وفاقی محتسب میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں


ساری دنیا کے فکشن میں ایسے کئی کردار ملتے ہیں جو لوگوں تک انصاف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انصاف پہنچانے کی بابت یہ کردار فکشن میں ہیرو ہوتے ہیں۔ اگر فکشن کی بجائے حقیقی دنیا میں ایسے ہیرو کی صورت دیکھنی ہوتو وفاقی محتسب کے ہیڈآفس اسلام آباد جانا پڑے گا جہاں پر آپ کی ملاقات موجودہ وفاقی محتسب اعلیٰ سید طاہر شہباز سے ہوگی۔ پاکستان میں سینکڑوں چھوٹے بڑے سرکاری محکمے ہیں جن میں لاکھوں چھوٹے بڑے سرکاری ملازمین و افسران کام کرتے ہیں۔

ان لاکھوں سرکاری ملازمین و افسران سے پاکستان کے کروڑوں عوام کو کسی نہ کسی صورت میں واسطہ پڑتا ہے۔ انہی سرکاری ملازمین کے بے شمار معاملات باہمی جھگڑوں، محکمانہ نا انصافیوں اور زیادتیوں وغیرہ کے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف کروڑوں شہریوں کی شکایتیں سرکاری محکموں سے ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازمین کے اپنے معاملات ہوں یا شہریوں کے سرکاری محکموں سے گلے شکوے، ان مسائل کی حتمی دادرسی نہ ہونے کی صورت میں عرضی دینے والے کے لیے عدالتیں ہی واحد سہارا رہ جاتی ہیں لیکن عمومی عدالت کے میکانزم میں جاکر انصاف کے حصول کی کوشش کرنا ہرسائل کے بس میں نہیں ہوتا۔

وکلاء کی فیس، گھڑی کے ڈائل پر چکر لگاتی سیکنڈ کی سوئی سے زیادہ عدالتوں کے چکر اور اشٹام فروشوں سے لے کر منشی سے مقدمے کی نئی تاریخیں لینے تک کی انسانی رسوائی سے عاجز آکر کئی مظلوم انصاف کو اللہ کے سپرد کرکے صبرشکر کرکے گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں وفاقی محتسب کا دفتر ان کے لیے امید کی کرن نہیں بلکہ امید کا چاند ثابت ہوتا ہے۔ لوگوں کی دہلیز تک آسانی سے فوری انصاف پہنچانے والے اس چار چاند دفتر کا سربراہ اگر نوکری سے زیادہ انصاف کے لغوی معنوں کو عملی جامہ پہنائے تو وہ چاند چہرہ ہی کہلائے گا۔

موجودہ وفاقی محتسب اعلیٰ اسم بامسمٰی ہیں۔ ان کا نام ان کے اوصاف کو ٹھیک ٹھیک ثابت کرتا ہے۔ سید یعنی اہل سادات کی خصوصیات ان کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ طاہر یعنی پاکیزگی ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔ شہباز یعنی ان کی پرواز دوسروں سے بلند اور نشیمن قصر سلطانی کی بجائے انصاف کی چٹانوں پر ہوتا ہے۔ جو لوگ سید طاہر شہباز کو طالبعلمی کے زمانے سے جانتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ نوجوان سید طاہر شہباز کو ملنے اور دیکھنے سے ایک دم یہ احساس ہوتا تھا کہ ان میں وہ تمام صلاحیتیں قدرت کی طرف سے بلٹ ان ہیں جو انہیں مستقبل میں روشنی کا مینار بنا دیں گی۔

سی ایس ایس کے امتحان میں اس وقت کے ڈی ایم جی اور موجودہ پی اے ایس کیڈر میں بہترین کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے لے کر ٹاپ گریڈ 22 کی دبنگ افسرانہ ملازمت تک کے دوران سید طاہر شہباز پر ایک چھینٹا بھی نہیں پڑا جس سے ان کی چادر میلی ہوئی ہو۔ وہ شروع سے ہی با اختیار مگر باعزت بڑے افسر رہے۔ وہ جہاں بھی گئے ان کے رعب اور دبدبے کی وجہ باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج کی انکساری بھی تھی۔ سیدطاہر شہباز نے 2017 ء میں ساتویں وفاقی محتسب اعلیٰ کی حیثیت سے چارج سنبھالا یعنی لکی 7 ہوئے۔

ان کی شخصیت کے اثرات اس ادارے پر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ وفاقی محتسب میں مقدمہ دائر کرانے کے لیے درخواست دینا اتنا ہی آسان ہے جتنا کچھ عرصہ پہلے خط لکھنا آسان تھا۔ ایک سادہ کاغذ پر اپنا حال دل لکھ کر حوالہ ڈاک کر دیا جائے تو وفاقی محتسب کا دفتر محبوب کی تڑپ کی مانند اسے وصول کرتا ہے اور ظالم سماج کی تمام دیواریں توڑکر بغیر کوئی دیر کیے اسی روز موصولہ درخواست پر کارروائی شروع کردیتا ہے۔ درخواست ملنے کے اگلے روز ہی شکایت کنندہ کو شکایت نمبر اور سماعت کے بارے میں معلومات ایس ایم ایس کے ذریعے بھیج دی جاتی ہیں اور سارے فریقین کی شنوائی کے بعد ٹھیک 60 دن کے اندر شکایت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔

گویا نہ وکیل کی فیس، نہ عدالتوں کے چکر، نہ اشٹام فروش اور نہ منشی سے تاریخ لینے کے لیے انسانی رسوائی۔ وفاقی محتسب کے پاس روزانہ سینکڑوں درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن کے ساتھ ایک سا سلوک کیا جاتا ہے۔ وفاقی محتسب اعلیٰ سید طاہر شہباز نے 2019 ء میں 74869 شکایات کے فیصلے کیے ۔ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کی تاریخ میں اب تک کسی ایک سال میں کیے جانے والے یہ سب سے زیادہ فیصلے ہیں اور ان میں سے 97 فیصد فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہوچکا ہے۔

ان میں سب سے زیادہ شکایات 2019 ء میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں اور سوئی گیس کے علاوہ نادرا، پاکستان پوسٹ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، پاکستان بیت المال، پاکستان ریلوے، سٹیٹ لائف انشورنس، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ای او بی آئی کے خلاف تھیں۔ موجودہ سال یکم جنوری سے 30 جون 2020 ء تک 6 ماہ کے اندر 47285 شکایات موصول ہوئیں اور ان میں سے 41071 شکایات کے فیصلے کردیئے گئے۔ وفاقی محتسب میں شکایت کرنے والے کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوتا لیکن مقدمے کی کارروائیوں کی عرق ریزی میں وفاقی محتسب کا خون پسینہ ایک ہوجاتا ہے۔

سید طاہر شہباز منجھے ہوئے باوقار سول سرونٹ ہونے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی رہ چکے ہیں اس لئے انہیں دفتری معاملات کی چالاکیوں اور عدالتی امور میں التواء کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے۔ انہوں نے مختلف اداروں کے نظام کی اصلاح کے لیے سفارشات تیار کیں جنہیں سپریم کورٹ نے نہ صرف سراہا بلکہ جیلوں اور تھانوں کی اصلاح کے لیے سفارشات تیار کرنے کا بھی کہا۔ پنشن لینے کے لیے ناتواں بوڑھوں کو خود جاکر نیشنل بینک کے سامنے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔

وفاقی محتسب اعلیٰ سید طاہر شہباز نے تاریخ ساز فیصلہ دیا کہ پنشن پنشنروں کے اپنے کسی بھی بینک اکاؤنٹ میں چلی جائے اور وہ اے ٹی ایم کے ذریعے بھی اپنی پنشن نکلوا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پنشنروں کے دل سے کسی کے لیے دعا نکلتی ہے تو وہ سید طاہر شہباز ہی ہیں۔ وفاقی محتسب کے دفتر میں بچوں کے معاملات کی شکایات کے حوالے سے نیشنل چلڈرن کمشنر کا دفتر قائم کیا گیا جس پر سابق چیف سیکرٹری اعجاز احمد قریشی کی بطور کمشنر تقرری کی گئی۔

اس کے علاوہ نامور قانون دان ایس ایم ظفر کی سربراہی میں ارکان پارلیمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینئرافسران پر مشتمل نیشنل چلڈرن کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ یہاں ایک اہم تجویز تحریر ہے کہ دنیا بھر میں خصوصی افراد کل آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں۔ یعنی پاکستان کے 22 کروڑ افراد میں سے تقریباً ساڑھے تین کروڑ افراد براہ راست معذوری کا شکار ہیں۔ ان کے مسائل کی شدت عام فرد سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر وفاقی محتسب خصوصی افراد کے معاملات نمٹانے کے لیے اپنے ہاں ایک علیحدہ دفتر قائم کردیں تو ان کا یہ قدم بھی ایک روشن مثال ثابت ہوگا۔

سید طاہر شہباز نے وفاقی محتسب کے عملی کاموں کو 21 ویں صدی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھی لنک کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں مقدمات کی سماعت اور پیروی کے لیے سکائپ، ایمو اور انسٹاگرام ایپس کو زیراستعمال لایا جا رہا ہے۔ تجویز ہے کہ رابطے کے مزید آسان اور بہتر ذریعے زوم کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ وفاقی محتسب نے انصاف لوگوں کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے او سی آر کے نام سے ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کے تحت وفاقی محتسب کے افسران تحصیل ہیڈکوارٹرز میں جاکر مقدمات کی سماعت کرتے ہیں۔

ان مقدمات کا فیصلہ 45 دن میں کر دیا جاتا ہے۔ سید طاہر شہباز کے اس انقلابی قدم کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کی تجویز ہے کہ او سی آر کے مقدمات کی سماعت اگر زوم یا سکائپ کے ذریعے شروع کردی جائے تو ان مقدمات کے سلسلے میں افسران کے دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی بچت ہوگی۔ ایشیائی ممالک کے محتسب کے دفاتر کی ایشین امبڈسمین ایسوسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے جس کے ارکان کی تعداد 44 ہے۔

پاکستان کے موجودہ وفاقی محتسب اعلیٰ سید طاہر شہباز گزشتہ برس اس تنظیم کے دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ یہ سید طاہر شہباز کی خدمات کا انٹرنیشنل سطح پر شاندار اعتراف ہے۔ سید طاہر شہباز ایک منتظم کے طور پر عقابی نگاہ انتخاب رکھتے ہیں اور جوہر شناس بھی ہیں۔ یعنی اپنے ماتحت افسران کے چناؤ کے موقع پر وہ میرٹ کو اولین ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل امیدواران کی سلیکشن کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے وفاقی محتسب میں ایڈوائزر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو اوورسیز پاکستانیوں کا شکایت کمشنر مقرر کیا۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا تعارف کرانا سورج کو چراغ دکھانے جیسی طفلانہ حرکت ہوگی۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نامور مزاحیہ شاعر، پنجابی و اردو کے ادیب و صحافی، ریڈیو اور ٹی وی کے معروف پروگراموں کے میزبان، تعلقات عامہ کے ماہر اور دوستانہ محفلوں میں شمع محفل کے طور پر تو پہچانے ہی جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ وہ جہاں بھی گئے فاتح کہلائے۔ اکادمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اداروں کے درودیوار، راہداریاں اور رفقائے کار ان کی ان تھک محنت اور ناقابل تسخیر کامیابیوں کی گواہیاں دیتے ہیں۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے مزاج اور صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اوورسیز شکایت کمشنر کے دفتر کو نہ صرف بہت کارآمد بنا دیں گے بلکہ اپنے پلیٹ فارم سے دفترخارجہ کا ہاتھ بٹاتے ہوئے بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج بلند کرنے میں بھی بہت اہم ثابت ہوں گے۔ کسی بھی محکمے کے سربراہ کے لیے وہاں کے ماتحت افسران ا س کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ اس محاورے کی بناء پر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سید طاہر شہباز وفاقی محتسب کا چاند چہرہ اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید ستارہ آنکھیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).