فوزیہ رفیق کے پنجابی ناولٹ ”کیڑو“ کا ایک جائزہ


پاکستان میں کتنی مذہبی گھٹن ہے، کتنی تنگ نظری ہے اور کتنی منافرت ہے اس کا اظہار فوزیہ رفیق نے اپنے پنجابی ناولٹ ’‘ کیڑو ”میں کیا ہے۔ فوزیہ رفیق کینیڈا میں رہتی ہیں۔ اس سے پہلے ان کا پنجابی ناول سکینہ بھی سنجیدہ حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ فوزیہ رفیق ایکٹیوسٹ ہیں انگریزی زبان میں ارٹیکل لکھتی ہیں جو کینیڈا میں شائع ہوتے ہیں۔ اس ناول کا عنوان کیڑو یعنی کیڑے یا حشرات الارض ہے جو ایک شخص کا نام ہے۔

’‘ کیڑے نہ ہوں تو دنیا چار سال میں ختم ہو جائے گی، لیکن اگر دنیا سے انسان ختم ہو جائیں تو یہاں کوئی فرق نہیں پڑے گا ”

کیڑوؔ کینیڈا میں اپنی والدہ کا انتظار کر رہا ہے جس کے آنے میں ابھی تیس گھنٹے باقی ہیں وہ پریشان ہے کہ گھر کیسے صاف ہو گا، گھر میں والدہ کے بستر کے لئے نئی چادریں چاہیں وہ کیسے آئیں گی اور کوئی لڑکی جو میڈکے طور پر کام کر سکے اس کا بندوبست بھی ابھی کرنا ہے، وہ کیسے ہو گا۔

کیڑو نے ایک سلائی کا آدارہ کھول رکھا ہے جس میں دس بارہ عورتیں کام کرتی ہیں۔ وہ، ایک خاتون کو جو اس سے عمر میں زیادہ بڑھی نہیں ہے آنٹی کہتا ہے۔ اس کا نام نائلہ ہے۔ آنٹی نائلہ اس کے ورک روم کی سپروازئر ہے اور اس کی بزنس اسسٹنٹ مینجر۔ انٹی نائلہ اس کی پرسنل اسسٹنٹ کے طو رپر اس کے ذاتی کام کاج میں بھی مدد کرتی ہے اور کیڑو امید کرتا ہے کہ وہ جلد ہی اس کی بزنس پارٹنر بن جائیں گی۔ انٹی کے خاوند انکل رحیم چونکہ اپنی بیگم سے عمر میں بہت زیادہ بڑھے ہیں ان کے عمر میں بڑھا ہونے کی بنا پر وہ انہیں انکل اور اسی مناسبت سے ان کی مسز کو آنٹی کہتا ہے۔ انکل رحیم کے اس کے اوپر بہت زیادہ احسانات ہیں لہذا وہ ان کی بہت زیادہ عزت اور احترام کرتا ہے۔

مسائل ہر کسی شخص کے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں کیڑو کے بھی مسائل ہیں لیکن وہ دو مسائل کو اپنے لئے زیادہ اہم سمجھتا ہے ان میں سے ایک ہے اس کا نام اور دوسرا ہے اس کی والدہ۔ ان دونوں کی اس کی سمجھ نہیں آتی۔ ابھی وہ بہت چھوٹا تھا جب اسے اپنے نام کے معنی پتا چلتے ہیں کہ اس کا نام کیڑوؔ یعنی حشرات الارض یا کیڑوں کی مناسبت سے کیڑو ہیں۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر کا بیٹا عرفان ہے جسے وہ ہمیشہ عرفان صاحب کہہ کر مخاطب کرتا ہے وہ چونکہ ہیڈ ماسٹر کا بیٹا ہے اس لئے وہ احساس برتری کا شکار ہے اور اسے وہ اپنا کمی سمجھتا ہے چونکہ اس کی والدہ ان کے گھر کام کرتی ہے، جس کے ساتھ ہمیشہ ہی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، اگر گھوڑاگھوڑا کھیل کھیلنا ہے تو گھوڑا تو کیڑو بنے گا اور سوار عرفان صاحب جب کہ کیڑو کبھی بھی سوار بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر چور سپاہی کا کھیل کھیلنا ہے تو وہ چور تو بن سکتا ہے لیکن سپاہی نہیں۔ وہ اس کی تضحیک کرتے ہیں، مار پیٹ بھی کرتے ہیں اور گرے ہوئے کیڑو ؔ کو ٹھڈے بھی مارتے ہیں لیکن اس کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی حتی کہ اس کی ماں بھی اسے کام چھوڑ کر نہیں دیکھ سکتی کہ وہ ایک کام کرنے والی کا بیٹا ہے۔

کیڑو کی والدہ کیڑو کو مسجد میں داخل کرانے کے لئے لے جاتی ہے تو پہلے رس اور بسکٹوں کا ایک تھیلا اور باداموں کی گریوں کا ایک پیکٹ مولوی صاحب کے لئے خریدتی ہے جب کہ کیڑو کے لئے ایک کینوس کا بستہ اور نئی ربڑ کی چپل بھی خریدی جاتی ہے جس سے وہ بہت خوش ہے کہ پہلی دفعہ اس کے لئے کوئی نئی چیز خریدی گئی ورنہ ہمیشہ اسے استعمال شدہ چیزیں ہی ملی ہیں۔ مولوی صاحب تحفے میں دیے گئے رس بسکٹ اور بادام تو رکھ لیتے ہیں لیکن جب نام درج کرنے کی باری آتی ہے تو منشی صاحب کے نام پو چھنے پرجب بتایا جاتا ہے کہ اس کا نام کیڑو ہے تو پہلے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے پھر اس کے والد کا نام پوچھا جاتا ہے جو کہ محمد حسین بتایا جاتا ہے تو مولوی صاحب بگڑ جاتے ہیں اور لاحول پڑھ کر بڑے تضحیک امیز انداز میں کہتے ہیں کہ نہ تو اس کے نام کے ساتھ محمد صلم کے نام کا اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی حسین کا جب کہ اس کی والدہ اس کے نام کے ساتھ حسین کا اضافہ کرانا چاہتی ہے۔

جب اس سے اس کا اپنا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنا نام حلیمہ ایلس بی بی بتاتی ہے تو مولوی صاحب بگڑ کر اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم عیسائی ہو تو وہ کہتی ہے کہ اس کا باپ تو مسلمان تھا تو مولوی کہتا ہے کہ کیا یہ بچہ حرامی ہے؟ تو وہ کہتی ہے کہ میرا اس کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔ مولوی کہتا ہے کہ اس کے اسلام قبول کیے بغیر نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ تو وہ بتاتی ہے کہ اس نے اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے والدین نے اس کا نام بی بی رکھا تھا، پادریوں نے اس کا نام ایلس بی بی کر دیا اور مولوی نے نکاح کے وقت اس کا نام حلیمہ۔ جب اس کا شناختی کارڈ بنا تو اس کے خاوند نے اس کا نام وہاں حلیمہ ایلس بی بی لکھوا دیا۔ بچے کو داخل کرنے کی بجائے اسے ٹرخا دیا جاتا ہے ا ور اگلے دن آنے کو کہا جاتا ہے۔

جب اس مسجد کے مدرسے میں اس کا داخلہ نہیں ہو پاتا تو سکول کا چوکیدار اس مسئلے کا حل یوں نکالتا ہے کہ وہ اسے دوسری مسجد میں جانے کا کہتا ہے اور نام کا حل یوں نکلتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اس کا نام کیڑو خان ولد محمد حسین خان کر دو تو مسئلے کا حل نکل آئے گا۔

اب اس کے دفتر کے باہر اس کا نام محمد حسین کیڑو درج ہے۔ یہاں کینیڈا میں لوگوں کو کیڑو کے معنی پتا نہیں ہیں اس لئے اس سے کوئی اس کے متعلق پوچھتا بھی نہیں ہے۔ کیڑو کی مناسبت سے اس نے شاعری بھی شروع کر دی ہے اور اپنا تخلص کیڑو کر لیا ہے۔

آنٹی نائلہ ایک بڑے سٹور سے کیڑو کی والدہ کے لئے پچاس فیصد ڈسکاونٹ پر شاپنگ کرتی ہے جس پر وہ بہت زیادہ خوش ہے کہ ماں کی دعاؤں کی وجہ سے اسے اتنی بڑی ریلیف مل گئی ہے۔

کیڑو اپنا ماضی یاد کرتا ہے کہ جب کیڑو نے سوار بننے کے متعلق پوچھا تو عرفان صاحب نے اسے کہا تھا کہ کیا اس کی والدہ اس کے گھر کام کرتی ہے جو وہ گھوڑا بنے گا؟ تو اس طرح اسے اپنی حثیت کا پتا چلتا ہے۔ عرفان صاحب کے گھر سے کچھ انگریزی کی کتابیں کوڑے پر پھینک دی گئیں تھیں جنہیں کیڑو اٹھا لاتا اور سکول کے پٹھان چوکیدار کی مدد سے پڑھنا بھی شروع کر دیتا ہے یہیں اسے چنوں ملتا ہے۔ اب جب گھوڑا گھوڑا کھیلنے کی باری آئی تو چنوں گھوڑا بنا اور کیڑو سوار تھا۔

اس کے چند ہی سال بعد چنوں نے کیڑو پر توہین رسالت کا الزام لگا دیا۔ یہ 2006 ء کا واقعہ ہے۔ رمضان کے دن تھے گرمیوں میں سکول کے لڑکوں میں سے ایک کرسچن لڑکے نے آدھی چھٹی کے وقت نل سے پانی پیا تھا جس کی وجہ سے اس کی خوب پٹائی کی گئی۔ اسے لہو لہان کر دیا گیا۔ ان پٹائی کرنے والوں میں سکول کے ہیڈ ماسٹر کا بیٹا عرفان صاحب بھی تھا جب کہ وہ اس سکول کا اب طالب علم نہیں تھا وہ لاہور کے اسلامیہ کالج میں پڑھ رہا تھا جو چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔

کلاس میں جب بات ہوئی تو کیڑو نے کہا کہ روزے مسلمانوں کے ہوتے ہیں ہر کسی کے نہیں۔ ہمارے سکول میں کرسچن، سکھ اور ہندو سب پڑھتے ہیں ان کے روزے نہیں ہوتے۔ ایسا ظلم نہیں ہونا چاہیے اگر ایسا ہو تو پولیس کو بلانا چاہیے تا کہ قانونی کارروائی ہو سکے۔ کچھ بے چینی ہوئی۔ ماسٹر صاحب نے اس کی تعریف کی اور سب کے منہ بند ہو گئے۔ جسے ان لڑکوں نے اپنی تضحیک سمجھا اور افطاری کے بعد سکول کے دس بارہ لڑکوں نے عرفان صاحب اور اس کے دو تین ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر کیڑو کے گھر پر دھاوا بول دیا۔

اسے گالیاں دی گئیں، اسے چوڑا، مصلی اور حرام کاتخم تک کہا گیا اور کہا گیا کہ اس کی جرات کیسے ہوئی ان کے خلاف بات کرنے کی۔ جو اسلام کے رکھوالے ہیں ان پر پولیس بلانے کی با ت کیسے کی گئی۔ تم نام کے مسلمان ہو جب کہ اندر سے عیسائی ہو یہ توہین رسالت ہے اور اس کے ساتھ ہی توہین رسالت، توہین رسالت، بلاسفیمی کا شور اٹھا۔ اس کے بعد اس کی خوب پٹائی کی گئی اسے لہو لہان کر دیا گیا۔ چوکیدار خان صاحب کی مداخلت پر اس کی جان بچی۔

خان سے ڈرنے کی وجہ یہ تھی کہ خان کے پاس گن تھی اور اس نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی تھی جس سے لڑکے بھاگ گئے اور خان صاحب اسے اٹھا کر کلینک لے گئے۔ جہاں اس کی مرہم پٹی ہوئی۔ رات کو اس کی والدہ بچ بچا کر اس کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوئی اس کے گھر کی توڑ پھوڑ کی گئی تھی جب یہ وقوعہ ہوا وہ گھر پر موجود نہیں تھی۔

اس موقع پر فادر فرانسس اس کی مدد کو آتا ہے اور ایک تحریر لکھ دیتا ہے کہ کراچی میں موجود کوئی بین الاقوامی تنظیم اسے پاکستان سے باہر جانے میں مدد کرے گی جہاں وہ ریفوجی کے طور پر رہ سکے۔ اس لئے وہ کیڑو کو کراچی جانے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ بھی طے ہوجاتا ہے کہ کیڑو باہر جانے کے بعد اپنی والدہ کو بھی وہاں بلوا لے گا۔ اس طرح کیڑو زخمی حالت میں کراچی پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے کینیڈا پہنچ جاتا ہے۔

یہاں کینیڈا میں وہ بہت جلد اپنے کاروبار کو کامیابی سے چلانا شروع ہو جاتا ہے اس کے کاروبار میں روزبروز بہتری آتی جاتی ہے اور اس بہتری میں آنٹی نائلہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اسی دوران اس کی ایک کاروباری ملاقات دلجیت سے ہوتی ہے اس طرح اس کے سکھ کمیونٹی سے تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں وہ دلجیت کو اپنا پارٹنر بنا لیتا ہے۔

آنٹی نائلہ کی سفارش پرایک لڑکی کو ماں کی خدمت کے لئے رکھا جاتا ہے اس کا نام ازابیلا سرسوتی ہے جس کی مناسبت سے اسے بیلا کہا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں جن کا آپس میں محبت کا رشتہ ہے، بیلا بھی اس ٹیم کا حصہ بن جاتی ہے۔

یہاں پھر ہر کردار کی انفرادی کہانی بیان ہونا شروع ہوتی ہے۔ حلیمہ خوش ہے کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ یہا ں بیٹھ جاؤ اور یہاں سے آٹھ جاؤ۔ اس کو پکڑ لو اور اس کو چھوڑ دو۔ تم مسلمان ہو، تم عیسائی ہو، تم فلاں ہو، تم فلاں ہو۔ جیسے میری کوئی مرضی ہی نہ ہو۔

حلیمہ کو اپنا ماضی یاد آنا شروع ہو جاتا ہے اسے یاد آتا ہے کہ وہ چودہ سال کی تھی جب وہ اپنے چچا کے گھر سے بھاگی تھی جب کہ وہ کبھی گھر سے باہر نکلی ہی نہیں تھی وہ راستوں کو نہیں جانتی تھی وہ بس بھاگتی چلی گئی۔ رات ہوئی تو ایک درخت پر چڑھ گئی۔ جسم دکھ رہا تھا ساری رات وہ ڈرتی اور کانپتی رہی۔ صبح سویرے پھر چل پڑی چلتے چلتے سڑک آ گئی۔ اسے اکیلا دیکھ کر ایک بندہ اس کے پیچھے لگ گیا جہاں سے اس نے دوبارہ بھاگنا شروع کیا تو ایک بڑے گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہاں داخل ہو گئی اور وہیں اس گھر کے لان میں گر کر بے ہوش ہو گئی۔ یہ گھر ایک کرسچن خاتون کا تھا جو کسی کام کے لئے باہر آئی تو وہاں اسے بے ہوش پایا۔ وہ اسے اآٹھا کر گھر کے اندر لے گئی وہاں اسے صحت یاب ہونے میں ایک ماہ لگا۔

وہ بتاتی ہے کہ وہ ابھی چھوٹی تھی جب شعیہ سنی فساد ہوئے جس میں اس کے والد، والدہ اور دو بھائی مارے گئے۔ دادی نے کسی طرح اسے درخت کی کھو میں چھپا کر اسے بچایا پھر اسے چچی کے حوالے کر دیا۔ اسے اس کی چچی نے ہی پالا پوسا جب وہ چودہ سال کی ہوئی تو اس کی شادی ایک بوڑھے شخص کے ساتھ طے کر دی گئی جو لاٹھی کے سہارے چلتا تھا۔ اس سے پہلے بھی اس کی دو بیویاں تھیں۔ وہ گھر سے ہوائے ضروریہ کا بہانا کر کے نکلی اور پھر وہاں سے بھاگ نکلی اور اس طرح وہ سسٹر میری کے گھر پہنچی۔

یہیں اس نے گرجے میں جانا شروع کیا۔ ایک سال بعد وہ کرسچن ہو گئی۔ یہیں اسے محمد حسین ملا جس سے اس کی شادی ہو گئی۔ 1961 ء میں کیڑو کی پیدائش سے پہلے اسے شعیہ سمجھ کر ان کے گھر پر دھاوا بولا گیا جس میں اس کے والد اور والدہ کے ساتھ دو چھوٹے بھائی بھی مارے گئے۔ زمین پر قبضہ کرنے کے لئے پوری بستی کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ان کی کوٹھڑی کو بھی آگ لگا دی گئی اسی دوران کیڑو ؔ پیدا ہوا تو حلیمہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا اسے تو کیڑو ہونا چاہے تھا میں اسے کس بل میں چھپاؤں۔ اس طرح اس کا نام کیڑو ولد محمد حسین رکھا گیا بعد ازاں یہی نام کیڑو خان ہوا۔

حلیمہ بتاتی ہے کہ اس کی والدہ سکھ تھی 1947 ء میں تقسیم کے وقت وہ ریل گاڑی میں سوار تھی کہ مسلمانوں نے اس پر حملہ کر دیا گجرانوالا اسٹیشن سے عورتوں کو ٹرین سے اتار لیا گیا بہت سی عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اور پھر ان کو قتل کر دیا گیا۔ میری والدہ زخمی ہوئیں لیکن زندہ بچ گئیں۔ پاس کے گاؤں کا ایک جوان آدمی اسے اپنے گھر اٹھا لایا۔ اس گاؤں کا مولوی شعیہ تھا۔ اس نے اس کا علاج کراوایا خوراک کا بندوبست کیا اور صحت یاب ہونے پر مسلمان کر کے نکاح کر لیا۔

ان کے تین بچے ہوئے جن میں اس کے علاوہ دو بھائی بھی تھے۔ جب شعیہ سنی فساد ہوئے تو وہ اس وقت چار سال کی تھی جو اپنی دادی کی وجہ سے بچ پائی تھی پھر اس کی دادی نے اسے اس کے چچا کے حوالے کر دیا یہیں وہ چودہ سال کی عمر تک رہی اور شادی کے معاملے پر وہاں سے بھاگ آئی اور حالات اسے ایک گرجے تک لے گئے۔ جہاں ایک سال بعد وہ کرسچن ہو گئی، اس طرح اس کا نام ایلس بی بی ہو گیا اور شادی کے موقع پر اس کا نام حلیمہ ایلس بی بی کر دیا گیا۔

اسی طرح پھر نائلہ اور بیلا کی کہانیاں بیان ہوئی ہیں اور پھراگلی دہائی کے اغاز کا ذکر ہے جب ان پانچوں لوگوں نے بہت زیادہ محنت کے بعد مل کر کمپنی کو ترقی دی اور ایک بڑی کمپنی بنانے میں مدد کی اس کام میں نائلہ کے خاوند رحیم کو بھی شامل کر لیا گیا جو کہ ایکسیڈنٹ کے بعد مفلوج حالت میں گھر میں عرصے سے پڑا تھا جن کی وجہ سے نائلہ اور انکل رحیم کے درمیان اکثر ان بن ہو جاتی تھی۔

اگرچہ بعد ازاں پتا چلتا ہے کہ کیڑوؔ ’‘ گے ”ہے اور وہ دلجیت میں دلچسپی رکھتا ہے اس کی والدہ پہلے سے ہی اس کے رشتے کی تلاش میں تھی جب اسے پتا چلتا ہے کہ کیڑو کا انٹرسٹ دلجیت میں ہے تو وہ اس رشتے کو بھی قبول کر لیتی ہے کہ وہ ایک کردار منکے شاہ سے واقف تھی جو فراک پہنتا تھا اور اس کا تعلق بھی کسی مرد کے ساتھ تھا۔

مادھو لال حسین اگرچہ ”گے“ نہ بھی ہو لیکن حلیمہ مادھو لال اور شاہ حسین کے تعلق سے واقف تھی یہ مرد کی مرد سے محبت کی ایک مثال تھی۔ اس کے لئے مرد سے مرد کی محبت کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ بیلا کے کردار میں بھی تضادات ہیں لیکن یہاں وہ تمام معاملات کو بڑی خوش اسلوبی سے سنبھالتی ہے اور یوں یہ ناول اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے۔ اس ناولٹ کو پھیلایا جا سکتا تھا لیکن مصنفہ نے ان پانچوں کرادارں کی مختصر مختصر کہانیاں بیان کر کے ناولٹ کو فوری طور پر ختم کر دیا۔

فوزیہ رفیق کا یہ کہنا ہے کہ یہ ناولٹ پانچ انسانوں کی محبتوں اور ہمتوں کی کہانی ہے جو زندگی کے نفرتوں بھرے تالاب میں سے بھی کنول کے گلابی پھولوں کی طرح ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس ناولٹ کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ ناولٹ پی ڈی ایف میں دستیاب ہے۔ اس کا اردو ورژن بھی پاکستان میں شائع ہونا چاہیے۔

۔ ۔ ۔
’‘ کیڑو ”کو سانجھ پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).