ظالم مرد سے برابری کی خواہش رکھتی ہے


آئیے آج آپ کی ملاقات ظالم مرد سے کرواتی ہوں۔ وہ مرد جو بہت ظالم ہے عورت پر ظلم ڈھاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی گرم دن ہے، سورج انسانوں سے بیر باندھے ہوئے ہے۔ سخت دھوپ ہے اور ظالم مرد ہی مرد ہیں۔ کوئی ظالم کڑکتی دھوپ میں لوگوں کو ٹھنڈا رکنے کے جتن (قلفی بیچنے ) میں مصروف ہے، کوئی ظالم تیز دھوپ میں چلتے چلتے آوازیں کس رہا ہے۔ اس کی دلیری کی حد دیکھیے کہ راہ چلتی خواتین کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت عام دے رہا ہے، آجاؤ آجاؤ کہاں جانا میں چھوڑ دوں، آ جائیں بیٹھ جائیں، مجال ہے جو اسے ذرا بھی شرم ہو، ظالم اتنا بے حیا ہے کہ دعوت دیتے ہوئے اپنی چاند گاڑی سٹارٹ ہی رکھتا ہے۔

سنا ہے ایک دن حشر کا ہوگا جب سورج سوا نیزے پر ہوگا۔ لیکن سچی بات ہے حشر کے ایسے دن آتے رہتے ہیں کہ گرمیوں کے دن اکثر حشر سامانیاں ساتھ لاتے ہیں، اور ان دنوں میں بھی ظالم مرد ظلم سے باز نہیں آتا۔ ایسے ہی حشر بھرے ایک دن مارکیٹ تک جانا ہوا۔ یہ وہ مارکیٹ نہیں جس کو موجودہ زبان میں شاپنگ مال بولا جاتا ہے اور جس کے دکاندار اے سی کی ٹھنڈک میں برینڈ کے نام پر کسٹمر سے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ آپ پوش علاقوں سے دور اور ان میں موجود شاپنگ مالز سے باہر آئیے۔

یہ شہر کا بڑا بازار ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں۔ دکانوں میں اے سی کی جگہ پنکھے لگے ہیں اور پنکھے بھی ایسے کہ چلنے کے باوجود ہاتھ کے پنکھے سے ہوا لینی پڑتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اکثر دکاندار بجلی کی دستیابی کے باوجود پنکھا بند کیے بیٹھے ہیں گاہک کے آنے پر پنکھا چلا لیا جاتا ہے، ان کے لباس بھیگے ہوئے ہیں اور ان کے قریب گزرنے سے پسینے کی ناخوشگوار تیز بو آتی ہے۔ ایسی مارکیٹوں میں چیزیں سستی ہوتی ہیں ہر چیز تھوڑا سا منافع رکھ کر بیچ دی جاتی ہے پھر بھی گاہک قیمت کم کروانے پہ مصر رہتے ہیں۔ دکاندار قسمیں کھاتا ہے کہ صرف پچاس روپے بچت رکھ کے مال بیچ رہا ہوں لیکن گاہک بھی بڑا گھاگ ہے وہ بیس روپے سے زائد منافع دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ کبھی دکاندار گھاٹے میں بیچ دیتا ہے تو کبھی اس کو معمولی سی بچت ہو جاتی ہے۔ یہی حال لگ بھگ سبھی دکانداروں کا ہے جس پہ اس جیسے دوسرے ظالم مرد بیٹھتے ہیں۔

چلیں یہاں سے بھی باہر آئیے۔ شہر کی ایک مصروف شاہراہ پہ چلتے ہیں یہاں قریب ہی اتوار بازار لگا ہے، یہاں دنوں کے نام کی مناسبت سے بازار لگتے ہیں، کبھی اتوار کبھی منگل تو کبھی جمعرات یا جمعہ بازار۔ اس بازار میں گاڑیوں کا ازدحام ہے، کوئی پیدل چل رہا ہے کوئی سواری پر ہے۔ سڑک کے دوسری طرف لگے بازار میں مختلف ٹھیلے والے کھڑے آوازیں دے رہے ہیں۔ پچاس روپے کلو، کوئی آواز لگاتا ہے بیس روپے بیس روپے، ہر مال بیس روپے، کوئی کہہ رہا ہے چیزیں سستی ہوگئی ہیں آجاؤ خرید لو۔ انھیں گاڑیوں کا دھواں اور سورج کی دھوپ دونوں میسر ہیں، دونوں مل کر گرمی کی شدت کو بڑھا رہے ہیں، ان کے پاس پنکھا موجود نہیں، البتہ ان ظالموں نے ٹھیلے کے اوپر ایک گھسی ہوئی چادر لگا کر خود کو دھوپ سے بچانے کی ناکام کوشش کر رکھی ہے۔

اک اور جگہ حشر کا بازار لگا ہے جہاں مختلف عمروں کے ظالم مرد پیروں میں گھسی ہوئی چپل اور تن پہ گندا اور بوسیدہ لباس پہنے اپنی پیٹھ پر تیس چالیس کلو وزن لادے ہوئے ادھر سے ادھر جا رہے ہیں، ان میں سے کئی عمر رسیدہ ہیں اور بوجھ سے ان کی کمر جھکی جاتی ہے، لیکن وہ اپنی دھن میں مست منزل آنے تک چلے جا رہے ہیں۔ سامان کو منزل تک پہنچانے کے بعد وہ نیا بوجھ اٹھانے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

ایک نظر ادھر بھی ڈالیے ، ایک کثیرالمزلہ عمارت زیر تعمیر ہے۔ کوئی ظالم زیر تعمیر عمارت کی نویں منزل کی دیواریں بنانے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کا پیر پھسلتا ہے اور وہ اونچائی سے گرتے ہی دم توڑ گیا ہے اس کے ساتھ کام کرتا دوسرا مرد (مزدور) گرنے والے سے بھی زیادہ ظالم ہے کہ اس نے اپنا کام نہیں چھوڑا۔ ایک ظالم مرد گٹر کے اندر کھڑا ہے، یہ وہ ظالم ہے جو گھر کے اندر گند دیکھ کر کراہت کھاتا ہے، گندگی سے دور بھاگتا ہے لیکن باہر اپنی ڈیوٹی نبھانے کسی بند پائپ کو کھولنے کندھوں تک گندگی میں ڈوبا کھڑا ہے۔ اس کے پاس کوئی حفاظتی کٹ نہیں اور اسے یہ پرواہ بھی نہیں کہ اسے جراثیم لگ جائیں گے اس کو آنے والے کل کی بھی پرواہ نہیں۔ اس ظالم کو فکر ہے تو یہ کہ اس کے گھر میں موجود لوگ رات کی روٹی کھا کر سوئیں۔

یہ سارے ظالم مرد جو تپتے سورج کے نیچے کھڑے ہو کر کام کرتے ہیں۔ انھیں سخت گرمی میں پنکھے کی سہولت تک میسر نہیں لیکن جنھیں یہ سہولت میسر ہے وہ بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ وہ بچت کرتے ہیں، ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اے سی یا پنکھے کی عیاشی کرسکیں لیکن ان کو اتنی فکر ضرور ہے کہ گھر میں موجود اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرسکیں۔ گھر سے مزدوری پہ نکلنے والے مرد اکثر دن بھر بھوک برداشت کرتے ہیں تاکہ واپسی پر بچوں کے لیے کچھ لے جائیں۔

کبھی سوچا ہے کہ ظالم مرد یہ ساری محنت کیوں کرتے ہیں۔ وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گھر والوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں کبھی اس ظالم کی آنکھوں میں جھانکا ہے جو اپنے گھر کی طرف اٹھنے والی آنکھیں نکال لینا چاہتا ہے۔ کبھی اس ظالم کہلائے جانے والے مرد کی حالت دیکھی ہے جو ملازمت کے دوران مالک کی بلاوجہ کی گالیاں کھاتا ہے اور ساری ذلت پورے اہتمام کے ساتھ سر جھکائے سہتا رہتا ہے۔ پتہ ہے وہ یہ سب کیوں کرتا ہے؟

کیونکہ وہ اپنے گھر میں موجود افراد سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ سارے ظالم مرد اتنی محنت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو سکون میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان ظالموں کو اپنے بیوی بچوں سے اتنی شدید محبت ہوتی ہے کہ خود سخت گرمی برداشت کر کے بیوی بچوں کو گرمی سے بچانے کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ وہ لگاتار کام کرتے ہیں، بوجھ ڈھوتے ہیں تاکہ ان کا گھر چلتا رہے، اس کے گھر میں موجود افراد کو روٹی ملتی رہے ان کی ضروریات پوری کرنے والا ظالم مرد اپنی ضرورت کی چیزیں ہمیشہ بھول جاتا ہے۔ بیوی بچوں کو ٹھنڈا پانی فراہم کرنے والا گرم مزاج مرد دھوپ کی تمازت جھیل کر عورت کو پنکھے کی عیاشی فراہم کرنے والا مرد بھلا کیسے ظالم ہو سکتا ہے۔

وہ عورتیں جو مرد کے برابری کے حقوق مانگتی ہیں ایسی مغرب سے متاثر شدہ خواتین کو احساس تک نہیں کہ وہ اس ظالم مرد کی وجہ سے کس قدر عیش کرتی ہیں اس نے مغرب کی عورت کی آزادی سن رکھی ہے، مغرب کی عورت کی زندگی اتنی آسان بھی نہیں جتنی اس نے سمجھ رکھی ہے، جبکہ یہاں کے ظالم مرد نے ساری ذمہ داری لے کر خود کو مظلوم ظاہر کرنے والی عورت کو ہر طرح کی فکر و پریشانی سے آزاد کر رکھا ہے، ظالم مرد نے ساری فکریں اپنے لیے رکھی ہیں۔

مجھے ان خواتین پہ حیرت ہوتی ہے جو سمجھتی ہیں کہ وہ گھر میں سارا دن کام میں جتی رہتی ہیں اور مرد باہر عیاشی کر کے آتا ہے۔ اگر عورت کو مرد ظالم ہی لگتا ہے تو ایک دن اپنے کام کا تبادلہ اپنے گھر کے مرد سے کر کے دیکھے، کبھی کسی بس کے پیچھے لٹک کر کام پہ جائے، کبھی بوجھ ڈھوئے تو کبھی بھاری سامان لے کے دو دو تین تین منزلہ عمارتوں میں پہنچائے۔

عورت کو کھڑا دیکھ کر مرد اپنی سیٹ پیش نہ کرے، جہاں لڑائی ہو تو عورت مرد کے آگے کھڑی ہو، منوں کے حساب سے جو بوجھ مرد اٹھاتا ہے وہ عورت خود اٹھائے تو پھر عورت کا مرد سے برابر حقوق مانگنے کا تقاضا سمجھ بھی آئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).