سافٹ امیج اور اقلیتیں


جنرل مشرف سے لے کر عمران خان تک کی حکومتوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کا ”سافٹ امیج“ دنیا میں متعارف ہو۔ اسے روشن خیال اعتدال پسندی (enlightened moderation) کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے مقصد تو پاکستان کا مفاد ہے۔ یعنی اگر پاکستان کی ساکھ دنیا میں اچھی ہو گی تو لازماً بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ لگائیں گی۔ اور یہاں کی نوجوان افرادی قوت سے فائدہ اٹھا کر پاکستانی اور عالمی منڈیوں میں اپنا مقام بہتر کرنے کی خواہش کریں گی۔ اور اگر ملک کا سافٹ امیج اچھا ہو گا تو پھر غیر ملکی سیاح پاکستان کے پہاڑی اور سمندری علاقوں کا رخ کریں گے۔ بلکہ بہت سے لوگ مذہبی سیاحت کی غرض سے بھی آئیں گے۔ یوں ملک ترقی کرے گا۔ مگر اس خواب کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا نہ صرف تحفظ ہو بلکہ تمام اقلیتیں دلی خوشی سے پاکستان میں رہنا پسند کرتی ہوں۔

جیسے آج کل پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیوں بلکہ فوج نے بھی اپنا میڈیا سیل بنا رکھا ہے تا کہ اپنا بیانیہ پیش کیا جائے۔ اسی طرح پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے حالات کو مختلف گروپ باہر کے ملکوں میں پہنچاتے ہیں۔ ہندوؤں کو ہی لے لیجیے۔ پاکستان میں ہندو آبادی کے ساتھ اگر کوئی بھی زیادتی ہو تو بھارتی میڈیا اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اور پھر ایسے واقعات کو خاص طور پر پاکستان کے خلاف مزید بڑھا چڑھا کر عالمی فورمز پر پیش کرتا ہے۔ خاص طور پر جب پاکستان کشمیر میں بھارت کے مظالم پر آواز اٹھاتا ہے تو بھارت برملا پاکستان پر جوابی انگلی اٹھاتا ہے کہ گویا پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو۔

انسانی حقوق کی پامالی تو بہرحال قابل مذمت ہے اور اس میں کوئی وٹہ سٹہ کی کیفیت نہیں۔ اس لیے کشمیر میں بھارت کے مظالم کا یہ جواز جائز نہیں مگر ایسے جواب سے پاکستان کی اخلاقی جرات پر ضرور اثر پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر دنیا کے اخباروں وغیرہ میں پاکستان کی اپنی اقلیتوں سے نا انصافی کی تشہیر ہو تو ان ملکوں کے عوام میں پاکستان کے بارے میں رائے پر منفی اثر پڑتا ہے۔

اب مسیحیوں کو لیتے ہیں۔ مسیحیوں کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں کیسا رویہ ہے اس بات پر مغربی دنیا میں چرچ سے منسلک تنظیمیں گہری نظر رکھتی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اپنے مسیحی پیروکاروں کے جذبات ابھارنا ہوتا ہے۔ ایسی خبریں دے کر کہ پاکستان جیسے مسلمان ملکوں میں ان کے مسیحی بہن بھائیوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ اس ذریعہ سے پھر انہیں مسیحیت کی تبلیغ کے لئے چندہ اکٹھا کرنے میں اور رضاکار مبلغین تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مگر ایسے بیانیے سے ایک بالواسطہ اثر یہ بھی پڑتا ہے کی ایسی تنظیمیں جب پاکستانی مسیحیوں پر کسی قسم کی زیادتی کو اجاگر کرتی ہیں تو پھر ان ملکوں کے مسیحی عوام کی رائے پاکستان میں سیاحت وغیرہ کے لئے جانے سے گریزاں رہتی ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کی عام طور پر مغربی معاشرہ بے دین اور مسیحیت کے لئے جذبات سے عاری سمجھا جاتا ہے مگر یہ سوچ کم علمی کے باعث ہے۔ صرف امریکہ کی مثال ہی کافی ہو گی۔ یہاں ایسے چرچ موجود ہیں جہاں ہر اتوار ہزاروں عبادت گزار جاتے ہیں۔ جہاں کے پادری اپنے ذاتی جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔ اور جو لوگ امریکہ کی سیاست کو فالو کرتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریپبلیکن پارٹی کے چرچ کے نمائندوں سے گہرے روابط کی وجہ عوام کا مذہبی رجحان ہی ہے۔ ریپبلیکن پارٹی کے امیدواروں کا وائٹ ہاؤس پہنچنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں تقریباً آدھی آبادی اچھا خاصہ مذہبی رجحان رکھتی ہے۔ چنانچہ اگر پاکستان میں مسیحیوں کے ساتھ اچھا رویہ نہ ہو تو ایسے لوگ اپنے مذہبی جذبات کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں منفی سوچ رکھیں گے۔

اب میں احمدیوں کی طرف آتا ہوں۔ میرے خیال میں پاکستان میں احمدیوں سے ساتھ بدسلوکی کا پاکستان کے ”سافٹ امیج“ پر سب سے بڑا اور برا اثر پڑتا ہے۔ وجہ یہ ہے کی احمدیوں کی اچھی خاصی تعداد 1984ء کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے بعد برطانیہ، جرمنی، کینیڈا، امریکہ وغیرہ میں آباد ہو چکی ہے۔ جیسے وہ 1974ء سے پہلے پاکستان میں قانونی طور پر مسلمان تھے ایسے وہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اب بھی مسلمان شمار ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔

یہ بھی اکثر لوگ جانتے ہیں کہ احمدی مسلح جہاد وغیرہ کے بالعموم خلاف ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ زمانہ ”قلم کے جہاد“ کا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسلام کی امن پسند تعلیم کی تبلیغ اور تشہیر کرتے ہوئے اکثر مغربی ملکوں میں اپنی ایک ساکھ بنا لی ہے۔ اسی لیے اب کئی مغربی ملکوں میں احمدیوں سے ہمدردی رکھنے والے سیاستدانوں کے باقاعدہ گروپ بھی تشکیل پا چکے ہیں۔ چنانچہ یو ٹیوب پر احمدی جماعت کے سربراہ مرزا مسرور احمد کی کینیڈا کے پرائم منسٹر سے ملاقات یا امریکہ کے پارلیمنٹ میں تقریر وغیرہ کی ویڈیوز موجود ہیں۔

ایسی باقاعدہ یا نجی ملاقاتوں میں پاکستان میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کا ذکر آنا یا پاکستان میں احمدیوں یا دوسری اقلیتوں کے ایسے حقوق جنہیں جدید دنیا نے بنیادی انسانی حقوق کا درجہ دے دیا ہے ان کی پامالی کا ذکر آنا ایک قدرتی بات ہے۔ پھر نیٹ فلکس پر ڈاکٹر عبد السلام پر بننے والی فلم کی تشہیر۔ اور ہالی وڈ میں آسکر ایوارڈ جیتنے والے پہلے سیاہ فام ایکٹر کا احمدیت کا پیروکار ہونا اور پاکستان کی جیلوں میں بند احمدی کے لیے اپنی آواز اٹھانا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جس سے مغربی دنیا میں رہنے والے ترقی پسند طبقے کو بھی پاکستان کا منفی تعارف ہوا ہے۔

ان سارے عوامل کے باعث پاکستان کا ”سافٹ امیج“ تشکیل پانا یا برقرار رہنا بڑا مشکل ہے کیونکہ مغربی عوام میں مذہبی طبقہ اور آزاد طبقہ اور نیز سیاستدان پاکستان کے حوالے سے بالواسطہ طور پر منفی خبریں وصول کرتے رہتے ہیں۔ اور میرے خیال میں ایسے طریقوں سے ملنے والی خبریں سننے والے پر زیادہ اثر کرتی ہیں کیونکہ ان میں کوئی سیاسی یا تجارتی عنصر شامل نہیں ہوتا لہاذا ان پر ایک خاص اعتماد کیا جاتا ہے۔

یہ تو مسلمہ بات ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی کمپنیوں کی سرمایہ کاری بھی چاہیے، نوجوانوں کو روزگار بھی چاہیے اور اپنے ساتھ ڈالر لانے والے سیاح بھی چاہیں۔ اسلام آخری دین ہے اور قرآن ایک مکمل کتاب ہے۔ ہمارے معاشرے کو ہندوؤں، مسیحیوں یا احمدیوں وغیرہ سے کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ہر مذہب کا پیروکار اپنی عبادت گاہ جا کر یا اپنے مذہب کی اچھائی بیان کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔ نیز بلا خوف و خطر اپنے عقیدے کے اظہار میں اطمینان پاتا ہے۔ اگر پاکستان میں اقلیتیں خوش ہوں گی تو پاکستان ترقی کرے گا۔ امین۔

بلال باجوہ امریکہ میں مقیم پاکستانی شہری ہیں اور ٹیکنالوجی کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور فاسٹ ادارہ سے تعلیم مکمل کر چکے ہیں اور امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

بلال باجوہ، امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بلال باجوہ، امریکہ

بلال باجوہ امریکہ میں مقیم پاکستانی شہری ہیں اور ٹیکنالوجی کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور فاسٹ ادارہ سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور امریکہ کی کورنیل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

bilal-bajwa-usa has 3 posts and counting.See all posts by bilal-bajwa-usa