اماراتی ڈرون اور چینی میزائل: لیبیا کے کیڈٹس کو کیسے نشانہ بنایا گیا؟


لیبیا، طرابلس، متحدہ عرب امارات

کیڈٹس معمول کی مشقیں کر رہے تھے جب ڈرون کے ذریعے انھیں نشانہ بنایا گیا

بی بی سی کو اس حوالے سے نئے ثبوت دستیاب ہوئے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے ایک ڈرون نے جنوری 2020 میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کی ایک ملٹری اکیڈمی میں 26 غیر مسلح کیڈٹس کو ہلاک کر دیا تھا۔

چار جنوری کو حملے کے دن طرابلس خود کو لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کہلانے والے گروہ کے محاصرے میں تھا۔

ایل این اے نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور خیال پیش کیا ہے کہ کیڈٹس مقامی طور پر ہونے والی شیلنگ سے ہلاک ہوئے ہوں گے۔

مگر ثبوتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیڈٹس کو ایک چینی بلیو ایرو 7 میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ میزائل ونگ لُونگ دوئم کہلانے والے ایک ڈرون سے فائر کیا گیا تھا اور بی بی سی افریقہ آئی اور بی بی سی عربک ڈاکیومنٹریز نے بھی ثبوت حاصل کیے ہیں کہ اس حملے کے وقت ونگ لُونگ دوئم ڈرون صرف ایک لیبیائی ایئربیس الخادم سے آپریٹ کر رہے تھے اور متحدہ عرب امارات نے ہی یہاں موجود ڈرون پہنچائے اور انھیں آپریٹ کیا تھا۔

اس سے قبل متحدہ عرب امارات نے لیبیا میں عسکری مداخلت کے الزامات کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے امن مرحلے کی حمایت کرتا ہے۔

اس کے علاوہ اس نے بی بی سی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیے

فرانسیسی میزائل لیبیا کے باغی جنرل تک کیسے پہنچے؟

کیا روس، ترکی چاہتے ہیں کہ لیبیا اگلا شام بن جائے؟

لیبیا کے پناہ گزینوں کی کشتی جو غائب ہو گئی

کیڈٹس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟

چار جنوری 2020 کو نو بجے کے کچھ ہی دیر بعد 50 کے قریب کیڈٹس طرابلس کے جنوب میں واقع ایک ملٹری اکیڈمی میں اپنی معمول کی مشقیں کر رہے تھے۔

کسی وارننگ کے بغیر اس گروپ کے بیچوں بیچ ایک دھماکہ ہوا جس کی وجہ سے 26 کیڈٹس ہلاک ہوگئے یا مرنے کی حد تک پہنچ گئے۔ کئی کیڈٹس اب بھی ٹین ایجر تھے اور ان میں سے کوئی بھی مسلح نہیں تھا۔

بیس سالہ عبدالمعین بچ جانے والے کیڈٹس میں سے ہیں۔

حملے کے وقت وہ اکیڈمی کے اندر موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘یہ ناقابلِ بیان تھا۔’

‘ہم اپنے ساتھیوں کو مرتے ہوئے، آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ کچھ ایسے لوگ تھے جن کے جسم کے بالائی حصے ان کی ٹانگوں سے الگ ہو چکے تھے۔ یہ نہایت شرمناک جرم تھا، ایسا جرم جس کا انسانیت سے دور دور تک کا تعلق نہیں۔’

حملے کے سات ماہ بعد اب تک کسی نے ان نوجوان افراد کی ہلاکت کی ذمہ دار قبول نہیں کی ہے۔

جنرل خلیفہ ہفتر کی زیرِ سربراہی ایل این اے نے حملے میں ملوث ہونے کی ذمہ داری سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکہ مقامی طور پر فائر کیے گئے کسی مارٹر گولے کے سبب ہوا ہوگا یا پھر حملہ اکیڈمی کے اندر سے ہوا ہوگا۔

لیبیا، طرابلس، متحدہ عرب امارات

بی بی سی کو کیا معلوم ہوا ہے؟

بی بی سی کی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ جدید اسلحے کا استعمال کیا گیا ہے۔

حملے کے بعد پریڈ کے میدان میں پڑے رہ جانے والے چھرے کی تصاویر دیکھ کر بی بی سی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ بلیو ایرو 7 کہلانے والے میزائل کے حصوں سے مماثلت رکھتا ہے۔

ہمارے تجزیے میں طرابلس کے اوپر جنوری 2020 میں پرواز کرنے والا صرف ایک ہی ایسا طیارہ سامنے آیا ہے جو یہ میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور یہ وِنگ لُونگ دوئم کہلانے والا ڈرون تھا۔

اس حملے سے صرف تین ہفتے قبل اقوامِ متحدہ بھی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ بلیو ایرو 7 میزائل ‘وِنگ لُونگ دوئم سے داغے جانے کے لیے بیلسٹک اعتبار سے ہم آہنگ ہے، لیبیا میں اب تک شناخت کیے گئے کسی اور طیارے کے ذریعے نہیں۔’

بی بی سی نے یہ بھی پتا لگانے کی کوشش کی کہ یہ ڈرون کہاں سے آیا ہوگا اور اسے ثبوت ملے کہ حملے کے وقت وِنگ لُونگ ڈرون صرف ایک لیبیائی ایئربیس الخادم سے آپریٹ کر رہے تھے۔ یہ ایئربیس ایل این اے کے زیرِ انتظام مشرقی لیبیا میں ہے۔

بی بی سی اور اقوامِ متحدہ دونوں کو اس حوالے سے ثبوت ملے ہیں کہ اس ایئربیس سے اڑنے والے ڈرون متحدہ عرب امارات کے ہیں۔

سنہ 2019 میں اقوامِ متحدہ نے پایا کہ لیبیا میں وِنگ لُونگ ڈرونز اور بلیو ایرو 7 میزائل بھیج کر متحدہ عرب امارات نے سنہ 2011 سے اس ملک میں ہتھیاروں کی ترسیل پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کی ہے۔

بی بی سی کو ایک ہتھیاروں کی دستاویز بھی ملی جس کے مطابق 2017 میں متحدہ عرب امارات نے 15 وِنگ لُونگ ڈرون اور 350 بلیو ایرو 7 میزائل خریدے تھے۔

لیبیا، طرابلس، متحدہ عرب امارات

بی بی سی نے اور کیا معلوم کیا؟

بی بی سی کی تحقیقات میں نئے ثبوت سامنے ائے ہیں کہ مصر متحدہ عرب امارات کو لیبیا کی سرحد کے قریب موجود مصری فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔

بظاہر لیبیا میں تعینات وِنگ لُونگ دوئم ڈرونز کو سرحد کے دوسری جانب مصر کے ایک ایئربیس میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

سیٹلائٹ تصاویر سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایک اور مصری فوجی ایئربیس سیدی برانی کو میراج 2000 لڑاکا طیاروں کے لیے آپرینٹنگ بیس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ ان پر وہ رنگ موجود ہیں جو مصری فضائیہ کے نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات کے جیٹ طیاروں سے ہوبہو مشابہت رکھتے ہیں۔

یہ طیارے کا وہی ماڈل ہے جسے اقوامِ متحدہ نے جولائی 2019 میں طرابلس کے مشرق میں واقع ایک پناہ گزین مرکز پر حملے میں ملوث ٹھہرایا تھا۔

اس حملے میں 53 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

سیدی برانی ایئربیس متحدہ عرب امارات سے پرواز کرنے والے مال بردار طیاروں کی بھی منزل ہوتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر یہ متحدہ عرب امارات اور لیبیائی سرحد سے 80 کلومیٹر دور ایک فوجی ایئربیس کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے۔

مصری حکومت نے بی بی سی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔

کیا غیر ملکی فوج کا ملوث ہونا حیران کُن ہے؟

متحدہ عرب امارات اور مصر نے رواں سال جنوری میں جرمن چانسلر اینگلا مرکل کی جانب سے برلن میں منعقد کی گئی کانفرنس برائے لیبیا میں شرکت کی تھی جہاں انھوں نے اقوامِ متحدہ کے امن مرحلے کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا اور لیبیا کی جنگ میں مداخلت سے باز رہنے پر اتفاق کیا۔

مگر گذشتہ ایک سال میں دونوں نے اس تنازعے میں ڈرون طیاروں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔

لیبیا میں اقوامِ متحدہ کے مشن کے سابق سربراہ غصن سلامے نے اسے ‘ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا ڈرون جنگ کا میدان’ قرار دیا ہے۔

متحدہ عرب امارات اس تنازعے میں شریک واحد غیر ملکی قوت نہیں ہے۔

رواں سال کی ابتدا میں بی بی سی افریقہ آئی نے انکشاف کیا تھا کہ ترکی بھی طرابلس میں اقوامِ متحدہ کی تسلیم کردہ حکومت کو لیبیا میں ہتھیاروں کی ترسیل پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے عائد ترسیل پر پابندی کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔

ترکی کی حمایت سے اقوامِ متحدہ کی تسلیم کردہ قومی معاہدے کی حکموت نے جنرل ہفتر کی ایل این اے کو طرابلس کے قریبی علاقوں سے پیچھے دھکیل دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp