ایک کمزور شخصیت قرار دیتے ہیں، اور اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں مصر میں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

اس کے علاوہ ابن الوقت لوگوں کے نام بھی ہیں جن میں سر فہرست اسد اللہ ’رشیدیاں‘ اور ان کے بھائی شامل ہیں [سیف اللہ اور قدرت اللہ]۔

ذیل کا اقتباس اس دستاویز کا صفحہ نمبر 4 سے لیا گیا ہے :

The coup cost 700 thousand pounds. I know because I spend it. The money was going via Rashidian brothers to the people to keep them sweet and see what they could do. . . . . . . . . . . . then you could start negotiating with whoever votes you might want to get so it is the combination of legal Persian practices and quasi. legal which is straightforward bribery.

شروع میں جب شاہ نے فرمان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، تو شاہ کی بہن ’اشرف پہلوی‘ کو استعمال کیا گیا کہ وہ شاہ کو قائل کرے اور بتائے کہ ’رشیدیاں‘ نے جو منصوبہ بنایا ہے اسے امریکہ بہادر کی مکمل تائید حاصل ہے، صفحہ نمبر 9 ملاحظہ ہو:

. . . . . . . . . . . . . I said that I can guarantee you (Princess Asraf) that we are speaking on the behalf of American government; I said we would like to make sure that your brother (Shah of Iran) understands the proposals that are being put to him in Tehran by Rashidians, we would like you to go Tehran and assure him that he has (Rashidians) the approval from Washington. . . . .

ایک سوال کے جواب میں کہ جب مصدق کو سازش کا شک ہو گیا، رشیدیاں کو گرفتار کر لیا گیا اور زاہدی کی گرفتاری کے لیے کوششیں ہو رہی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ بغاوت ناکام ہو جائے گی، ڈربی شائر کہتا ہے، انٹرویو کے صفحہ نمبر 8 پر ملاحظہ ہو:

Arrested Rashidian and would have arrested Zahedi (Gen Fazlullah Zahedi. later Prime minister or Iran) . . . . . . . He avoided arrest and I was involved in protecting him as he moved from house to house in Tehran. . . . . . . . .

محمد افشار طوس پولیس چیف تھا اور اس بغاوت کو کامیاب بنانے کے لیے پولیس کو مفلوج کرنا ضروری تھا، بغاوت سے پہلے اسے اغوا کر کے قتل کر دیا گیا، ایک سوال کے جواب میں کہ کیا تم افشار طوس کے قتل میں ملوث تھے، صفحہ نمبر 11 پہ کہتا ہے :

Yes, but was never intended. . . . . . . . . He was kidnapped and held in cave. . . . . . . . He was guard by young army officer and officer pulled a gun and shot him. . . . . .

1953 کے سانحے کو رواں اگست میں 67 سال ہوجائیں گے، اس کے اثرات ابھی بھی ایران میں محسوس کیے جا سکتے ہیں، ایرانی سیاست میں مغرب نفرت سوچ کو پروان چڑھانے میں اس بغاوت کا اہم کردار تھا، آنے والے ایرانی انقلاب کو اسی تناظر کے تسلسل سے ہی دیکھا جاتا ہے۔

سارے کردار اب تاریخ کا حصہ ہیں۔

دسمبر 1953 میں مصدق کو فوجی عدالت نے شاہ کے خلاف بغاوت اور غداری کے جرم میں تین سال کی قید تنہائی کی سزا سنائی، اور اس کے بعد احمد آباد میں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا، 1967 میں اسی نظربندی میں مصدق کا انتقال ہوا اور انہیں ان کی آخری خواہش [کہ انہیں سیاسی شہدا کے ساتھ قبرستان میں دفن کیا جائے ] کے باوجود اسی کمرے میں دفن کر دیا گیا جہاں وہ رہتے تھے۔

تاریخ کی گردش نے بہرحال شاہ سے کوئی رعایت نہیں کی۔

سات لاکھ پاونڈ سے سی آئی اے اور ایم آئی سکس بھی شاہ کے لیے پچیس سال ہی خرید سکے، ایرانی اسلامی انقلاب کے سیلاب کے آگے شاہ مٹی کا گھروندا ثابت ہوا۔ بدنام زمانہ ’ساواک‘ کے مظالم اور جبر بھی اس کی حکومت کو نہ بچا سکے۔

پچیس سال بعد شاہ کو ایک دفعہ پھر بھاگنا پڑا اور دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں، ربع صدی کا جبر بالآخر ایرانی اسلامی انقلاب پر منتج ہوا، جنوری 1979 کو شاہ پہلے مصر گیا، وہاں سے مراکش اور پھر بہاماس جزیرے پہنچا، کینسر زدہ شاہ کو ’جمی کارٹر‘ نے امریکہ میں علاج کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، وہی شاہ جس کو طاقت میں رکھنے کے لیے امریکہ نے ’53 میں پورا زور لگایا اب اسے علاج کے لیے بھی اجازت دینے کا روادار نہ تھا، بڑی منت خوشامد کے بعد اکتوبر میں امریکہ کے ہسپتال میں داخل ہوا اور اگلے مہینے ایران میں طالبعلموں نے 54 امریکی شہریوں کو 444 دنوں تک یرغمال بنا لیا اور دسمبر میں شاہ کو امریکہ سے دربدر ہونا پڑا، وہاں سے پانامہ پہنچا، اب یہ حال ہوا کہ مرنے کے لیے شاہ کے پاس زمین نہ رہی، کوئی ہاتھ پکڑنے کو تیار نہ تھا، بالآخر انور سادات نے مصر آنے کی دعوت دی وہاں آپریشن بھی کروایا، لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ جولائی 1980 میں شاہ مصر میں وفات پا گیا، اور قاہرہ میں شاہ فاروق [آخری مصری بادشاہ] اور اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوا۔

تاریخ عبرت کے لیے پڑھی جاتی ہے اور ایک آئینے کا کام بھی دیتی کہ قومیں اس میں اپنا مستقبل دیکھ کر اپنی راہ متعین کریں، جاننا چاہیے کہ ریاست کو مصنوعی سہاروں کے ذریعے پائیداری نہیں ملتی، منتخب عوامی نمائندے ہی سیاسی استحکام کی ضمانت دے سکتے ہیں جو معاشی نمو کے لیے ضروری اور انقلاب کے لیے سد راہ بنتا ہے۔

عوامی نمائندوں کو ’غدار‘ ، ’نا اہل‘ ، ’جلاوطن‘ اور ’پھانسی‘ دینے سے عدم استحکام اور بے یقینی کی فضا بنتی ہے اور معاشی ترقی کا سفر رک جاتا ہے، اور اگر معیشت کا پہیا رک جائے اور عوام کا اعتماد ریاست پر متزلزل ہو جائے سات لاکھ پاونڈ بھی پچیس سال کا مصنوعی تنفس ہی مہیا کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔

مندرجہ ذیل لنک دیکھیے:

۱- الجزیرہ کی خبر کا لنک-
https://www.aljazeera.com/news/2020/08/uk-lead-role-1953-iran-coup-exposed-200818072007050.html

۲- نیشنل آرکایْیو، ۱۵ صفحے کی دستاویز

https://nsarchive.gwu.edu/dc.html?doc=7033886-National-Security-Archive

 

Mohammed Mossadegh, left, former premier of Iran, is helped by his chauffeur, Hassan Agha, to a car on being released from Ghasser Barracks in Northern Tehran on August 4, 1956, after three years of imprisonment on treason charges. Behind them are prison guards. (AP Photo)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).