وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سیاحت کے لیے قومی رابطہ کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سیاحت کے حوالے سے حکومتی ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی (قومی رابطہ کمیٹی یا این سی سی) برائے سیاحت تشکیل دی ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق پاکستان کے طول و ارض میں پھیلے دل کش سیاحتی مقامات اور ملکی سیاحتی استعداد کو مکمل طور پر برؤے کار لانے کے حوالے سے یہ وزیر اعظم کا ’بڑا فیصلہ‘ ہے۔
یاد رہے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دو برس قبل انتخابات میں کامیابی کے وقت وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہوئے ملک میں سیاحت کے فروغ اور اس سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
عمران خان نے سیاحت کے فروغ کے لیے پالیسیوں میں اصلاحات اور ’ہر سال چار نئے سیاحتی مراکز‘ متعارف کرانے کا وعدہ کیا تھا تاکہ اس صنعت سے ہونے والی آمدن کو بڑھائے جاسکے۔
اگرچہ نئے سیاحتی مقامات کے قیام میں تاخیر ہوئی ہے لیکن گذشتہ برس مارچ میں وزیراعظم عمران خان نے سیاحت کے فروغ کے لیے 190 ممالک کے لیے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت 175 ممالک کے شہریوں کو ای ویزا کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
گذشتہ برس اپریل میں دو روزہ ’پاکستان ٹورزم سمٹ‘ بھی منعقد کروایا گیا جس میں سیاحت کے فروغ کے لیے کئی غیر ملکی ولاگرز کو مدعو کیا گیا تھا اور پاکستانی وی لاگر کو دعوت نہ دینے پر حکومت کو خاصی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
حالی ہی میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران وزیرِ اعظم نے ملک میں سیاحت کھولنے کا اعلان کیا۔ اس دوران محفوظ سیاحت کے لیے ایس او پیز بھی تیار کیے گئے لیکن سیاحت کھلنے پر ہدایات پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیا جس کے باعث مانسہرہ کے تفریحی مقامات پر نئے مریض سامنے آئے۔
بی بی سی نے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز اور سیاحت زلفی بخاری سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس کمیٹی کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ کمیٹی کیا کام کرے گی اور سیاحت کے فروغ میں کس طرح مددگار ثابت ہوگی۔
یاد رہے اس اعلیٰ سطحی نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی برائے سیاحت میں زلفی بخاری، بطور کنوینر فرائض سرانجام دیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
ورلڈ ٹورازم فورم: ’پانچ دنوں میں 10 ارب ڈالر پاکستان آئیں گے‘
ایڈونچر سیاحت: ہوٹل نہیں خیموں میں رہنے والے منچلے
خیبر پختونخوا میں سیاحت کا متنازع ’نیا قانون‘
’پاکستان سفر کرنے کے لیے آسان ملک نہیں‘
’ون ونڈو آپریشن‘ کی کوششیں
زلفی بخاری کہتے ہیں کہ خاص طور پر پاکستان میں سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جس میں کئی شعبوں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور چونکہ سیاحت ہماری اولین ترجیح ہے اور یہ ملک میں روزگار فراہم کرنے والی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے، لہذا وزیرِ اعظم سیاحت کے فروغ پر بھی اتنی ہی توجہ دے رہے ہیں جتنا کسی بھی اور شعبے کو دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے سیاحت کے فروغ میں تیزی لانے، مناسب طریقوں سے اجازت نامے لینے اور اس سلسلے میں ہر کام کی رفتار کو تیز تر بنانے کے لیے انھوں نے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی برائے سیاحت تشکیل دینے کا سوچا ہے۔
زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی کو خاصے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔ یہ کمیٹی ملکی سیاحتی مقامات کی جیو میپنگ کرے گی، اور صوبوں میں سیاحت کے مجاز افراد کو آگے لاکر اصلاحات پر عمل درآمد کروائے گی تاکہ اسے ایک ’ون ونڈو آپریشن‘ بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بنیادی طور پر یہ کمیٹی ایک جامع نقطہ نظر سے کام کرے گی تاکہ تمام صوبے مل کر ایک ساتھ آگے بڑھ سکیں۔‘
کمیٹی میں وزارت داخلہ و دفاع شامل کیوں؟
سیاحت کی قومی رابطہ کمیٹی کے کردار کے حوالے سے زلفی بخاری کہتے ہیں کہ اس کے قیام کا مقصد سیاحت کے فروغ کے لیے سیمنارز وغیرہ منعقد کروانا نہیں بلکہ ’داخلی سطح پر سیاحت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ این سی سی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ قوانین سازی، نئے مقامات کی نشاندہی اور وہاں سیاحتی سہولیات کے حوالے سے تمام صوبے اسی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں جس کی وزیر اعظم توقع کر رہے ہیں۔
زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ این سی سی کے لیے ایک اہم چیز یہ یقینی بنانا ہے کہ صوبے سیاحت کے لیے صحیح امکانات پیدا کریں، درست فززیبلٹیز پیش کریں (یعنی متوقع پروجیکٹ کی قیمت کا اندازہ لگانا تاکہ اس بات کا تعین اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ پروجیکٹ کا بیڑا اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں)، پُرکشش مقامات کی نشاندہی کرکے جامع سفارشات و پالیسیاں مرتب کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے دس سال کی ٹورازم پالیسی بنائی ہے اور اس کے ساتھ پانچ سال کا ایکشن پلان بھی فراہم کیا ہے‘ اور اب ہر صوبے کو اپنی ڈیمو گرافکس اور ڈائینیمکس کے حساب سے اس پلان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
’این سی سی ماحولیاتی نقطہ نظر، آب و ہوا کی تبدیلی، دیگر قواعد و ضوابط اور تمام ضروری پہلوؤں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ یقینی بنائے گی کہ وہ (صوبے) جلد از جلد اس کام کو انجام دیں۔
یاد رہے اس کمیٹی میں وزارتِ سیاحت کے علاوہ، وزارت صنعت و پیداوار، وزارتِ داخلہ، وزارتِ دفاع، وزارتِ مواصلات، وزارتِ ہوا بازی، وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کے سیکرٹری صاحبان یا ان کے نمائندے (جو گریڈ 21سے کم نہ ہوں)، تمام چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری، چئیرمین متروکہ املاک بورڈ، ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک، منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن بھی شامل ہیں۔
این سی سی میں ان وزراتوں کی شمولیت کے حوالے سے زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بنک کو اس لیے شامل کیا گیا ہے کیونکہ ’ہم چاہتے ہیں کہ مہمان نوازی کی صنعت سے وابستہ افراد (جن میں ہوٹل مالکان بھی شامل ہیں) کے لیے باآسانی قرضے فراہم کیے جا سکیں۔
’یہاں ہم ایسے قرضوں کی بات کر رہے ہیں جن پر انھیں ٹیکس اور اضافی چارجز وغیرہ نہ ادا کرنے پڑیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ویزوں اور ملک کے اندر نقل و حرکت کے لیے وزراتِ داخلہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، اسی لیے این سی سی کی ہر میٹنگ میں وزارتِ داخلہ کی شمولیت ضروری ہے۔
زلفی بخاری کے مطابق وہ ملک میں مذہبی سیاحت کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے وزارتِ دفاع اور مذہبی امور مل کر کام کرتی ہیں اسی لیے انھیں بھی شامل کیا گیا ہے۔
’ایک اور حکومتی کمیٹی‘ یا بڑا اقدام؟
پاکستان میں سیاحت کی صنعت سے گذشتہ 28 سالوں سے وابستہ قراقرم ایڈونچرز کے مینیجنگ ڈائریکٹر نجم الحسن کا کہنا ہے کہ سوچ تو اچھی ہے لیکن جس صنعت کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے اس صنعت سے وابستہ افراد کو بھی کمیٹی کا حصہ بنا کر اسے بہتر بنایا جا سکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں لسٹ دیکھ رہا تھا اور مجھے اس صنعت میں کام کرنے والا ایک نام تک نظر نہیں آیا۔ صرف پاکستان ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے مینیجنگ ڈائریکٹر کو شامل کیا گیا ہے اور اس عہدے پر بیٹھا شخص بھی حکومت کا منتخب کردہ ہوتا ہے جس کا سیاحت کی صنعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘
نجم الحسن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاحت کی سطح پر کئی ایسوسی ایشنز کام کر رہی ہیں جن میں پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز اور ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان، ہوٹلنگ اور ٹرانسپورٹرز کی ایسوسی ایشنز شامل ہیں، اور انھیں بھی نمائندگی دی جانی چاہیے تھی تاکہ وہ اس صنعت سے وابستہ افراد کے مسائل اور اس حوالے سے سفارشات پیش کر سکیں۔
اس بارے میں زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ سیاحت کی صنعت سے وابستہ افراد جن میں ہوٹل مالکان سے لے کر ٹور آپریٹرز تک شامل ہیں، وہ پہلے سے ہی نیشنل ٹورازم کوآرڈینیشن بورڈ (این ٹی سی بی) کا حصہ ہیں۔ چونکہ میں اس کمیٹی کا کنوینر بھی ہوں، اس لیے آگے بھی جس جس کی جہاں ضرورت پڑے گی، انھیں این سی سی میں مدعو کیا جائے گا۔
گذشتہ سال منعقد کرائے گئے پاکستان ٹورازم سمٹ کے منتظمین میں شامل لینڈ مارک پاکستان کے چیف ایگزیکٹو علی نقی ہمدانی کا ماننا ہے کہ شاید کچھ لوگ اسے ’بس ایک اور حکومتی کمیٹی‘ سمجھیں لیکن پاکستان میں سیاحت کے فروغ کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
’اگر آپ نے سیاحت کو ایک اور قدم آگے لے کر جانا ہے تو اس کا راستہ یہی ہے کہ آپ کو پبلک سیکٹر سے وابستہ تمام وفاقی اور صوبائی سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لانا ہو گا کیونکہ جب تک ان تمام محکموں کی آپس میں کوآرڈینشن نہیں ہو گی تو کسی بھی سٹریٹیجی یا منصونے پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔‘
علی نقی ہمدانی کہتے ہیں ’کمیٹی کا بننا ایک اچھا قدم ہے لیکن این ٹی سی بی لیول پر جو پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ان سب پر عمل درآمد کروانے کے لیے ایک طریقہ کار کی ضرورت ہے جو سیاحت کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرسکے۔‘
علی کا ماننا ہے کہ کمیٹی کے لیے جو ٹی او آر لکھے گئے ہیں اگر ان پر عمل درآمد کروا لیا جاتا ہے تو اس سے یقیناً سیاحت کے فروغ میں بہت مدد ملے گی۔
علی نقی ہمدانی کہتے ہیں کہ این ٹی سی بی، جہاں پالیساں بنائی جاتی ہیں وہاں نجی طبقہ اور ہوٹل ایسوسی ایشنز وغیرہ، سب کو پوری نمائندگی دی گئی ہے۔ لیکن اس کمیٹی کا مقصد ان کی بنائی گئی پالیسیوں پر عمل درآمد کروانا ہے اور وہ پبلک سیکٹر لیول پر ہی ہوسکتا ہے۔
برٹش ائیرویز اور ورجن اٹلانک کے پاکستان کے لیے پروازیں چلانے کے اعلان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علی کہتے ہیں کہ دو سال پہلے ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، چیزیں تو ہمارے حق میں بہت اچھی ہو رہی ہیں اب اگر ہم پالیسیوں پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنے داخلی مسائل حل کر لیں تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔
علی کہتے ہیں ’سیاحت میں اس قدر دلچسپی لینے والی حکومت جس میں ٹاپ لیول (وزیرِاعظم) تک سیاحت پر توجہ مرکوز ہے اگر ابھی بھی سیاحت کے حوالے سے اقدامات پر عمل درآمد نہ سکا تو پھر شاید کبھی نہیں ہوسکے گا۔‘
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).