محبت اور سرمایہ داری


دودھ سی سپید رنگت، سحر انگیز سرمئی آنکھیں، جبین نور افشاں، لب کہ شگفتگی گل سے مزین، گیسو کہ مشک ختن، سیمیں بدن کہ عالم کی بہاریں نثار ہوں، شیریں سخن کہ شہد کی مٹھاس پھیکی پڑنے لگے، غنچہ دہن کہ گل و گلاب اسے دیکھ سر جھکانے لگیں۔ بے رخی، کج ادائی اسے زیب دیتی تھی۔ زندگی اس پر نثار ہوا کرتی تھی۔ ماحول سے بے نیاز، آنکھوں میں طلوع آفتاب سے پہلے کے وقت کی چمک لئے، بے زاری چہرے پر سجائے، ٹانگ ٹانگ پر چڑھائے وہ پلاسٹک کی ایک بدنما سی کرسی پر بیٹھی تھی جب شہباز نے اسے پہلی بار دیکھا۔

اسے یاد نہیں کہ وہ کس لباس میں ملبوس تھی۔ یاد بھی کیسے ہوتا کہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹا پاتا تو لباس پر غور کرتا۔ وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ جو بھی پہنتی اس پر بھلا ہی لگتا۔ شہباز کی نگاہیں مسلسل اس کے چہرے پر مرکوز تھیں کہ جیسے اسے دیکھتے ہی منجمد ہو گئی ہوں۔ ایک سکتہ سا اس پر طاری تھا۔ حسن و موہ کی وادیوں میں کھوئے ہوئے وہ احمد فراز صاحب کی نظم کا شعر دہرانے لگا جو فراز صاحب نے شاید ایسی ہی کسی پری وش کے لئے کہا تھا

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

اسے احساس ہو چلا تھا کہ سفید کاٹن میں ملبوس لمبے بالوں والا فرنچ کٹ لڑکا پلکیں جھپکے بغیر اسے گھورے جاوے تھا۔ شاید وہ چور آنکھوں سے بار بار اسے خود کو گھورتا دیکھ رہی تھی۔ اس کی الجھن سے یہ بات صاف ظاہر تھی۔ شہباز تھا کہ حواس باختہ بس اسے دیکھے جاتا تھا۔ ناآشنا کہ اس کی الجھن کا باعث بنی جاتی ہیں اس کی یہ کمبخت آنکھیں۔ دل اس کی خوبصورتی، اس کی سادگی پر وا ہوا جاتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اس کے سنگ جینے کی خواہش شہباز کے دل میں پیدا ہو گئی تھی۔ شادی کا خیال بھی فوراً ہی آ دھمکا۔ وہ دل ہی دل میں اسے اپنا تصور کرنے لگا تھا۔ دل تخیل کی وادیوں میں اڑان بھر ہی رہا تھا کہ عقل نے ہوش سنبھالا۔ ضمیر سے ایک آواز بلند ہوئی کہ اے ناہنجار لونڈے وہ خواب دیکھتا ہے جو کبھی پورے نہ ہو سکیں۔

عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

شہباز اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ اس کا ملنا ممکنات میں نہیں مگر کیا دل پر کبھی کسی کو اختیار ہوا ہے؟

ڈیپارٹمنٹ کی گیلری میں اس پری وش کو چلتا دیکھ شہباز کی آنکھیں اس پر مرکوز ہو جایا کرتی تھیں اور وہ انگشت بہ دنداں اس کا تعاقب کرنے لگتا تھا۔ دوستوں کے ہمراہ خوش گپیوں میں مصروف وہ شہباز سے، اس کے احساسات، اس کے جذبات سے قطعاً لاعلم تھی۔ اور شہباز میں اتنی جرات نہ تھی کہ اسے مخاطب کر پاتا، اسے کچھ بول پاتا۔ اس سے بات کرتے کسی بھی لڑکے کے لئے نفرت اور غصہ شہباز کی رگ رگ میں سرایت کر جاتا تھا۔ وہ حسد کی آگ میں جلنے لگتا۔ شاید یہ فطری عمل ہے۔ مگر انسان کے اندر جلتی حسد کی یہ آگ سب سے پہلے اسی انسان کو جلایا کرتی ہے۔ کہ داغ دہلوی کہ گئے ہیں

شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا

ایک عرصہ تک شہباز کی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں، اسے ڈھونڈتی رہیں۔ قدم اس کے نشانوں پر چلتے رہے۔ دل میں جذبات کا الاؤ جلتا رہا۔ زندگی کی تمام تر مصروفیت کے باوجود وہ اس کے دل و دماغ پر قابض ہوتی جا رہی تھی۔ فراق گورکھپوری نے اس حالت کو یوں بیان کیا ہے

تری نگاہ کی صبحیں، نگاہ کی شامیں
حریم راز یہ دنیا جہاں نہ دن ہیں نہ رات

پھر اچانک زندگی نے رخ بدلا۔ حالات و واقعات بدلتے چلے گئے۔ کیفیات بدل گئیں، احساسات بدل گئے۔ تقدیر کہ انسان پر ہمیشہ غالب رہی ہے ایسی ایسی حقیقتیں آشکار کرتی ہے کہ عقل دم بخود ہو جایا کرتی ہے۔ حالات نے گھیرا ایسا تنگ کیا کہ شہباز زندگی کی الجھنوں میں الجھتا چلا گیا۔ وہ ایک متوسط گھرانے کا لڑکا تھا اور حالات نے دیوالیہ کر دیا۔ زندگی ایک کھلی کتاب کی صورت سامنے آنے لگی۔ دل میں جذبات ک الاؤ قید کیے، زندگی کی الجھنوں سے بر سر پیکار، شہباز جان چکا تھا کہ محبت سے گھر نہیں چلا کرتے۔ جذبات کی آگ پر روٹی نہیں پکتی۔ خوبصورتی سے پیٹ نہیں بھرا کرتے۔

مگر۔ ۔ ۔ مگر دل کہاں کسی کی سنتا ہے۔ وہ تو بس حاکمیت کرنا جانتا ہے۔ مجبور کرنا جانتا ہے۔ غلام بننا اور بنانا جانتا ہے۔ حقیقت اور جذبات کی جنگ میں جذبات جیت جایا کرتے ہیں۔

حالات سے لڑتا لڑاتا، شہباز جب زندگی کو ایک خاص ڈگر پر لانے میں کامیاب ہوا تو فرط جذبات میں ایک دن ساری کیفیت بیان کر ڈالی۔ کیا کہا، کیسے، کیونکر یاد نہیں۔ جذبات کو الفاظ مل جائیں تو ایک وقتی سکون کا احساس ہوتا ہے۔ مگر شہباز کے مقدر میں وہ سکون بھی نہ تھا۔

وہ پری وش بھی کم سمجھدار نہ تھی۔ شاید وہ محبت کے رموز سے واقف تھی۔ وہ حقیقت اور خوابوں کا فرق سمجھتی تھی۔

وہ جانتی تھی کہ تیسری دنیا کے غلام معاشرے کے افراد جو معاشی و معاشرتی لحاظ سے آزاد نہ ہوں، محبت کے خواب نہیں بنا کرتے۔ وہ حقیقت کا انکار نہیں کیا کرتے۔ شہباز بھی ایک ایسے ہی غلام معاشرے کا فرد تھا جہاں روزی روٹی کی دوڑ دھوپ میں انسان کو اپنے خواب کچلنے پڑتے ہیں۔ جہاں ماں باپ بچوں کو پڑھاتے بناتے، ان کی زندگیاں سنوارتے اپنی خواہشات کا قلع قمع کرتے بوڑھے ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ اس معاشرے سے جدا کیسے ہو پاتا۔ حسن کی وہ دیوی اس بات سے واقف تھی کہ ابھی ان خوابوں کو پروان چڑھانا اس غلام معاشرے کے دو خاندانوں کا درد سر بن سکتا تھا۔ یہاں بنیادی ضروریات پوری کرتے انسان دم توڑ دیا کرتے ہیں۔ وہ جانتی تھی کہ زندگی کی الجھنوں میں محبتیں دم توڑ دیا کرتی ہیں۔

کون عاشق خدا کی ذات کا ہے
سارا جھگڑا معاشیات کا ہے

محبت سے گھر تھوڑی چلا کرتے ہیں۔ جذبات کے الاؤ پر روٹی تھوڑی ہی پکتی ہے۔ خوبصورتی سے پیٹ کہاں بھرا کرتے ہیں۔

محبت اور سرمایہ داریت میں سرمایہ داریت غالب آ جاتی ہے۔ یہی دستور ہے یہی حقیقت۔ زندگی کی حقیقتیں آشکار ہوں تو انہیں قبول کرنا چاہیے۔ سرمائے سے جنگ میں محبت ہار گئی۔ مگر اس غلام معاشرے کا ایک آزاد فرد نہیں۔

اب وہ اور اس کا قلم سرمایہ داری کے خلاف پرسرپیکار ہیں۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).