خیبر پختونخوا: جن سکولوں میں پانی تک میسر نہیں وہاں کورونا سے بچے کیسے بچیں؟


کتنے پاکستانی بچے سکول جاتے ہیں؟

تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس سے بچاؤ یا اس کو پھیلنے سے روکنا ایسی صورت میں مشکل ہو سکتا ہے جب بڑی تعداد میں سکولوں میں پانی ہی دستیاب نہ ہو اور متعدد ایسے سکول بھی ہوں جہاں بیت الخلا ہی نہ ہو۔

اگر ہم صرف خیبر پختونخوا کی مثال لیں تو یہاں کوئی ساڑھے چھ ہزار سکولوں میں پانی دستیاب نہیں ہے اور کوئی پانچ ہزار سکولوں میں ٹوائلٹ نہیں ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں حالات کوئی اس سے بہتر نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’کوہستان میں 354 سکول چھت سے محروم‘

شمالی علاقوں کے طلبا کا تعلیمی سال کیسے بچایا جائے؟

بچوں کو کورونا وائرس کے بارے میں بتائیں، ڈرائیں نہیں

بچوں کو کورونا سے کتنا خطرہ ہے اور کیا وہ وائرس پھیلا سکتے ہیں؟

پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا میں کمی ضرور آئی ہے لیکن اب تک یہ ختم نہیں ہوئی ایسے میں حکام کے لیے تعلیمی اداروں میں احتیاطی طریقوں یا ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی اداروں کو کھولنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

تعلیمی اداروں کو کھولنے کے لیے ایس او پیز یا احتیاطی ہدایات تو جاری کی جا رہی ہیں لیکن ان ہدایات پر عمل درآمد کیسے ہوگا، اس وقت محکمہ تعلیم اور حکومتی سطح پر اس بارے میں سوچ بچار جاری ہے۔

اگرچہ وفاقی سطح پر یہ کہا جا رہا ہے کہ تعلیمی ادارے 15 ستمبر تک کھولے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سات ستمبر کو مرکزی سطح پر ایک اجلاس منعقد ہوگا جس میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر سے وزارت تعلیم کے عہدیدار شرکت کریں گے۔ اس اجلاس کے بعد حتمی طور پر تعلیمی اداروں کو کھولنے کا اعلان ہو سکتا ہے۔

کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جن عوامل کی ضرورت ہے کیا پاکستان کے تمام سرکاری سکولوں میں دستیاب ہیں؟ اگر یہ دستیاب نہیں ہیں تو اس کے لیے حکومت کیا کر سکتی ہے اور ایسے میں اس وائرس کو دوبارہ پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

چیلنجز کیا ہیں؟

بیشتر سکولوں میں سماجی دوری کو برقرار رکھنے کے لیے جگہ ناکافی ہے۔ پاکستان میں کئی ایسے سکول ہیں جہاں صرف ایک یا دو کمرے ہیں اور شدید موسم کے دوران تمام بچوں کو ان کمروں میں بٹھانا مشکل ہو سکتا ہے۔

سرکاری سطح پر جو ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں ان کے تحت ہر کلاس روم میں 25 طلباء ہونے چاہییں جبکہ یہاں اوسطً ایک کلاس روم میں 37 بچے ہوتے ہیں۔ بیشتر ایسے سکول ہیں جہاں طلباء کی تعداد 70 سے 80 تک بھی بتائی گئی ہے۔

کورونا، سکول

محکمہ تعلیم کے حکام نے اس کے علاوہ جراثیم کش سپرے، صابن، سینیٹائزرز، ماسک اور پانی کی عدم فراہمی کو بھی چیلنج قرار دیا ہے اور اس کے لیے فنڈز کی فراہمی ضروری قرار دی گئی ہے۔

پاکستان میں بڑی تعداد میں ایسے سکول ہیں جہاں ٹوائلٹ نہیں ہیں اور ایسے سکول بھی ہیں جہاں پانی دستیاب نہیں ہے ایسے میں بچوں اور عملے کا بار بار ہاتھ دھونا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

سکول کھلنے کے بعد اساتذہ اور سکول کے ہیڈ ٹیچرز کا ان ایس او پیز پر عمل درآمد کے بارے میں غیر تربیت یافتہ ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ سکولوں میں بچوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی ہے ایسے میں جب اساتذہ کو تربیت نہیں ہوگی تو بچوں سے وہ کیسے ان ضابطوں پر عمل درآمد کروا سکیں گے؟ اس کے لیے ان اساتذہ کی تربیت کا انتظام بھی کرنا ہوگا۔

محکمہ تعلیم کے حکام نے دیگر چیلینجز کے ساتھ یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ اگر کوئی بچہ اور سٹاف میں سے کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو ایسے میں ان بچوں یا سٹاف کے محکمہ صحت کے ساتھ رابطے کا کیا طریقہ ہوگا اور ان کو کیسے صحت کے محفوظ مراکز تک پہنچایا جا سکے گا۔

اس کے علاوہ تعلیمی اداروں کی بندش سے جو وقت ضائع ہوا ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات اور پالیسی طے کرنا اور محکمہ تعلیم میں ایسے یونٹ کا قیام ضروری ہے جو ان ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے سکولوں کو ایڈوائزری جاری کرے اور ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔

خیبر پختونخوا میں سکولوں کے حالات

خیبر پختونخوا میں محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق کل 33 ہزار 477 سکول ہیں جن میں 6458 سکول جو 19 فیصد بنتے ہیں، ان میں طلبا اور طالبات کے لیے بنیادی ضرورت یعنی پانی تک دستیاب نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی 4889 سکولوں میں ٹوائلٹ نہیں ہے۔

اس طرح سماجی دوری اختیار کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ خیبر پختونخوا کے سکولوں میں طلبا اور اساتذہ کی شرح 37 ہے یعنی 37 طلباء کے لیے ایک استاد جبکہ ایک کلاس روم میں اوسطاً 39 بچے ہوتے ہیں۔

ایسے حالات میں محکمہ تعلیم کے حکام نے تجویز دی ہے کہ ایک کلاس میں 25 بچے ہونے چاہییں۔ اس وقت حکام کے مطابق سب سے بڑا چیلنج پرائمری اور سیکینڈری سکولوں میں ہو سکتا ہے جہاں 23 سے 28 فیصد پرائمری اور 32 فیصد سیکنڈری سکولوں یہ مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے جہاں طلباء اور طالبات کی تعداد کہیں زیادہ بتائی گئی ہے۔

حکام کے مطابق مڈل سکولوں میں طلباء کی کلاس رومز میں شرح 25 تک ہی بتائی گئی ہے اس لیے ان سکولوں میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

جہاں تک کلاس رومز میں جسمانی فاصلہ رکھنے کا تعلق ہے تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت بڑی تعداد میں سکول ایسے ہیں جن میں ایک یا دو کمرے ہیں اور طالب علموں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں 12 ہزار 563 سکول جو سکولوں کی مجموعی تعداد کا 38 فیصد بنتے ہیں ان میں صرف ایک یا دو کمرے ہیں یعنی یہ سکول صرف ایک یا دو کمروں پر ہی مشتمل ہیں ان میں کلاس رومز اور اساتذہ کے بیٹھنے کی جگہ صرف یہیں ہے۔

صوبے میں بعض ایسے علاقے ہیں جہاں کلاس رومز میں بچوں کی تعداد کم ہے مثال کے طور پر اورکزئی ایجنسی میں کلاس رومز میں بچوں کی تعداد اوسطا 21 ہے لیکن باجوڑ ایجنسی میں بچوں کی تعداد 82 تک بتائی گئی ہے۔

کورونا، سکول

ایس او پیز کیا ہیں؟

تعلیمی اداروں میں ضابطوں کے نفاذ پر زور دیا جا رہا ہے جن سے اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس کے لیے رہنما اصول تیار کیے جا چکے ہیں جن میں تعلیمی اداروں میں جراثیم کش سپرے کرنا ضروری ہوگا بچوں کو صفائی کی تلقین کرنا اور انھیں بتانا لکہ بار بار ہاتھوں کو صابن سے 20 سیکنڈ تک دھویا جائے۔

سکول میں تھرمل سکینر کا ہونا ضروری ہے جس سے بخار چیک کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ایسے بچے یا عملے کے ایسے ارکان جو کسی متاثرہ مریض کے ساتھ رابطے میں رہے ہوں وہ 30 دنوں تک سکول نہ آئیں۔ اسی طرح بڑی عمر کے اساتذہ یا وہ اساتذہ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہے ان کے لیے مناسب فیصلے کرنا اور تربیت یافتہ اساتذہ کی ڈیوٹی لگانا بھی ضروری ہے جو بچوں کو سماجی دوری اور جسمانی دوری سے آگاہ رکھیں۔

اس کے علاوہ اساتذہ کے لیے رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں کہ بچوں کی نگرانی کیسے کرنی ہے اور سکول کو جراثیم سے پاک کیسے رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ٹوائلٹ کے استعمال اور کھیل کود کے بعد پسینہ آنے کی صورت میں صفائی کا خیال کیسے رکھنا ہے، جبکہ بچوں کو کھانا گھر سے لانے کی تلقین کرنی ہے۔

یہ تجاویز بھی دی گئی ہیں کہ جن سکولوں میں طلباء کی تعداد زیادہ ہے وہاں دو شفٹوں میں کام کرنا چاہیے یا ایسے مقامات کی نشاندہی کی جانی چاہیے جہاں محفوظ طریقے سے بچوں کو تعلیم دی جا سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے کاروباری مراکز اور دیگر ادارے کھولے گئے اور ان کے لیے ایس او پیز تو جاری کیے گئے، لیکن ان پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا، اسی طرح تعلیمی اداروں کے لیے ایس او پیز تو جاری کر دیے گئے ہیں اور اس طرف توجہ بھی دی جا رہی ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو کنٹرول کرنا اور ان ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp